تحریر : واٹسن سلیم گل لکھنے بیٹھتا ہوں تو صورتحال تبدیل ہو جاتی ہے۔ ملک میں انتشار کی سی کیفیت ہے کوئ مانتا ہے تو مانے نہی تو میں لکھ کر اپنا فرض پورا کرونگا کیونکہ ہم مسیحیوں کی یہ تحریریں گواہ ہیں کہ ہم حقیقی پاکستانی ہیں اور ہمارا بھی حصہ ہے کہ ہم ایسے واقعات کی نشاندہی کریں جس سے ہمارے ملک کا نام بدنام نہ ہو۔اس وقت پاکستان میں سیا سی عدم استحکام ہے غیر جمہوری قوتیں اور جمہوری قوتؤں کے درمیان مقابلے میں فرق یہ ہے کہ جمہوری ٹولے آپس میں دست و گریبان ہیں۔ملک کے اندر جو کچھ ہو رہا ہے وہ تو ہے ہی مگر جو خطرات پاکستان کو اپنی داخلی پالیسیوں کے نتیجے میں خارجی سطع پر ہیں وہ کسی کو نظر نہی آرہے ہیں۔ دہشتگدری کے خلاف ہزاروں جانیں دینے کے باوجود بھی ہم دنیا کو متاثر کرنے میں ناکام رہے ہیں کہ ہم دہشتگردوں کے ہمدرد نہی ہیں۔اور ہم پر الزام ہے کہ ہم ایٹمی قوت ہیں تو ہماری انتہا پسندی دنیا کے لئے خطرات کا سبب بن سکتی ہے۔
انڈیا روز ہماری سرحدوں کی خلاف ورزی کر رہا کہ مگر کسی کو خبر نہی ہے مگر ہم انڈیا اور انفعانستان میں کچھ بھی کرتے تو صفائیاں دینی پڑ جاتی ہیں۔دنیا میں مؑصوم بچوں کی پیدئیش کے فوری بعد موات میں ہم افریقہ کے دوردراز ممالک سے بھی گئے گزرے ہیں۔ کبھی جی ایس پی پلس کے کھونے کا ڈر تو کبھی ایف اے ٹی ایف کی واچ لسٹ پر نام کی پریشانی۔ ہماری خارجہ پالیسی میں ناکامی کا یہ حال ہے کہ ہم سارک جیسی کانفرنس منعقد کرنے جوگے نہی رہے ہیں۔ حالات خراب ہوں تو انسان حالات کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرتا ہے اور پھر حالات کے ٹھیک ہونے کا انتظار کرتا ہے مگر بد نصیبی یہ ہے کہ مجھے تو حالات ٹھیک ہوتے نظر نہی آرہے ہیں بلکہ خدانہ خواسطہ مستقبل میں مزید مشکلات نظر آرہی ہے۔ بھارت، امریکہ سمیت ساری دنیا جماعت الدعوۃ اورحافظ محمد سعید کو امن کا دشمن تصور کرتے ہیں جبکہ حافظ سعید کا رویہ پاکستان میں اور پاکستان سے باہر دہشتگردوں والا نہی ہے۔
اسکے باوجود پاکستان پر دنیا کی نظریں ہیں مگر اس وقت ایک جماعت تحریک لبیک یا رسول اللہ کے نام سے موجود ہے جو کہ دن بہ دن ترقی کر رہی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ اس جماعت کی ترقی میں پاکستان کی ترقی ہے یا نہی۔ یہ جماعت پاکستان میں کسی کے بھی کنٹرول میں نہی ہے اور ابھی راولپنڈی کے حالیہ دھرنے میں اس جماعت نے حکومت وقت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ۔ اس جماعت کے سربراہ کھلے عام حکومت عدلیہ اور سول سوسائٹی کو فحش گالیاں دیتے رہے مگر کو ان سے پوچھنے والا نہی ہے۔ اقلیتوں کے حوالے سے بھی پاکستان کی شہرت اچھی نہی ہے اسکے باوجود بھی اقلیتیں پاکستان کی بقا اور سلامتی کے لئے آگے رہتی ہیں۔مگر پھر بھی حالات برے ہیں۔ ابھی دودن قبل شاہدرہ لاہور کے ایک 18 سالہ پطرس مسیح کے خلاف تحریک لبیک والوں نے الزام لگایا کہ اس نے توہین آمیز تصاویر فیس بُک پر پوسٹ کی ہیں پطرس مسیح ایک بینک میں صفائ کا کام کرتا ہے۔ تحریک لبیک کے سینکڑوں لوگوں نے علاقے کے مسیحیوں کو گھیر لیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پولیس کی ایک بڑی تعداد بھی موجود تھی مگر وہ اس مشتعل ہجوم کو روکنے کے بجائے خاموش کھڑے کسی بڑے حادثے کا انتظار کرتے رہے۔
کچھ مسیحی راہنماؤں نے پطرس مسیح کو پولیس کے حوالے کر دیا مگر تحریک لبیک کے راہنما حافظ محمد اویس جس نے پطرس مسیح کے خلاف 295/ سی کے تحت مقدمہ قائم کروایا اس پر بھی بس نہی کیا پطرس مسیح کو تھانے میں تشدد کیا۔ پھر کورٹ میں ریمانڈ لینے کے وقت سیشن جج کے کمرے میں تحریک لبیک کے کارکنوں نے مارا۔ پطرس مسیح کے ریمانڈ پر ایف آئ اے کے سُپرد کیا گیا جہاں پطرس مسیح اور اس کے کزن ساجد مسیح کے ساتھ وہ شرمناک سلوک کیا گیا جو کہ کسی دوسرے ملک کے جاسوس کے ساتھ بھی نہی کیا جاتا۔ ایف آئ اے کے ایک اہلکار خالد شاہ اور دیگر پولیس والوں نے ان دونوں کو مارا پطرس مسیح کو برہنہ کر دیا اور ساجد مسیح پر دباؤ ڈالا کہ وہ پطرس کے ساتھ بد فعلی کرے ساجد نے کہا کہ خداکے واسطے یہ ظلم نہ کرو وہ میرا چھوٹا بھئ ہے مگر خالد شاہ اسے مارتا رہا کہ بد فعلی کرو اس حالت سے دل برداشتہ ہو کر ساجد مسیح نے چوتھی منزل سے چھلانگ لگا دی اس کی حالت تشویشناک ہے۔ مگر اس حالت میں اس کا ایک ویڈیو بیان سوشل میڈیا پر چل رہا ہے۔ حیرت یہ بھی ہے کہ یہ خبرپاکستان کے مین اسٹریم میڈیا کی توجہ حاصل نہی کر سکی ۔ ساجد مسیح کی دونوں ٹانگیں کئ جگہ سے ٹوٹ گئ ہیں اور بہت سی ہڈیاں ٹوٹی ہیں۔
پطرس مسیح اور ساجد مسیح کا یہ حال ہے جبکہ ابھی پطرس مسیح صرف ملزم ہے مجرم نہی ۔ بات یہاں ختم نہی ہوئ بلکہ تحریک لبیک والوں نے فیصل آباد کے علاقے الہیٰ آباد ، وارث پورہ اور داود نگر میں مسیحیوں کو ہراساں کر رہے ہیں چرچز پر سفید رنگ کر کے وہاں تحریک لبیک یا رسول اللہ کے نعرے لکھ دئے گئے ہیں۔ مسیحیوں کے احتجاج کی سزا دی گئ اور پانچ مردوں سمیت ایک خاتون پر توہین مزہب کی ایف آئ آر درج ہوگئ۔ میں اگر دعویٰ کرتا ہوں کہ پاکستان میں بدقسمتی سے انتہا پسندی میں اضافہ ہو رہا ہے جو کہ اقلیتوں کے لئے تو خوفناک ہے ہی مگر پاکستان کے لئے زیادہ خطرناک ہے۔ نوے کی دہائ میں پاکستان میں توہین رسالت کے قوانین کے خلاف بات بھی ہوتی تھی اور برداشت بھی، احتجاج بھی ہوسکتا تھا۔ میں خود ایک بھوک ہڑتال کا حصہ رہا ہو۔ ہمارے اردگرد مسلمان موجود ہوتے تھے وہ ہماری بات سۃنتے بھی تھے۔ مگر آج آپ توہین رسالت کے قوانین پر احتجاج تو کیا بات بھی نہی کر سکتے۔
پاکستان دنیا کا واحد مسلمان ملک ہے جو ان قوانین کی وجہ سے دنیا میں بدنام ہو رہا ہے اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اس قانون کا غلط استمعال کیا جارہا ہے۔ مشرق وسطع سمیت عرب ممالک میں لاکھوں پاکستانی ، بھارتی، فلپائنی، بنگالی کام کرتے ہیں ہر مزہب کے لوگ کام کرتے ہیں مگر گزشتہ پچاس سالوں کا ریکارڈ دیکھ لو سکون ہی سکون۔ مگر پاکستان میں ایسا کیوں ہو رہا ہے اور اس میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے اس کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ آج سے دس سال پہلے تک انتہا پسند سیاسی جماعتوں کو لوگ ووٹ نہی دیتے تھے مگر اب صورتحال مختلف ہو رہی ہے اور تحریک لبیک یا رسول اللہ کے ووٹوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ متوازی سوچ کی حامل سیاسی جماعتیں پیپلز پارٹی اور ایم کیو یم کے ہاتھ باندھے جا رہے ہیں۔ خدا پاکستان کی حفاظت کرے یہ دعا تو کرتا ہوں مگر یہ بھی سوچتا ہوں کہ خدا بھی ان قوموں کے حالات بدلتا ہے جو اپنے حالات خود بدلنے کی کوشش کرتے ہیں۔