فرعونِ وقت اور نوجوان !

Quran

Quran

قرآن حکیم وہ زاد راہ ہے جو ہمیں زمان و مکاں کی قیود سے نکال کر ایک لازوال زمانے میں داخل کرتا ہے۔ قرآن نہ صرف لازوال زمانے کے حالات، واقعات اور معاملات سے واقف کراتا ہے بلکہ صحیح و غلط اور نیکی و معصیت کی واضح تعلیمات متعین انداز سے پیش بھی کرتا ہے۔انھیں واقعات میں ایک واقعہ فرعون کا بھی ہے۔ یہ واقعہ سورة قصص کی ابتدائی آیات میں کچھ اس طرح بیان کیا گیا ہے۔”ہم موسیٰ اور فرعون کا کچھ حال ٹھیک ٹھیک تمہیں سناتے ہیں، ایسے لوگوں کے فائدے کے لیے جو ایمان لائیں۔واقعہ یہ ہے کہ فرعون نے زمین میں سرکشی کی اور اس کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کر دیا۔ ان میں سے ایک گروہ کو وہ ذلیل کرتا تھا، اس کے لڑکوں کو قتل کرتا اور اس کی لڑکیوں کو جیتا رہنے دیتا تھا۔فی الواقع وہ مفسد لوگوں میں سے تھا” (القصص:٤-٣)۔سورہ میں بہت تفصیل سے واقع کو بیان کیا گیا ہے نیز اس سورہ کے علاوہ قرآن حکیم میں تقریبا ٥٦ مقامات پر فرعون اور اس کی فرعونیت کا تذکرہ ہے۔

فرعون علم حقیقی کی روشنی میں ایک شر انگیز اور فسادی بادشاہ تھا جس نے اہل ملک پر بے انتہا زیادتیاں کیں۔یہاں تک کہ انسانوں کو مختلف گروہوں میں تقسیم کرکے خوب ذلیل کیا ۔ان تمام ظلم و زیادتیوں کے نتیجہ میں فرعون کا کیا حشر ہوا یہ بھی ایک عبرتناک واقعہہے ۔خصوصاً ان اشخاص اور گروہوں کے لیے جو خود کو آج فرعون کی اولاد کہنا پسند کرتے ہیں اور ان کے لیے بھی جو ظلم و زیادتی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے ہیں۔موجودہ حالات میں “فرعون”ایک استعارۂ ظلم وزیادتی ہے۔ اور عموماً ہر اس شخص کو جو ظلم و زیادتی میں حدیں پار کربیٹھے “فرعونِ وقت”سے تشبیہ دی جاتی ہے۔

قرآن حکیم ہی ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ دورجبر و استبداد تشدد و ظلم زیادتی کے دور میں انسانی گروہ میں سے اگر کسی سے توقع کی جاتی سکتی ہے کہ وہ نوجوان ہیں جوہر زمانے میں نا گفتہ بہ حالات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔یہی بات قرآن بھی ہمیں ان الفاظ میں بتاتا ہے۔”(پھر دیکھو کہ) موسیٰ کو اس کی قوم میں سے چند نوجوانوں کے سوا کسی نے نہ مانا ، فرعون کے ڈر سے اور خود اپنی قوم کے سربر آور دہ لوگوں کے ڈر سے (جنہیں خوف تھا کہ) فرعون ان کوعذاب میں مبتلا کرے گا۔اور واقعہ یہ ہے کہ فرعون زمین میں غلبہ رکھتا تھا اور وہ ان لوگوں میں سے تھا جو کسی حد پر رکتے نہیں ہیں”(یونس:٨٣)۔واقعہ یہ ہے کہ ہر زمانے میں پر خطر حالات کا حق ادا کرنے کی توفیق سن رسیدہ لوگوں کو نصیب نہیں ہوتی۔ ان پر مصلحت پرستی اور دنیوی اغراض کی بندگی اور عافیت کوشی کچھ اس طرح چھائی رہتی کہ وہ آسانی سے حق کا ساتھ دینے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ٹھیک یہی واقعہ مکہ کی آبادی میں اس وقت بھی پیش آیا جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم اسلام کی دعوت دینے کے لیے اٹھے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دینے کے لیے جو لوگ آگے بڑھے تھے وہ قوم کے بڑے بوڑھے اور سن رسیدہ لوگ نہ تھے بلکہ چند با ہمت نوجوان ہی تھے۔ وہ ابتدائی مسلمان جو ان آیات کی نزول کی وقت ساری قوم کی شدید مخالفت کے مقابلے میں صداقت اسلامی کی حمایت کر رہے تھے اور ظلم و ستم کے اس طوفان میں جن کے سینے اسلام کے لیے سپر بنے ہوئے تھے، ان میں مصلحت کوش بوڑھا کوئی نہ تھا۔ سب کے سب جوان لوگ ہی تھے۔ علی ابن ابی طالب، جعفر طیّار، زبیر، سعد بن ابی وقاص، مْصعَب بن عْمَیر، عبداللہ بن مسعود جیسے لوگ قبول اسلام کے وقت ٢٠ سال سے کم عمر کے تھے۔ عبد الرحمٰن بن عوف، بلال، صْہَیب کی عمریں ٢٠ سے ٣٠ سال کی درمیان تھیں۔ ابو عبیدہ بن الجراح، زید بن حارثہ، عثمان بن عفان اور عمر فاروق، ٣٠ سے ٣٥ سال کے درمیان عمر کے تھے۔ ان سے زیادہ سن رسیدہ ابوبکر صدیق تھے اور ان کی عمر بھی ایمان لانے کے وقت ٣٨ سال سے زیادہ نہ تھی۔ ابتدائی مسلمانوں میں صرف ایک صحابی کا نام ہمیں ملتا ہے جن کی عمر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ تھی، یعنی حضرت عبیدہ بن حارث مْطَّلبی۔ اور غالباً پورے گروہ میں ا یک ہی صحابی حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے ہم عمر تھے، یعنی عَمّار بن یاسر۔ اس پورے پس منظر سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ ہر زمانے میں اگر کوئی انسانی گروہ انقلاب برپا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو وہ نوجوان ہیں۔ نتیجہ کے اعتبار سے تاریخ شاہد ہے کہ نوجوانوں کی منظم سعی و جہدکبھی ضائع نہیں ہوئی ۔پھر اگر وہ اخلاقی حدود کا پاس و لحاظ رکھنے والے نیز اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا نوجوان ہوں ،تو ایسے لوگوں کے ذریعہ جو سعی و جہد کی جائے گی وہ تمام عالم انسانیت کے لیے امن و امان ثابت ہو گی۔

Youth

Youth

معلوم ہوا کہ نوجوان ہی کسی قوم و ملت کا مستقبل سنوارنے کا حوصلہ رکھتے ہیں لیکن وہی ہیں جو کسی بھی تہذیب و تمدن کی یلغارمیں دوسروں کے مقابلہ سب سے پہلے متاثر ہوتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اسلام نے نوجوانوں کی صلاحیتوں ، ان کے افکار و نظریات اور ان کے اعمال کی تصحیح پرنہ صرف زور دیا ہے بلکہ ان کے جذبات کو صحیح رخ دینے کا ایک مکمل پروگرام بھی مرتب کیا ہے۔لیکن افسوس کہ ملت کے نوجوانواں کی ایک کثیر تعداد آج بے مقصد زندگی سے دوچار ہے۔ایسا نہیں ہے کہ بے مقصد زندگی سے دوچار نوجوان موجودہ حالات اور اس کی شر انگیزیوں سے واقف نہیں۔برخلاف اس کے معاملہ یہ ہے کہ اقتدار پر قابض قوتوں نے نوجوانوں کو آج زندگی کے ہر میدان میں گمراہ کرنے کی بہت منظم منصوبہ بندی کر لی ہے۔معاملہ یہ بھی نہیں ہے کہ گمراہ کن منصوبہ بندی کسی خاص طبقہ، قوم و ملت کے لیے تیار کی گئی ہو بلکہ حقیقت یہ ہے کہ نوجوان چونکہ کسی بھی انقلاب کا پیش خیمہ ہوتے ہیں لہذا تمام ہی طبقات،گروہ اور نظریات سے وابستہ نوجوانوں کو کچھ اس طرح زندی کے حقیقی مسائل سے دور رکھا جائے جس کے نتیجہ میں انھیں موجودہ افکار و نظریات اور اس پر مبنی خامیوں سے بھر پور اقتدار سے کوئی واسطہ ہی نہ رہے۔اور اگر ایسا ہوگا جو واقعہ بھی ہے تو پھر کسی بھی بااقتدار طبقہ کے لیے کوئی بڑا چیلینج نہیں رہے گا۔زمانہ اس بات کی کھلی شہادت پیش کر رہا ہیکہ نوجوا نوں کی غفلت نے آج نہ صرف ان کی ذاتی زندگیوں کو متاثر کیا ہے بلکہ ان کی غفلت ہی کے نتیجہ میں معاشرہ بھی سماجی و اخلاقی انحطاط سے دوچار ہے۔

دنیا کا دانشور طبقہ موجودہ حالات سے بخوبی واقف ہے اس کے باوجود سند یافتہ افرادحقیقی علم سے بے بہراہ ہونے کے نتیجہ میں یا جرات اظہار کی کمی نے ان کی زبانوں پر تالے چڑھا دیے ہیں۔نتیجتاً ظلم و زیادتیاں اور جور و استبداد کا بازار خوب گرم ہے۔

ان حالات میں بحیثیت نوجوان لازم ہے کہ صلاحیتیں جو کچھ بھی موجود ہیں،ان کو ضائع نہ کیا جائے اور فرعون وقت جو تباہ کاریاں پھیلانے میں سرگرم ہے اس کا خاتمہ کیا جائے یا کم از کم اس کی شدت میں ہی کمی لائی جائے۔اس سلسلے میں کیا کچھ کیا جا سکتا ہے اور کیا جانا چاہیے، یہ تو ہرفرد اپنی صلاحیتوں اور مصروفیت کے پیش نظر طے کرے گا لیکن یہ بات ہمیشہ پیش نظر رہنی چاہیے کہ ہم مسلمان ہیں اور مسلمانوں کی اہم ترین ذمہ داریوں میں سے ایک ضروری ذمہ داری یہ ہے کہ اصلاح پسندوں کا ساتھ دیا جائے۔ جو لوگ برائیوں کے فروغ میں سرگرم ہیں ان کے اس عمل کے خلاف ہم سرگرم ہوں اور جو بھلائیوں کے فروغ میں کوشاں ہیں ، ہم بھی کاندھے سے کاندھا ملاکر اپنے شب و روز کے اعمال کی تصحیح کرتے جائیں۔فرعون وقت خوب سرگرم ہے!اس بات سے ہم بخوبی واقف ہیں لیکن اصلاح حال کے لیے ہم کیا کچھ کر رہے ہیں؟اس پہ نظر کون رکھے گا۔

Mohammad Asif Iqbal

Mohammad Asif Iqbal

تحریر : محمد آصف اقبال، نئی دہلی
[email protected]
maiqbaldelhi.blogspot.com