سپریم کورٹ جنرل سیلز ٹیکس میں اضافے اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے مقدمے کا فیصلہ آج سنائے گی، چیف جسٹس افتخار چوہدری کہتے ہیں حکومت ٹیکس ضرور لگائے لیکن آئینی اور قانونی طریقہ اختیار کرے۔ جی ایس ٹی کی عبوری وصولی عوام کے حق پر ڈاکہ ہے۔ جی ایس ٹی از خود نوٹس کیس کی چوتھی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی۔
چیف جسٹس افتخار چوہدری نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ عدالت حکومت کو ٹیکس لینے سے منع نہیں کر رہی۔ حکومتیں ٹیکس وصولی سے ہی چلتی ہیں، لیکن عبوری اضافے کے لئے جو طریقہ کار استعمال کیا گیا ہے وہ قابل قبول نہیں۔ ٹیکس لگانے کا اختیار صرف پارلیمنٹ کو ہے۔
حکومت کو آج اجازت دے دی تو پارلیمنٹ کا کردار ختم ہو جائے گا حکومت ٹیکس ضرور لگائے لیکن آئینی و قانونی طریقہ اختیار کرے۔ حکومت نے صرف ایک فیصد جی ایس ٹی بڑھایا اور لیکن ضروری اشیا کی قیمتیں پندرہ فیصد بڑھ گئیں۔ اوگرا کے وکیل سلمان اکرم راجہ کا موقف تھا کہ آئین کے آرٹیکل تریسٹھ اے کے تحت کوئی حکومتی رکن بجٹ سے اختلاف نہیں کر سکتا۔
ٹیکس میں اضافے کی منظوری یقینی تھی اسی تناظر میں قیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں۔ ایف بی آر کے وکیل نے بتایا کہ پندرہ دنوں میں حکومت نے اوسطا سوا ارب روپے کی وصولی کی ہے۔ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اایف بی آر اپنے معاملات درست کر لے تو خاطر خواہ ٹیکس اکٹھا ہو سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سی این جی پر بھی حکومت سولہ فیصد جی ایس ٹی کے علاوہ نو فیصد اضافی ٹیکس وصول کر رہی ہے۔
ایک فیصد اضافے سے مجموعی ٹیکس چھبیس فیصد بنتا ہے۔ سی این جی مالکان تو بجلی کے بل، مشینوں کی مرمت، ملازمین کی تنخواہیں اور دیگر تمام اخراجات بھی صارف سے وصول کرتے ہیں جو بظاہر غیر منصفانہ ہے۔ ن لیگ کے سیکرٹری جنرل اقبال ظفر جھگڑا نے گزشتہ دور حکومت میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو چیلنج کیا تھا۔ یہ درخواست اب تک زیر التوا ہے۔
اقبال ظفر جھگڑا کے وکیل اکرام چوہدری نے کہا کہ حکومت کے ایک اعلامیے کی وجہ سے عوا م کو اربوں روپے نقصان اٹھانا پڑا۔ چیف جسٹس نے کہا ہمیں خوشی ہے کہ آپ حکومت میں ہوتے ہوئے یہ بات کر رہے ہیں تاہم جب اکرام چوہدری نے یہ کہا کہ اقبال ظفر جھگڑا نے مقدمے کے حوالے سے نئی ہدایات نہیں دی ہیں۔
چیف جسٹس نے برجستہ کہا کہ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے۔ اٹارنی جنرل کے جواب پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آئینی حقوق سے متصادم کوئی قانون موثر نہیں رہ سکتا۔ قواعد اور قوانین کو آئین کے طابع ہونا ضروری ہے۔ دلائل مکمل ہونے کے بعد کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا گیا تھا جو کہ آج سنایا جائے گا۔