تحریر : سید انور محمود لندن، برطانیہ کا دارالحکومت اور سب سے بڑا شہر ہے۔ لندن دنیا کے ممتاز تجارتی، معاشی اور ثقافتی مراکز میں سے ایک ہےاور تقریباًً دو ہزار سال پرانی آبادی، اس کی بنیاد قدیم رومیوں نے رکھی تھی۔ اُنیسویں صدی سے نام “لندن’’، اُن تمام علاقوں تک پھیل گیا، جو اس کے اطراف و اکناف میں آباد ہوئے تھے، اور آج آبادیوں کا یہ ہجوم لندن، برطانیہ کے علاقوں اور عظیم لندن کے انتظامی علاقے اور مقامی طور پر منتخب میئر اور لندن دستور ساز مجلس کا حامل ہے۔لندن بہت سے قسم کے لوگوں، مذاہب اور ثقافتوں کا گہوارہ ہے، اس شہر میں سو سے زائد زبانیں بولی جاتی ہیں۔ 2006ء کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق لندن کی آبادی 75,12,400 تھی جو کہ عظیم لندن کی حدود میں ہے۔ یہ آبادی کے لحاظ سے یورپی اتحاد کا سب سے بڑا شہر ہے۔جبکہ اب کہا جاتا ہے کہ لندن کی موجودہ آبادی دس ملین یعنی ایک کروڑ کے قریب ہے۔
5مئی 2016ء لندن کےلیے ایک اہم دن تھا جب اس شہر کے باسیوں نے براہ راست اپنے شہر کے نئے میئر کا انتخاب کیا۔لندن کے میئر کا عہدہ انتہائی اہم اور قابل احترام تصور کیا جاتا ہے۔ مئیر کے لیے کل 12 امیدوار تھے جن میں سے اصل مقابلہ لیبر پارٹی کے صادق خان اور کنزرویٹو پارٹی کے زیک گولڈ اسمتھ کے درمیان تھا۔برطانوی لیبر پارٹی کے صادق خان پہلے مسلم سیاستدان ہیں جن کو لندن کے میئر ہونے کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔صادق خان کی کامیابی کے پیچھےانکا عوامی مسائل کی نشاندہی اور انکے حل پر بات کرنا تھا۔
اپنے مدمقابل زیک گولڈ اسمتھ کے ساتھ انتخابی مہم کے دوران انہوں نے لندن میں رہائش کے مسئلے پر کئی مرتبہ بحث کی۔ ان کے خیال میں لندن میں ہر سال 80 ہزار نئے مکانات تعمیر کیے جانے چاہیں اور ان میں سے 50 فیصد کی قیمت ایسی ہونی چاہیے جو عام آدمی کی پہنچ میں ہو، جبکہ زیک کے خیال میں 50 ہزار نئے مکانات کی تعمیر ہونی چاہیے ۔ انتخابی مہم کے دوران صادق خان نے لندن میں مقامی آمدنی کے مطابق پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایہ پر بھی خصوصی توجہ دی۔انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایوں کو 4 سال کے لیے منجمد کر دیں گے جبکہ کامیابی کے بعد صادق خان کا کہنا تھا کہ وہ لندن میں بسنے والے تمام افراد کی بہتر انداز میں نمائندگی کریں گے۔ زیک گولڈ اسمتھ کی صادق خان کو شدت پسندی سے جوڑنے کی تمام تر انتخابی کوششوں کا الٹا اثر ہوا اور صادق خان سے زیادہ ووٹ برطانیہ میں آج تک کسی سیاستداں کو نہیں ملے؟۔
PTI
لندن میں میئر کی انتخابی مہم کے دوران جب چیئرمین تحریک انصاف عمران خان لندن گئے ہوئے تھے تواس دوران سوشل میڈیا پر وہ صادق خان کے مقابلے میں زیک گولڈ ااسمتھ کی حمایت کرتے ہوئے اُنہیں لندن کے میئر کیلئے بہترین امیدوار قرار دے رہے تھے۔ عمران خان سیاستدان ہونے کے ناطے میئر لندن کے انتخابات میں غیر جانبدار پالیسی اختیار کرتے تو بہتر ہوتا۔عمران خان کے اس اقدام نے لیبر پارٹی سے تعلق رکھنے والے تحریک انصاف کے کارکنوں کو مشکل میں ڈال دیاتھا اور وہ خاصے دلبرداشتہ نظر آئے۔ جب صادق خان سے اس حوالے سے سوال کیاگیا تو انھوں نے ہنستے ہوئے کہا کہ شکر ہے کہ لندن میں عمران خان کا ووٹ نہیں ہے۔صادق خان کی کامیابی کے بعد عمران خان سے جب لندن کے میئر کے الیکشن میں ان کے بچوں کے ماموں زیک گولڈ اسمتھ کی شکست کے بارے میں سوال کیا گیا تو وہ مسکرا دیئے اور مزید کچھ نہ کہا۔
پاکستانی وزیر اطلاعات پرویز رشید جو عمران خان کی مخالفت کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ہیں اپنے ایک بیان میں لندن کا میئر منتخب ہونے پر پاکستانی نژاد برطانوی شہری صادق خان کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ پاکستانی نژاد کی جیت پاکستانیوں کے لئے خوشی کا سبب ہے، محنت کش کے بیٹے کی فتح پر پاکستانیوں کا سر فخر سے بلند ہو گیا۔وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ عمران خان لندن میں اپنے اہل خانہ کے ہمراہ پاکستانی نژاد شہری کے خلاف مہم چلاتے رہے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ زیک گولڈ اسمتھ نے لندن میں عمران خان کی مقبولیت کے خود ساختہ دعوے کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے جب کہ عوام نے لندن میں بھی عمران خان کی جھوٹی سیاست کو زمیں بوس کردیا ہے۔
ویسے تو 5 مئی کو برطانیہ کے بیشتر علاقوں میں اسمبلیوں اور شہری کونسلوں کے انتخابات ہوئے، لیکن پاکستانی میڈیا کی ساری دلچسپی لندن تک محدود تھی ، جس میں وہ خاصکر دو باتوں کا ذکر کرتا رہا، پہلی یہ کہ صادق خان ایک بس ڈرائیور کا بیٹا ہے، دوسرئے وہ پاکستانی نژاد ہے۔ جبکہ جنہوں نے صادق خان کو ووٹ ڈالے ان کے نزدیک ان دو باتوں کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ سو سے زیادہ زبانیں بولنے والے لندن کی تقریباً ایک کروڑ کی آبادی میں مسلمان صرف ساڑھے بارہ فیصد ہیں۔ جبکہ پاکستانی صرف پونے تین فیصد ہیں۔
Democracy
برطانیہ میں دو نکات زیادہ اہم ہیں، پہلا نکتہ برطانیہ کی جمہوریت کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں یہ ایک سیکولر جمہوریت ہے جس میں میں تمام مذاہب کے پیروکار مل کر رہ سکتے ہیں، دوسرا نکتہ یہ ہے کہ جمہوریت میں ہر فرد کا احترام لازمی ہے، اسکے باپ کا پیشہ کیا تھا یا وہ پہلے دنیا کے کس حصے میں تھا اس سے سیکولر جمہوریت میں کوئی رکاوٹ نہیں آتی، یہ ہی وجہ ہے کہ صادق خان کے لندن کے میئر بننے میں نہ ہی انکے مذہب نے، نہ ہی انکے باپ کے پیشے نے، اورنہ ہی پاکستانی نژاد ہونے نے کوئی رکاوٹ ڈالی ، یہ ہی اصل جمہوریت ہے جسکا پاکستان میں ابھی تک کوئی تصور نہیں۔
پاکستانی میڈیا اورخاصکرہمارئے دو سیاستدان عمران خان اور پرویز رشیدلندن کے میئر کے انتخابات میں اپنے اپنے نقطہ نظر کا اظہار کرچکے ہیں تو پاکستانی میڈیا سے یہ سوال کیا جانا ضروری ہے کہ کیا اس بات کو پورئے دن اجاگر کرنا ضروری تھا کہ صادق خان کے والد ایک بس ڈرایئور تھے، کیا صادق خان کی سیاست کے حوالے سے میڈیا کے پاس اور کچھ نہیں تھا، لیکن جس ملک میں کمی کمین کی بات ہوتی ہو، وہاں ایسی ہی بات کی جائے گی، صادق خان پاکستانی نژاد ضرورہیں لیکن ایک برطانوی شہری ہیں۔ عمران خان کی ایک یہودی نژاد زیک گولڈ ااسمتھ کو میئر لندن بنانے میں دلچسپی تھی کیونکہ وہ انکا سابقہ سالا ہے، جبکہ پرویز رشید کوپاکستانی نژاد برطانوی شہری صادق خان کی جیت پر خوشی ہوئی ہے۔
عمران خان اور پرویز رشید سے صرف ایک چھوٹا سا سوال یہ ہے کہ برطانوی نژادیا کسی اور نژاد کو توچھوڑیں کیا پاکستانی رنجیت سنگھ ، وجے کمار یا پیٹر فلیپ میں سے کبھی کوئی کراچی، لاہور یا پشاور کا میئر بنے گا؟ یقیناً آپکے پاس ایک ہی جواب ہوگا کہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور ابتک ایسا نا ممکن ہے، یا شاید پاکستانی جمہوریت کو اس مقام پر پہنچنے میں وقت لگے ، اس لیے گذارش ہے کہ تب تک قائد اعظم کی 11 ستمبر 1947ء کی اس تقریر کی اشاعت پر پابندی لگادیں جسں میں ان کا کہنا تھا کہ ‘‘مذہب ذاتی معاملہ ہے، ریاست سے اس کا کوئی تعلق نہیں’’۔