تحریر : وقار احمد اعوان کہتے ہیں ذہنی و جسمانی سکون کی نہ صرف انسانوں بلکہ کرہ ارض پر ہر سانس لینے والے مخلوق کو ضرورت پڑتی ہے، چند گھنٹے کا آرام سارے دن کی تھکاوٹ کو دور کر دیتا ہے، لیکن اگر بے آرامی بھی مسلسل ہوجائے تو انسان تو انسان ہر ذی روح آپے سے باہر رہے یا پھر دوسرے الفاظ میں پاگل ہو جائے۔جیسے آرام ذہنی و جسمانی ضرورت ہے ٹھیک اسی طرح انسان کے ذہن کو آرام فراہم کرنے کا دوسرا ذریعہ تفریح بھی ہے۔تفریح یا تفریح کے مواقع انسانوں کی بستی میں انہیں ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات استوار رکھنے میں بھی مددگار ثابت ہوتے ہیں۔جہاں ایک علاقہ کے باسی کسی باغ یا پارک کارخ کرتے ہیں،وہاں قریبی علاقوں کے باشندے سے ان کا براہ راست واسطہ پڑتاہے،یوں ان میںثقافتی ،لسانی ودیگر قدریں پروان چڑھتی ہیں، بہرکیف صوبائی حکومت نے پشاور کی عوام کے لئے بالخصوص جبکہ نوشہرہ ،مردان ،چارسدہ ،کوہاٹ وغیرہ کے بالعموم پاکستان کا سب سے بڑاچڑیا گھر دے کر ان کا دیرینہ مطالبہ پورا کر دیا ہے۔
چڑیا گھر جس باقاعدہ افتتاح گزشتہ روز وزیر اعلیٰ پرویزخٹک نے کیا میں صوبہ میںپائے جانے والے گلدار وبرفانی تیندوے،مارخور،ہرن ،کیل،پاڑہ ہرن،نیل گائے،چنکاراہرن،اڑیال،کالا وبھوراریچھ ،پرندوں جن میں عقاب،چکور،تیتر،بطخوںکی اقسام رکھے گئے ہیں۔اس کے علاوہ شیر کا جوڑا،شترمرغ،زیبراباہر سے منگوائے گئے ہیں۔گزشتہ رو زچھٹی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم چڑیاگھر دیکھنے پہنچ گئے لیکن وہاں جاکر کیا دیکھتے ہیںکہ لوگوں کا ایک اژدھام موجود ہے۔اتنی بڑی تعداد میںمردوں،عورتوں اوربچوں کودیکھ کر ہم ایک طرف خوش تو دوسری طرف گھبرا رہے تھے کہ خدانخواستہ کوئی تخریب کار اس موقع سے فائدہ نہ اٹھالیںیاپھردوسرے الفاظ میںاگر افواہ بھی پھیلا دی جاتی تو بھگدڑ میںسینکڑوں زخمی ہوجاتے۔خیر ساتھ آئے ہوئے خالہ زاد نے مشکل سے دوٹکٹ حاصل کئے اورہم چڑیاگھر کے اندرداخل ہونے میں کامیاب ہوگئے۔حالانکہ ہم اپنا کارڈدکھا کر مفت میںبھی داخل ہوجاتے تاہم پہلی بار آنے میںمفت خوربننے سے گریز کیا۔پارک کے داخلی دروازے پر کسی بھی قسم کی کوئی رکاوٹ ،واک تھروگیٹ وغیرہ کا انتظام موجود نہ تھا،جس سے ہماری گھبراہٹ میںمزیداضافہ ہواکیونکہ جتنی تعداد چڑیاگھر کے باہر موجود تھی اس سے کئی گنا زیادہ چڑیاگھر کے اندر۔مردوعورتیں ساتھ اپنے پیارے پیارے بچوں کے ہمراہ کبھی ایک تو کبھی دوسرے پنجرے کے پاس جاکھڑے ہوتے۔
یہاں انتہائی افسوس سے چڑیاگھر میںہرطرف خالی بوتلیں،چپس کے ریپرز وغیرہ ایسے پڑے نظرآرہے تھے،جیسے پورے شہر کا کچرا چڑیاگھر میںپھینک دیاگیاہو،اورتو اورشیر کو جگانے کے لئے باقاعدہ خالی بوتلوں کا استعمال کیا گیا جس سے ہماری اخلاقی گراوٹ کی عمدہ مثال ملی۔چڑیاگھر چونکہ ہر خاص وعام کے لئے کھولاگیاہے اس لئے معزز شہریوں کے علاوہ آوارہ،اوباش نوجوانوں کی بھی ایک کثیر تعداد اِدھر اُدھر اپنے لچھے پن کے ساتھ نظرآئی کہ جن کی آمد کا مقصد چڑیاگھر یااس میں موجود جانوروں کو دیکھنا نہیں بلکہ وہاںپر موجود سینکڑوں خواتین پر اپنی گندی نگاہیں ڈالنا،ان کا باقاعدہ پیچھا کرنا،آوازیں کسنا تھا،ایسے مناظر اگر کسی کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کرلئے جاتے تویقیناہم سب شرم سے پانی پانی ہوجاتے۔بہرکیف ہم مذکورہ باتوںکو لکھنے کی جسارت خاص اس مقصد کے لئے کررہے ہیںکہ ان تمام باتوں کا مستقبل میںتدارک کیا جانا چاہیے۔کہ جن کی بدولت شہر کے معزز خاندان کہیں آنے جانے سے یکسر قاصر ہیں۔
اس لئے حکام بالا کے لئے چند تجاویز پیش کرتاہوں۔سب سے پہلے تو چڑیا گھر کو صرف فیملیز کے لئے مختص کیا جانا چاہیے تاکہ اوباش ،آوارہ ودیگر عقل سے پیدل نوجوانوںکا راستہ روکاجاسکے۔چڑیاگھر کے اندر داخلے کے لئے باقاعدہ واک تھر و گیٹ کا مناسب بندوبست ہوناچاہیے تاکہ کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے بروقت نمٹاجاسکے۔چڑیاگھر کی سیر کے لئے آنے والوںکو سختی سے ہدایات جاری کی جائیںکہ چڑیاگھر کو صاف ستھرا رکھنے میںاپنا کرداراداکریں،ساتھ کسی بھی غلطی کی صورت میں باقاعدہ جرمانہ کیا جاناچاہیے۔تاکہ عوام چڑیاگھرکی خوبصورتی کو برقراررکھنے میں اپنا مثبت کرداراداکرسکیں۔یہاں قابل غوربات کہ صرف فیملیز کے لئے مختص کرنے سے پشاور سمیت ملحقہ اضلاع کے معزز خاندان اپنے عیال سمیت چڑیاگھر کا رخ کریںگے جس سے چڑیاگھر کی اہمیت صحیح معنوںمیںاجاگر کرنے میںمددملے گی۔کیونکہ گزشتہ روز کے ناخوشگوارواقعے سے یہ ضرور معلوم ہوچکا کہ ہمارے ہاں اسی فیصد نوجوان کسی بھی تفریحی مقام کا رخ صرف غیر عورتوںکو چھیڑنے کی غرض سے کرتے ہیں باقی انہیں قدرتی ماحول،چڑیاگھر،جنگلی جانوروں سے کوئی لینا دینا یا انہیں دیکھ سے اپنے علم میں اضافہ نہ کرنا ہے۔اس لئے ضرورت اس امرکی ہے کہ صوبائی حکومت ،محکمہ جنگلی حیات اس بارے انتہائی سنجیدہ اقدامات اٹھائے تاکہ پشاور کے عوام جو ایک عرصہ سے دہشت گردی کے عفریت میں گرفتا رتھی کو سستی اور باعزت تفریح میسر آ سکے۔