لاہور (جیوڈیسک) پٹرول بحران کو آج 8 روز ہو گئے ، پٹرول پمپوں پر بدستور قطاریں ، وزیر اعظم نواز شریف نے گزشتہ روز پٹرول بحران کے ذمے داروں کا تعین کرنے کے لیے اجلاس پر اجلاس کیے لیکن کسی وزیر کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا۔
تحقیقاتی کمیٹی بنا کر جان چھڑا لی گئی جو اب پٹرول بحران کا ذمہ دار ڈھونڈے گی۔ پٹرول نایاب ، شہری قطار در قطار لیکن کون ہے ذمہ دار؟ سات روز گزر گئے کوئی پتہ نہیں چل سکا ۔ وزیر اعظم اجلاس پر اجلاس وزراء پریس کانفرنس پر پریس کانفرنس کرتے رہے لیکن معاملہ ہے کہ سلجھنے کے بجائے الجھتا ہی جا رہا ہے۔
حکومت میں شامل وزرا اپنا اپنا موقف پیش کرتے رہے ، وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پٹرول بحران کو سازش قرار دیا لیکن وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں انہیں اسکا علم نہیں ، وزرا کے اختلافات ان کی پریس کانفرنسز میں بھی نظر آئے ۔ وزیر خزانہ نے سازش کا تو بتا دیا لیکن یہ نہیں بتایا کہ یہ سازش کون کر رہا ہے ؟ اسحاق ڈار نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ وزارت خزانہ نے کسی ادارے کا ایک روپیہ بھی نہیں روکا۔
شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں رقوم کی ادائیگی وزارت پانی و بجلی کی ہے لیکن وزیر اعظم کے ترجمان مصدق ملک کا کہنا ہے کہ سرکلر ڈیٹ کی وجہ سے بحران پیدا ہوا۔ پی ایس او کو بروقت ادائیگی ہوتی تو مسئلہ نہ بنتا؟ سوال یہ ہے کہ اگر وزارت خزانہ نے کسی کے پیسے نہیں روکے تو پھر سرکلر ڈیٹ کیسے بڑھا؟ پہلے چودھری نثار ،پھر خواجہ سعدرفیق اور عابد شیر علی نے بحران کی ذمہ داری قبول کی اور اب تو وزیر پٹرولیم نے بھی اعتراف کر لیا۔
چار وزرا نے بحران کی ذمہ داری لی پھر کس بات کی تحقیقات کے لئے کمیٹی بنائی گئی بحران پر چار افسر معطل ہو گئے کیا کسی حکومتی وزیر پر یہ ذمہ داری عائد نہیں ہوتی ؟ سات روز گزر گئے ابھی تک کسی حکومتی شخصیت کو ذمہ دار کیوں نہیں ٹھہرایا گیا؟