تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری نیا سال چڑھتے ہی 15 جنوری کو رات ٹھیک بارہ بجے حکومت کا پٹرول کی قیمتوں پر بم نہیں بلکہ ایٹم بم گراڈالنے سے پاکستانی عوام کی چیخیں نکل گئیں اور ان کے لیے سال کا آغازسخت اذیت ناک ،خوفناک اور ظالمانہ رہا حکومتی کار پردازوں اوگرا نے وزیراعظم کو سمری بھیج دی کہ وہ تقریباً 14 روپے فی لیٹر کا اضافہ کردیں ۔اسحاق ڈارکا یہ کہنا کمپنی اور اوگرا نے تو بہت زیادہ قیمتیں بڑھانے کا کہا مگر ہم نے ایک روپے ستر پیسے سے 2روپے تک بڑھائی ہے یقیناً حکمرانوں کی طرف سے پٹرول بم چلانے سے غریبوں کی جان کو جوکھوں میں ڈال کر نت نئی خون چوسنے والی جونکوں کا کردارمہنگائی بڑھا کر کیا جا تا ہے عالمی منڈی کی قیمتیں چونتیس روپے فی لیٹر ہیں تو پھر یہاں ا ضافہ صرف اس لیے ہورہا ہے کہ آئندہ انتخابات کے لیے سرمایہ اکٹھا کیا جاسکے اور مزید وکی لیکس ،پانامہ لیکس اور بہا ماس لیکس میں جمع ہوتا رہے تاکہ بوقت ضرورت کام آئے۔
ہر ماہ چند پیسوں یا ایک آدھ روپے کا فی لیٹر اضافہ ہوتا رہا ہے مگر اس بارماہ کے نصف میں ہی عوام پر یہ ظالمانہ حملہ برداشت نہیں ہو پارہا کئی بار واضح ہو چکاہے کہ تیل کی قیمت بڑھنے سے تمام اشیائے ضروریہ اور اشیائے خوردنی سمیت قیمتیں بھی تیزی سے مزید بڑھنے لگتی ہیں ۔تیل کی قیمت بڑھنے کے رات بارہ بجے سے ہی دکاندار قیمتیں بڑھانا شروع کردیتے ہیں ۔حتیٰ کہ سارا ماہ اس میں بریک نہیں لگتی جتنے فیصد تیل پٹرول وغیرہ کی قیمت بڑھتی ہے مہنگائی کا جن اس سے کم ازکم دوگنی تگنی چھلانگیں لگانے لگتا ہے۔
اس طرح عوام جن میں ساٹھ فیصد پہلے ہی دو وقت کی دال روٹی پیٹ بھر کر نہیں کھا سکتے اور غربت کی لکیر سے بہت نیچے گزر بسر کر رہے ہوتے ہیں وہ سخت سراسیمگی کے عالم میں اپنے معصوم ننھے بال بچوں کی طرف گھورنے لگ جاتے ہیں کہ اب کل کو کھانے پینے کا ضروری سامان کیسے خریدیں گے؟وہ اپنی بیوی سے خوامخواہ بات بات پر چڑ چڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔غرباء کے گھروں میں ہر وقت اٹ کھڑکا جاری ہوجاتا ہے مال بدیسی سود خور سرمایہ دار کمپنیاں عوام کا خون چوس کر کمارہی ہوتی ہیںاور ہمارے گھروں میں قیامت کا سماں برپا ہو جاتا ہے بیوی کہتی ہے تو نگوڑا گیا!کیا مزدوری نہیں ملی ! یا باہر ہی عیش و عشرت کرلی ۔گھر کا سامان کون لائے گا بچے بھوکے بیٹھے ہیں واپسی پر کوئی دال سبزی ہی لے آتے یا تم اتنا کم جو دال دلیا لائے ہو اس سے کیا بنے گا ؟مزدور محنت کش شوہر پریشانی سے جوروکا منہ تکنے لگتا ہے کہ اسے کیا جواب دے۔
Petrol Station
اس خوفناک رات سے پہلے ہی حکومتی اعلان پر اسی شام سے ہی پٹرول پمپ والوں نے تیل ختم ہے کے بورڈ لگادیے انتہائی ضروری سفر نہ ہوسکے ایک روز قبل ہی بچوں کو سکول بھجوانے اور مریضوں کو ہسپتالوں میں لے جانے کا عمل سخت متاثر ہوا اس خوفناک رات کو کئی غریب بھوکے اور ان کے بچے ٹک ٹک روتے سو گئے مگر دوسری طرف امیروں لٹیروں سود خور سرمایہ داروں اور ان کے شہزادگان پوری رات شراب کے جام لڑھکاتے چُھلکاتے رہتے ہیں۔
غالباً بیورو کریسی شراب بنانے اور فروخت کنند گان سے لمبا مال کھینچتی ہوگی اوروزرا ء وغیرہ بھی حصہ لیتے اور مفت شرابیںحاصل کرتے ہوں گے قرآن مجید کے واضح احکات کے مطابق خمر و شراب و جوا ء حرام افعال ہیں مگر ہمارے اونچے طبقات کے لوگ حرام و حلال کی تمیز بالکل ختم کرکے لازماً شراب کی دیوی کو معدوں میں انڈیلتے اور نشے سے ساری رات جھومتے جھومتے” اس بازار”کے چکر بھی لگا لیتے ہیں یا پھر کسی جدید اعلیٰ کلب میں بمع اپنی بیوی یا نوجوان بہن کے ساتھ پہنچ کر مدہوشی کے عالم میں وہ عمل بھی کرواتے اور کرڈالتے ہیں جس کی اسلام میں سخت ممانعت ہے حکومت نے تو تیل کا ایٹم بم چلا کر غریبوں کی چیخیں نکلواڈالیں کہ مہنگائی آسمانوں سے باتیں کرنا لگ پڑی مگر طبقائے امراء کی رات عیاشیوں اور تماش بینیوں کی ہوتی ہے۔
مہنگائی کے جن کا ننگا ڈانس حکمرانوں نے تیل کی قیمتیں بڑھا کر کرواڈالااور تمام شیطانی دوسرے کام پاکستانی خود کرڈالتے ہیںساری رات غلیظ ترین فنکشنوں میں گزارتے ہیں جس سے گناہوں کی گٹھڑی نہیں بلکہ گٹھڑ اپنے کھاتے میں جمع کرواڈالتے ہیں ۔غریب عوام ساری رات حکومتی کار پردازوں پر تبرے بھیجتے اور گالیوں کی بوچھاڑ کا رخ رائیونڈی و بنی گالائی محلات ،بلاول ہائوسز کی طرف کرتے رہے۔ساری رات بد دعائیں کی گئیں غرباء نے ہمہ قسم حکومتوں پر لعنتیں برسائیں اور ان سے جان چھڑانے کے لیے آئندہ انتخابات میں ان کا بوریا بستر سمیٹنے کا عہد کیا کہ حکمرانوں کی عیاشیاں اور اللے تللے کام ہی ملک کو قرضوں میں جکڑنے اور مہنگائی بڑھنے کا سبب بنتے ہیں۔