لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس امیربھٹی حکومت پربرس پڑے اور ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پٹرول پر ٹیکس بڑھا دیا ،مہنگائی کر دی، حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ،ڈالر کی قیمت روز بڑھ رہی ہے، پتہ نہیں حکومت کہاں سوئی ہوئی ہے، ڈالر ریٹ روکنے کے بجائے حکومت ہاتھ پرہاتھ رکھ کر بیٹھی ہے،عوام کو ریلیف نہیں مل رہا۔خبر ہے کہ وفاقی حکومت نے بجلی کی قیمت مزیدبڑھانے کی تیاری کرلی اور عوام پر مزید سو ارب روپے کا بوجھ ڈالا جائے گا جس کے لیے صرف نیپرا کے فیصلے کاا نتظار ہے ۔وفاقی وزیرپاورڈویژن عمرایوب خان کاکہناتھا کہ سابقہ ادوارمیں بجلی ٹیرف کے تعین میں تاخیرہوتی رہی ۔تین روپے چھیاسی پیسے کی بجائے صرف ایک روپے ستائیس پیسے بجلی کی قیمت میں اضافہ کیا۔ان کاکہناتھا کہ ہم نے پانچ برآمدی صنعتوں کے لیے بجلی کے نرخوںمیںکمی کی ۔سابقہ حکومت نے بجلی کی قیمتوںمیں اضافہ روکے رکھا۔قارئین غورکریں وفاقی وزیرپاورڈویژن عمرایوب خان نے نوازشریف حکومت کی تعریف کی ہے یاتنقید۔ بظاہر تووفاقی وزیرنے مسلم ن کی حکومت پرتنقید کی ہے۔
غور کیا جائے تواس سے تعریف کاپہلوبھی نکلتاہے وہ یہ کہ انہوںنے کہا ہے کہ سابقہ حکومت نے بجلی قیمتوںمیں تین روپے چھیاسی پیسے کی اضافے کی بجائے صرف ایک روپے ستائیس پیسے اضافہ کیا ، سابقہ حکومت نے بجلی کی قیمتوںمیں اضافہ روکے رکھا۔اس میں تعریف کا پہلو یہ ہے کہ نوازشریف کی حکومت نے عوام پربجلی کی قیمتوںکاکم سے کم بوجھ ڈالاہے۔ اس سے یہ بھی واضح ہوتاہے کہ سابقہ حکومت نے سخت معاشی حالات میںبھی قیمتوںمیں اضافے کابوجھ عوام پرنہیں ڈالا۔ یوں سابقہ حکومت عوام کی مشکلات میں اضافہ نہیںکرناچاہتی تھی۔ وفاقی وزیرپاورڈویژن عمرایوب خان کاکہناتھا کہ نیپرابجلی کی گزشتہ درخواستوںکی سہ ماہی سماعت کرچکاہے اورنیپراکی طرف سے فیصلہ آنے کے بعدصارفین کوبجلی کی قیمتوںکی مدمیں دوسوارب روپے منتقل ہوں گے۔چیئرمین وزیراعظم ٹاسک فورس ندیم بابرنے کہا ہے کہ بجلی کی قیمت میں مزیددوروپے یونٹ تک اضافہ ہوگااوریہ سارااضافہ یکمشت نہیں بلکہ مرحلہ وا ر ہوگا ۔ سٹیٹ بینک کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق پالیسی ریٹ میں اضافہ کیا گیا ہے۔
فروری میں مہنگائی میں اضافے کی شرح جون سال دوہزارچودہ کے بعدبلندترین سطح پررہی۔سٹیٹ بینک کے مطابق نموکے لیے مزیدپالیسی اقدامات کی ضرورت ہے۔مہنگائی میں اضافے کارجحان برقرارہے۔ مالیاتی خسارے کی سطح بلندہے کرنٹ اکائونٹ خسارہ کم ہونے کے باوجودبلندہے۔سٹیٹ بینک کاکہناتھا کہ بجلی ،گیس،خوردنی اشیاکی قیمت میں اضافہ اورروپے کی قدرمیںکمی مہنگائی کے بنیادی اسباب ہیں۔سٹیٹ بینک نے مہنگائی کی جووجوہات بتائی ہیں وہ وجوہات حکومتی ہیں ۔بجلی اورگیس کی قیمتوںمیں اضافہ بھی حکومت کرتی ہے اورروپے کی قدرکی میں کمی بھی ۔وفاقی حکومت نے ماہ اپریل سال دوہزارانیس کے لیے پٹرول اورڈیزل کی قیمت میں چھ، چھ روپے ،لائٹ ڈیزل اورمٹی کے تیل کی قیمت میں تین، تین روپے فی لٹر اضافے کااعلان کردیا۔قیمتوںمیں اضافے کے بعداب پٹرول کی نئی قیمت اٹھانوے روپے نواسی پیسے ،ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت ایک سوسترہ روپے ٤٣ پیسے، لائٹ ڈیزل آئل کی قیمت ٨٠ روپے ٥٤ پیسے اورمٹی کے تیل کی نئی قیمت نواسی روپے اکتیس پیسے فی لٹرہوگئی۔قیمتوںکااطلاق اپریل کامہینہ شروع ہوتے ہی کردیاگیا ۔ دودن قبل اوگراکی جانب سے ماہ اپریل کے لیے حکومت سے سفارش کی گئی تھی کہ پٹرول کی قیمت میں گیارہ روپے اکانوے پیسے فی لٹراضافہ کیاجائے تاہم حکومت کی جانب سے چھ روپے بڑھائے گئے اوگراکی سمری کے مطابق ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت میں گیارہ روپے سترہ پیسے فی لٹراضافے کی سفارش کی گئی تھی مٹی کے تیل کی قیمت میں چھ روپے ٦٥ پیسے اورلائٹ ڈیزل آئل کی قیمت میں چھ روپے انچاس پیسے بڑھانے کی تجویزدی گئی تھی ۔وزیرپٹرولیم غلام سرورخان نے ٹیکسلامیںمیڈیاسے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ پٹرول کی قیمتوںمیں اتارچڑھائوآتارہتاہے ۔ اس کاتعین اوگرا کرتا ہے۔
وفاقی وزیرپٹرولیم کاکہناہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوںمیں بارہ روپے فی لٹرتک اضافہ کی تجویزکیاگیاتھا لیکن ہم نے صرف چھ روپے بڑھائے کیوں کہ ہم جانتے ہیں کہ عوام اتنابوجھ برداشت نہیںکرسکتے۔بھارت اوربنگلہ دیش کی نسبت پاکستان میں پٹرول کی قیمت کم ہے۔ وفاقی وزیرپٹرولیم نے وفاقی وزیر پاو ر ڈویژن کی طرح نوازشریف حکومت کی تنقیدکے پردے میں تعریف تونہیں کی لیکن انہوںنے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوںمیںاوگراکی طرف سے کی گئی سفارش سے کم اضافہ کااحسان جتلاکرایک بارپھر مسلم لیگ ن کی حکومت کی یادتازہ کرادی ہے ۔ میرے قریبی دوست اورکالم نویس مظہراقبال کھوکھرنے ایک دن راقم الحروف کے ساتھ گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ ن کے دورحکومت میں اوگراکی جانب سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مطلوبہ اضافے سے زیادہ اضافے کی سفارش کی جاتی تھی اورحکومت اوگراکی سفارش کردہ اضافے سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کم اضافہ کردیتی تھی۔ اس سے اس وقت کی حکومت پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اتناہی اضافہ کردیتی جتنااضافہ اس نے کرناہوتا تھا اورعوام بھی خوش ہوجاتی تھی کہ حکومت نے اوگراکی سفارش کردہ اضافہ سے قیمتوںمیں کم اضافہ کیاہے۔ اب عمران خان کی حکومت نے بھی نوازشریف کی حکومت کی پیروی کرتے ہوئے اوگراکی سفارش کردہ اضافہ سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کم اضافہ کیا ہے۔
فرق صرف یہ ہے کہ نوازشریف کی حکومت میں یہ سلسلہ کئی بارہوا لیکن کسی وزیر، کسی سیکرٹری نے اوگراکی سفارش کردہ اضافے سے قیمتوںمیں کم اضافے کااحسان ایک باربھی نہیں جتلایا ۔ مسلم لیگ ن کے سال دوہزاراٹھارہ کے انتخابات میں سال دوہزارتیرہ کے انتخابات کے مقابلے میں کم نشستیں حاصل کرنے ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ کسی وزیر، کسی سیکرٹری نے یہ نہ سوچا کہ وہ عوام پرجتلادیں کہ ہماری حکومت عوام پریہ احسان بھی کررہی ہے۔ عمران خان کی حکومت کے وزیرپٹرولیم نے عوام پریہ احسان جتلاکر کوشش کی ہے کہ سابقہ دورحکومت کے وزراء کی یہ غلطی نہ دہرائی جائے۔ وفاقی وزیرخزانہ اسدعمرکہتے ہیں کہ پٹرول کی قیمت پرفی لٹر٢٣روپے تیس پیسے ٹیکس لیاجارہاہے۔وزیرخزانہ کاکہناہے کہ پٹرول کی بنیادی قیمت ٧٥ روپے ٥٧پیسے ہے لیکن عوام کو٩٨روپے ٨٩ پیسے فروخت ہورہاہے۔ اب حکومت پٹرولیم مصنوعات پرٹیکسوں میں کمی کردے توعوام کوریلیف مل سکتاہے۔خبرہے کہ سرکاری دستاویزات کے مطابق پاکستان ریلوے نے مختلف روٹس پرچلنے والی گاڑیوں کے کرایوںمیںبے انتہااضافہ کردیا ہے۔ جس سے ریل گاڑی کاکرایہ پبلک ٹرانسپورٹ کے برابراورکئی جگہوں پرپبلک ٹرانسپورٹ سے بھی زیادہ ہوگیاہے۔نئے کرایہ نامہ کے مطابق تمام مسافرٹرینوں کے اکانومی کلاس کاکم ازکم کرایہ ستر روپے سے بڑھاکر سوروپے کر دیا گیا ہے۔
بولان میل، ہزارہ، خوش حال خان خٹک، اکبرفرید، مہرایکسپریس اورتھل ایکسپریس سمیت تمام مسافرریل گاڑیوں کے کرایوںمیں اضافہ کردیاگیاہے۔ان متزکرہ بالامسافرٹرینوںمیں اے سی سلیپرکادوسواسی روپے سے تین سوروپے، اے سی پالرکادوسوبیس روپے سے دو سو پچاس روپے، اے سی بزنس کاتین سوتیس روپے سے تین سوپچاس روپے، اے سی سٹینڈرکادوسوپچاس روپے سے تین سوروپے اورفرسٹ سلیپرکادوسودس روپے سے بڑھاکردوسوپچاس روپے کم سے کم کرایہ کردیاہے۔جب کہ کلومیٹرزکے حساب سے بھی اکانومی کلاس کے کرایوںمیں فی ٹکٹ چالیس روپے، اے سی سلیپر میں ساٹھ روپے، اے سی پالرپچاس روپے، اے سی بزنس چالیس روپے، اے سی سٹینڈراورفرسٹ سلیپرمیں چالیس ، چالیس روپے کااضافہ کردیاگیاہے۔ سندھ ایکسپریس کے اے سی بزنس کاکرایہ تین سوسترروپے سے چارسوروپے، اے سی پالردوسوبیس سے دوسوپچاس روپے، اے سی سٹینڈرکاکرایہ دوسوپچاس روپے سے بڑھاکرتین سوروپے کم سے کم کرایہ کردیاہے۔بہائوالدین زکریاایکسپریس کے اے سی بزنس کاکرایہ بڑھاکرچارسوروپے اوراے سی سٹینڈرکاکرایہ تین سوسے بڑھاکرتین سوپچاس روپے کردیاگیا۔خیبرمیل ، علامہ اقبال اورعوام ایکسپریس کے اے سی سلیپرکابڑھاکرتین سوپچاس روپے، اے سی بزنس کا بڑھا کر چار سو پچاس روپے اوراے سی سٹینڈرکابڑھاکرتین سوپچاس روپے کم سے کم کرایہ کردیاگیا۔اسی تناسب سے تیزگام، سکھر اورملت ایکسپریس کے کرایوںمیں بھی اضافہ کردیاگیاہے۔پاکستان ایکسپریس اورحال ہی میں چلائی جانے والی رحمان بابامسافرٹرینوں کے کرایوںمیں فی ٹکٹ دس روپے سے چالیس روپے اضافہ کیا گیا ہے۔ قراقرم ایکسپریس اورگرین لائن کے اے سی بزنس کاکم ازکم کرایہ چھ سوتیس روپے سے بڑھاکرسات سوروپے اوراکانومی کادوسوسترسے بڑھاکرتین سو روپے کم سے کم کرایہ کر دیا گیا ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ اسدعمرنے سٹیٹ بینک اسلام آبادآفس میں الیکڑانک منی انسٹی ٹیوشنز ریگولیشنزنظام کے اجراکی تقریب سے خطاب اورمیڈیاسے گفتگوکرتے ہوئے اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ اس میںکوئی شک نہیں کہ مہنگائی ہے لیکن سال دوہزارآٹھ اورسال دوہزارتیرہ سے کم ہے، اسدعمرنے کہا کہ موجودہ حکومت کے پہلے چھ ماہ میں مسلم لیگ ن اورپیپلزپارٹی کی سابق حکومتوںکی نسبت مہنگائی کی شرح کم ہے۔ وزیرخزانہ کاکہناہے کہ معاشی بحران سے نکلنے کے اقدامات سے مہنگائی بڑھی۔ جب ڈالرایک سوپانچ سے ایک سو٤٥ روپے کاہوگا فرق توپڑے گا۔انہوںنے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوںمیں اضافے پراپوزیشن کومناظرے کاچیلنج کردیا۔ وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق مارچ دوہزاراٹھارہ کی نسبت مارچ دوہزارانیس میں مہنگائی ٩اشاریہ اکتالیس فیصد بڑھی ۔اپریل سال دوہزارچودہ میں شرح نو اشاریہ ایک فیصدتھی۔رواں مالی سال جولائی تامارچ مہنگائی چھ اشاریہ سات فیصدبڑھی۔فروری کی نسبت مارچ میں ایک اشاریہ بیالیس فیصدبڑھی۔شماریات بیوروکی مہنگائی سے متعلق تازہ ترین رپورٹ میں انکشاف کیاگیاہے کہ فروری دوہزاراٹھارہ سے مارچ دوہزارانیس کے ایک سال کے عرصے میں عام استعمال کی ایک سوبارہ اشیاکی قیمتوںمیں بھاری اضافہ ہوا۔امریکی ڈالرکے مقابلے میں پاکستانی روپیہ کی قدرمیںکمی، پاکستان میںان اشیاکی پیداوارمیںکمی کے سبب ان کی مہنگی درآمدات اورملک میں ان اشیاء کی ڈیمانڈ پوری نہ ہونے اورطلب زیادہ ہونے کے سبب ان کی قیمتوںمیں اضافہ دیکھنے میں آیا۔
جاری رپورٹ کے مطابق گوشت بارہ اشاریہ اٹھارہ فیصد، سبزیاں انتالیس اشاریہ ساٹھ ،باجرہ چونتیس اشاریہ اڑتیس، جوار اکسٹھ اشاریہ چھیالیس، چاول پندرہ اشاریہ چھیالیس،مکئی ١٧ اشاریہ باون، گندم تین اشاریہ صفرچھ ،خشک پھل اورمیوہ جات تیرہ اشاریہ ٨٢، گھی ٧ اشاریہ ٥٧، کھل بنولہ ٩ اشاریہ اڑتیس، خشک دودھ سات اشاریہ ٤٥، تازہ دودھ چار، آئس کریم آٹھ اشاریہ اکیس ،چینی ٢٢،آٹے اورگندم سے بنی اشیا ٢،چائے اورکافی ٧اشاریہ ٢٣ ،ڈیری مصنوعات ٧اشاریہ ٥٥،سگریٹ، تمباکوسے بنی اشیا٢٣، مائع قدرتی گیس ٤٩اشاریہ ٦٤،بجلی٢، جلانے کی لکڑی ٤،انڈے چھ اشاریہ ٧٣،تمباکوپانچ اشاریہ ٤٧،خوراک کی فصلیں ١٨اشاریہ ٥١، گنا٣٧اشاریہ ٧٤،گرم مصالحہ ٢٢اشاریہ ٣٢،زمین کے اندراگنے والی سبزیاں ٢٢اشاریہ ٧١، موٹرسائیکل ٢٦اشاریہ ٢٣،گاڑیاںاٹھ، فریج، واشنگ مشین، سلائی مشین، پنکھے اوراستری، ١١اشاریہ ٢١،صنعتی خرادکی مشین ٢٤اشاریہ ١٢،کنکریٹ مکسچر بارہ اشاریہ ٤٨،ایئرکنڈیشنز ٥ اشاریہ چار،تعمیراتی سریہ سمیت سٹیل مصنوعات ٧اشاریہ صفرسات، پائپ اورپائپ فٹنگ ١٠اشاریہ ٦٠،سٹیل باراورسٹیل شیٹس ١٦اشاریہ ٣١،سیمنٹ ١٢اشاریہ ٧١،سیرامکس اورباتھ روم کی اشیا٦اشاریہ ٤٦،شیشہ اوراس کی مصنوعات ٤اشاریہ ١٥، گلاس شیٹس ١١اشاریہ ٥٩،پلاسٹک مصنوعات ٩، ٹائر١٥اشاریہ ٣٠،صابن اورڈننٹرجنٹ ٥،پیٹس اوروارنش ٢١،کیڑے مارادویات ٥اشاریہ ٢٥،کھاد، کیمیکل ١٨،موبل آئل ٦اشاریہ ٢٢،فرنس آئل ٤٥اشاریہ ٨٨،مٹی کاتیل ١٣، ڈیزل ١٥اشاریہ ٧٩،فرنیچرمیں استعمال ہارڈبورڈتیس، لکڑی تین،جوتے ١٥اشاریہ ٥٢،رنگاہواچمڑا١٧٤اشاریہ ٤٦،خام چمڑا٧، سلے سلائے ملبوسات ١٠،بیڈشیٹس اورکمبل ٤،تولیہ ١١اشاریہ ٧٢، کاٹن فیبرک ٧اشاریہ ٢٩،دھاگہ ٨اشاریہ ٣٤،کاٹن یارن ١٩، سامان زیبائش ٧اشاریہ صفر٥ ،کاسمیٹیکس ١٣اشاریہ ٥٦،شیونگ بلیڈز ٩اشاریہ ٥٦،پکے پکائے کھانے ٦،تعلیمی اخراجات ٦اشاریہ ١٢،سٹیشنری ١٣اشاریہ ١٤،اخبارات ١٥اشاریہ ٩٨، کتابیں ١٠اشاریہ صفرچھ، ڈاک ٹکٹ ٦ مواصلاتی آلات ٧اشاریہ ٨١،ٹرانسپورٹ کرائے ١٥اشاریہ ٥٣،میکینکل سروسز٧اشاریہ ٩١،گاڑیوںکے تیل ١٢اشاریہ ٩٩،گاڑیوںکاسامان آرائس ١٠اشاریہ ٢٩،میڈیکل ٹیسٹ ٨اشاریہ ٤٦،ڈاکٹروںکی فیس ٧اشاریہ ٢٣،طبی آلات ٨اشاریہ ١٩،ادویات ٨اشاریہ ٦٠،شادی ہالوںکے چارجز٨اشاریہ ٥٩،مکانات کے کرایوںمیں ٩اشاریہ پچاس فیصداضافہ ہوا۔ رپورٹ کے مطابق مارچ دوہزار١٨کے مقابلے میںمارچ دوہزار١٩ کے دوران جن اشیاکی قیمتوںمیںاضافہ ہواہے ان میںٹماٹر٣اشاریہ ١٥،سبزیاں٢٨اشاریہ ١٨،دال مونگ ٢٢اشاریہ ٩٦،چینی ١٨اشاریہ ٢٠،مصالحہ جات ١٧اشاریہ ٦٦،پیاز١٥اشاریہ ٥٨ ، سگریٹ ١٤اشاریہ ٧٣،گوشت ١٣اشاریہ ٣٣خشک پھل ١١اشاریہ ٧٥،دال چنا١٠، گھی٧اشاریہ ١٨،گیس ٨٥، اخبارات ١٥،ٹرانسپورٹ کرایہ ١٥اشاریہ ٣٥،کاسمیٹیکس ١٣اشاریہ ٥٦،سٹیشنری ١٣اشاریہ ١٤، کتابیں ١٠اشاریہ ٦،ہری مرچ ١٤١اشاریہ ٧٣، پیاز٣٩اشاریہ ٢٧، مٹر٢٧،چکن اورکیلے ١٥اوردال مونگ کی قیمتوںمیں بارہ فیصداضافہ ہوا۔ریل کرایوںمیں ١٩اشاریہ ٣٠،ہوائی جہازکے کرایوںمیں ١٣اشاریہ ٤١ اورہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمتوںمیں ٤اشاریہ ٤٥فیصداضافہ ہوا۔ایل پی جی ٣اشاریہ ٥٠ روپے اوراوپن مارکیٹ میں ڈالربھی مزیدمہنگاہوگیا۔اپوزیشن نے کہاہے کہ قیمتوںاضافے کے خلاف پارلیمان میں بھرپوراحتجاج ہوگا۔ شہبازشریف نے اپنے ٹویٹ میں قیمتوںمیں اضافہ واپس لینے کامطالبہ کرتے ہوئے کہاہے کہ قیمتوںمیں اضافے کی سمری پردستخط کرتے ہوئے عمران کے ہاتھ کیوںنہیںکانپتے۔پیپلزپارٹی کاکہناہے کہ بجٹ سے پہلے مہنگائی کاطوفان حکومت کابدترین ظلم ہے۔سابق شاہدخاقان عباسی نے کہا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوںمیں اضافے پرحکومت وضاحت کرے۔ اویس نورانی کہتے ہیں کہ مہنگائی نے عوام کی امنگوںکاجنازہ نکال دیا ہے۔
مہنگائی میں اضافے کی دہائی صرف اپوزیشن ہی نہیںدے رہی ،حکومتی ادارے اورشخصیات نے بھی مہنگائی کااعتراف کیاہے۔ ہرطرف سے عوام کی مشکلات میں اضافہ کردیاگیاہے۔ کسی ایک شعبہ میں بھی عوام کے لیے ریلیف دکھائی نہیںدیتا۔مہنگائی میں یہ اضافہ اس وقت سامنے آیاہے جب نئے مالی سال کے لیے بجٹ کی تیاریاںہورہی ہیں۔ جب حکومت نے پٹرولیم مصنوعات، ریل کے کرایوںمیں اضافہ کردیاہے توکسی اورکواس مہنگائی کاذمہ دارکیسے ٹھہرایا جا سکتاہے۔ حکومت کوچاہیے کہ عوام کی مشکلات کوکم کرنے کے اقدامات کرے اورکسی نہ کسی شعبے میں میں ریلیف فراہم کرے۔