ترکی (اصل میڈیا ڈیسک) صدر رجب طیب ایردوان نے دہشت گردوں کے شانہ بشانہ ہونے والے مغربی ممالک کے خلاف اپنے ردِ عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا ” کیا آپ لوگ دہشت گردی کے سخت خلاف نہیں تھے ، آپ نے کب سے ان کا ساتھ دینا شروع کر رکھا ہے؟
صدر ایردوان نے استنبول کنونشن سنٹر میں “گلوبلائزیشن بحران: خطرات و مواقع” عنوان کے تحت ترکی ریڈیو ٹیلی ویژن کارپوریشن کے زیر ِ اہتمام منعقدہ ٹی آر ٹی ورلڈ فورم 2019 میں شرکاء سے خطاب کیا۔
انہوں نے کہا کہ ڈیموکریسی اور انصاف کا قیام ، دنیا بھر سے مختلف نظریات کو یکجا کرنے اور ایک آزادبحث و مباحثہ کا ماحول تشکیل دے سکنے پر ہی ممکن ہے، میں سمجھتا ہوں کہ اس سے قبل شرکت کرنے کی اطلاع دینے کے باوجود چشمہ امن کاروائی کو جواز بناتے ہوئے اس پروگرام کو منسوخ کرنے والوں کو ڈیموکریسی ہضم نہیں ہو سکی اور میرے خیال میں یہ لوگ دہشت گرد تنظیم کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔
صدر ایردوا ن نے کہا کہ سرحدوں کو خاردار تاروں اور خون سے نہیں ، میز پر پیمانے کے ساتھ کھینچنے والی ریاستیں حقیقی معنوں میں ہر گز ایک مملکت کی حیثیت حاصل نہیں کر سکتیں۔
ترکی کے کسی بھی ملک کی زمین پر، کسی بھی معاشرے کی آزادی یا پھر مفادات پر نظریں نہ ہونے کی وضاحت کرنے والے ایردوان نے کہا ہے کہ بعض حلقے شام ، عراق ، افغانستان، لیبیا ، افریقہ اور بلقان میں مختلف ارادوں کے ساتھ اپنے گھوڑے دوڑا رہے ہیں۔ ترکی محض اپنے بھائیوں کے ساتھ مشترکہ تقدیر کے حصول کے لیے وہاں پر ہے۔ ایک قطرہ پیٹرول کو خون کے ایک قطرے سے زیادہ قیمتی تصور کرنے والے اس عظمت کو ہر گز سمجھ نہیں پائیں گے۔
بلا کسی تفریق کے ظالم کو ظالم، دہشت گرد کو دہشت گرد، غیر حق بجانب کو غیر حق بجانب اور ظلم کو ظلم کے طور پر بیان کرنے کے عمل کو جاری رکھنے کی توضیح کرنے والے صدر ترکی نے کہا کہ “بطور ترکی ہم کبھی بھی دہشت گردوں کے ساتھ میز پر نہیں آئے اور نہ ہی آئیں گے۔ ”
ڈپلومیسی کو محض طاقتوروں کے دباو کے آلہ کار کے طور پر استعمال کیے جا سکنے کے ناممکن ہونے پر زور دینے والے ایردوان کا کہنا تھا کہ شمالی شام میں اگر 30 ہزار ٹریلروں کے ذریعے براستہ عراق اسلحہ و فوجی سازو سامان بھیجا جا رہا ہے تو “میں دنیا کی طاقتور ترین جمہوریت ہوں ” کا واہ ویلا مچانے والے اس حرکت کی کسی جمہوری مفاہمت سے وضاحت کریں گے۔