واشنگٹن (جیوڈیسک) ایسے میں جب وہ آئندہ جنوری میں وائٹ ہاؤس میں اپنی میعادِ صدارت پوری کرنے والے ہیں، امریکی صدر براک اوباما بدھ کے روز امریکیوں کو بتائیں گے کہ اُن کے خیال میں، ہیلری کلنٹن کو ووٹ دینا کیوں ضروری ہے، جو کسی وقت اُن کی وزیر خارجہ رہ چکی ہیں۔
امریکی سربراہ کی حیثیت سے جنوری میں اوباما اپنا آٹھ سالہ دور مکمل کرنے والے ہیں۔ ڈیموکریٹک قومی کنوینشن کے تیسرے روز، وہ کلیدی اسپیکر ہوں گے، جہاں منگل کو ڈیلیگیٹس نے کلنٹن کو پارٹی کی جانب سے 2016ء کی صدارتی امیدوار کے طور پر نامزد کیا، جو ایک تاریخ ساز لمحہ تھا جب کسی اہم امریکی سیاسی پارٹی نے کسی خاتون کو صدارتی امیدوار نامزد کیا۔
اس سے قبل، کلنٹن کے ہمراہ اوباما ایک انتخابی ریلی میں شرکت کر چکے ہیں۔ اُن کا ارادہ ہے کہ آٹھ نومبر کو ری پبیلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ سے مقابلے سے قبل، اکتوبر کے مہینے میں کلنٹن کے ساتھ انتخابی مہم چلائیں۔ ٹرمپ جائیداد کے نامور کاروباری فرد ہیں، جنھوں نے کبھی کسی منتخب عوامی عہدے پر کام نہیں کیا۔
سنہ 2008میں یہی کردار ہیلری کلنٹن نے ادا کیا تھا، جب کئی ماہ تک ڈیموکریٹک پارٹی کی صدارتی نامزدگی کے حصول کی مہم میں اوباما اور کلنٹن ایک دوسرے کے مدِ مقابل تھے؛ اور بعدازاں، صدارتی انتخاب جیتنے کے بعد، اوباما نے اُنھیں ملک کی چوٹی کی سفارت کار کا عہدہ دیا تھا۔
امریکی سربراہ کی حیثیت سے اپنے اختتامی ایام کے دوران، اوباما اپنے خاص ورثے سے آگاہ ہیں اور اُنھیں پتا ہے کہ کلنٹن ہی وہ ہمدرد سیاسی فرد ہیں جو دہشت گردی، امی گریشن، صحت عامہ کی دیکھ بھال، اسقاط حمل، ’گے رائٹس‘ اور موسمیاتی تبدیلی کے معاملات میں یکساں خیالات کی مالک ہیں؛ جو اِن پالیسیوں کی نگہبانی کرسکتی ہیں، جب کہ ٹرمپ آتے کے ساتھ ہی اِن میں سے اکثر کو ختم کر دیں گے۔
بدھ کے روز ایک اخباری کانفرنس سے خطاب میں اوباما کے پسندیدہ تجارتی معاہدوں کا ذکر کرتے ہوئے، ٹرمپ نے کہا کہ ’’میں بہت کچھ بدلنا چاہتا ہوں۔ وہ ہماری تاریخ کے جاہل ترین صدر ہیں‘‘۔
حالیہ دِنوں کے دوران، اوباما نے ٹرمپ کے امیدوار بننے پر تنقید کی ہے۔ لیکن، اُنھوں نے بتایا کہ اُن کا انتخاب ممکن ہے۔ کسی وقت ٹرمپ ٹیلی ویژن ریلٹی شو کے میزبان ہوا کرتے تھے۔ گذشتہ ہفتے ری پبلیکن پارٹی کی صدارتی نامزدگی کے حصول کے بعد رائے عامہ کے کچھ جائزوں میں بتایا گیا ہے کہ اُنھیں کچھ سبقت حاصل ہے۔
ٹرمپ کے امریکی سربراہ بننے کے امکانات کے بارے میں اوباما نے کہا ہے کہ ’’یہ جمہوریت کی اساس ہے کہ جب تک ووٹ نہ ڈالے جائیں، اور امریکی عوام اپنی رائے نہ دے دیں، کچھ کہا نہیں جا سکتا‘‘۔
تاہم، اوباما نے کہا کہ کلنٹن نے ’’واضح منصوبہ اور پروگرام پیش کیا ہے اور بتا دیا ہے کہ وہ کیا کچھ کرنا چاہتی ہیں‘‘، جب کہ ٹرمپ نے ایسا نہیں کیا۔
اوباما کے الفاظ میں ’’مجھے خوف آتا ہے کہ صدر بننے کے ایک خواہشمند کو اپنے کام کا پتا نہیں، وہ سیکھنے میں بھی کوئی دلچسپی نہیں رکھتے‘‘۔
اوباما کے بقول، ’’میں سمجھتا ہوں کہ اگر اُن کی کوئی اخباری کانفرنس سن لیں، یا کسی مباحثے کو سنیں، بنیادی نکات۔۔۔ دنیا کے بارے میں یا جوہری خطرات کیا لاحق ہیں یا مختلف ممالک کہاں واقع ہیں، یا پھر، دنیا کے سنی یا شیعہ کا فرق۔۔یہ ایسی چیزیں ہیں جو اُنھیں نہیں پتا، ناہی اُنھوں نے کبھی یہ معلوم کرنے کی زحمت کی ہے‘‘۔
بدھ ہی کے روز کنوینشن میں، نائب صدر جو بائیڈن؛ کلنٹن کے نائب صدارتی امیدوار اور ورجینیا کے سینیٹر ٹِم کین؛ اور نیو یارک کے سابق میئر، مائیکل بلوم برگ بھی کلنٹن کی حمایت میں بولیں گے۔