تحریر : پروفیسر محمد حسین چوہان وجودیت کی دیگر فلسفیانہ تحریکوں اور نظام فکر کے تحت کوئی جامع ومانع تعریف نہیں کی جا سکتی،اور نہ ہی اس کو سادہ الفاظ میں سمجھایا جا سکتا ہے، سمجھنے سے زیادہ اس کا تعلق محسوس کرنے سے ہے۔عقلی و منطقی فلسفوں کے بر عکس یہ انسانی ذات کے داخلی محسوسات، کیفیات اور تجربات کو زیر بحث لاتی ہے۔ عقل سے زیادہ وجدان سے اپنا رشتہ استوار کرتی ہے۔ فلسفیانہ تحریک ہونے کے باوجود اس کا اسلوب اور اظہار فنکارانہ و ادیبانہ ہے۔منطقی و ایجابی فلسفوں کی زباں جہاں بند ہوتی ہے وہاں سے اس کا سلسلہ تکلم شروع ہوتا ہے۔
انسانی وجود اور ذات کے سوا ہر شے اور موجودات، جوہر و شعور، سماجی قوانین،اخلاقی اصول،قانون و منطق، معروضی نظریات،منطقی ایجابیت، اشتمالیت، تجرید و روحانیت،علمیات و عقلیات اور جدلیات کو صداقت کی راہ میں رکاوٹ سمجھتی ہے۔اس کے نذدیک صداقت موضوعی ہوتی ہے نہ کے معروضی۔باطن پرستی و دروں بینی ماہر طبعیات کی تحلیل سے زیادہ آپنے اندر صداقت رکھتی ہے۔ انسان کا وجود ہی اول و آخر ہے،جوہر و شعور اضافی ہیں۔ ڈیکارٹ کا مقولہ ٫٫ میں سوچتا ہوں اس لئے میں ہوں،، موضوع اور معروض کے مابین تفریق پیدا کرتا ہے جبکہ وجود روز ازل سے ہستی کا جز ہے۔ مذہب واخلاق و اقدار انسانی دکھ کا مداوا اور مسائل کا حل نہیں۔وجود کی اولیت سارترکے اس مقولے کی غمازی کرتی ہے٫٫وجود جوہر پر مقدم ہے۔،،انسان کائنات میں بے مقصد پھینک دیا گیا ہے،جہاں اس کا کوئی دوست اور خیر خواہ نہیں ہے۔ انسان ہمیشہ سے تنہا ہے اور انبوہ میں بھی تنہا رہتا ہے۔حزن انسان کا مقدر ہے، آپنی ذات کی تسخیر اور ذاتی مخنت سے آپنے آپ کو دریافت نہیں بلکہ تخلیق کرتا ہے آدمی و ہی کچھ ہے جو کچھ وہ کرتا ہے اس کے سوا کچھ نہیں ،زندگی اور کائنات کا کوئی مفہوم نہیں۔خدا کا تصور مہنگا ہے۔
ہستی کل کا مطالعہ سائنس کے ذریعے نہیں ہو سکتا،اور جو معنی ہم اشیا کو دیتے ہیں وہ ہمارے آپنے گھڑے ہوتے ہیں،ان کا حقیقی مفہوم نہیں ہوتا ،معروضیت واہمہ ہے ۔فرد واجتماع دونوں بے معنی ہیں۔مساوات کا تصور فرد کی آزادی اور جوہر کی نشو نما کو روکتا ہے ۔فرد کو کبھی بھی اجتماع کی نذر نہیں ہونا چائیے ۔مگر ساری صورتحال کے با وجود انسان کو آپنی ذاتی زمہ داری کا شدید احساس بھی ہونا چائیے،کیونکہ وہ مکمل طور پر انتخاب و عمل اور ارادے کی آزادی میں آزاد ہے،وہ جو بھی فیصلہ کرتا ہے آپنے لئے کرتا ہے دوسروں کے لئے نہیں ۔عمل و انتخاب کی آذادی کا مطلب ہے کہ وہ آپنے عمل کا مکمل طور پر ذمہ دار ہو، جہاں کسی بھی قسم کی بہانہ تراشی اور وضاحت کی گنجائش نہیںاس کا کام اس کی شخصیت کا غماز ہے ا س کا عمل و کار نامہ ہی اس کی زندگی ہوتا ہے۔بچے اخلاق وقانوں سے بالا تر ہو کر آزادی سے ایکشن کرتے ہیںکیونکہ ان کی ذات بیرونی ایکشن سے پاک ہوتی ہے ،مگر بقول سارتر اس ٫٫آزادی و انتخاب ،،کے فیصلے میں انسانیت کی بھلائی پوشیدہ ہوتی ہے یعنی وجودیت انسان دوستی کا فلسفہ ہے۔
وجودیت پسند فلسفی کسی ایک نکتے پر اتفاق بھی کرتے نظر نہیں آتے ان میں کچھ مذہبی رجحان رکھتے ہیں اور کچھ خدا کے انکاری بھی ہیں۔ کچھ انفرادیت پرستی کے لئے اخلاق کو مہمل گردانتے ہیں۔فوق البشر کا فلسفہ اپنے اندر دوسروں کے لئے ہمدردی کے جذبات نہیں رکھتا،اس کے بر عکس مادیت پسند انسان دوستی کا پر چارک بھی کرتے ہیں اس بنا پر وجودیت کا فلسفہ اتنا پچیدہ ،ہمہ جہت اور الجھاو کا شکار ہے کہ اس کی کوئی حتمی تعریف نہیں کی جا سکتی بلکہ وجودیوں کے نز دیک بھی اس کی تعریف نہیں کی جا سکتی کیونکہ تعریف کے لئے جوہر کا ہونا ضروری ہے اور یہ ہر شے کے جوہر کا انکار کرتے ہیں اسٹارٹ ہنسکومب فلاسفی نو میں کہتا ہے٫٫وجودیت ایک زہنی کیفیت اور خیالات کے گلدستے کا نام ہے،اس کی آسانی سے وضاحت نہیں کی جا سکتی۔ایک محسوس کرنے اور سوچنے کا عمل ہے۔جیسے دادا ایک آرٹ ہے،لیکن آرٹ دشمن ہے۔پنک موسیقی ہے مگر موسیقی کی مخالف ہے۔وجودیت فلاسفی ہے،مگر فلاسفی کے بر عکس بھی ہے۔،،یعنی آسانی سے سمجھ میں آنے والا فلسفہ نہیں ہے۔قاضی جاویداس ضمن میں فرماتے ہیں۔٫٫لفظ وجودیت کا مفہوم کیا ہے،یہ ہر قسم کے محض تجریدی،منطقی و سائنسی فلسفہ کی نفی ہے۔یہ عقل کی منطقیت کی نفی ہے۔یہ عقل کی مطلقیت سے انکار ہے۔اس کا تقاضایہ ہیکہ فلسفہ کو فرد کی زند گی،تجربے اور اس تاریخی صورتحال سے گہرے طور پر مربوط ہونا چائیے جس میں فرد خود کو پاتا ہے۔
فلسفہ ظن وتخمین کا کھیل نہیں،بلکہ ایک طرز حیات ہے۔یہ سب کچھ لفظ وجود میں مضمر ہے۔وجودی اعلان کرتا ہے کہ میں معروضی دنیاکی بجائے صرف آپنے حقیقی تجربے ہی کو جانتا ہوں۔اس کے نزدیک ذات ہی حقیقی ہے۔اس لئے فلسفے کا آغاز اس کی زندگی تجربے اور ذاتی علم سے ہونا چائیے۔،،اسی تسلسل میں پروفیسر بختیار حسین صدیقی کی رائے درج کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔٫٫وجودیت وہ طرز فکر ہے،جو انسانی حقیقت کو سمجھنے کے لئے اس کی ترکیب کے ذہنی اوعقلی پہلووںکی بجائے جذبی پہلو پر زیادہ توجہ دیتی ہے۔عقل تجربہ اور کلیت کے چکر میں پھنس کر دور ہی سے حقیقت کو ہاتھ لگا کر نکل جاتی ہے۔لیکن جذبہ وجود کے اندر گھس کر ہمیں دل کی گہرائیوں کا پتہ دیتا ہے بعض جذبی کیفیات تو ایسی ہوتی ہیں جن کی نفسیاتی حیثیت کم اور وجودی زیادہ ہوتی ہے۔وہ ان مسائل پر روشنی ڈالتی ہے،جن کا تعلق براہ راست انسان کی اصل حقیقت اور اس کی منزل مقصود سے ہوتا ہے۔،، شعور کو وجود کا حصہ ہی سمجھتے ہیں ان کے نزدیک شعور ہمیشہ کسی دوسری چیز کا شعور ہوتا ہے۔صداقت کے لئے عقلی تجزیے کے برعکس داخلی محسوسات اور واردات قلبی سے صداقت کی کھوج لگائی جا سکتی ہے،جو ایک فنکارانہ طریقہ کا رہے نہ کہ سائنسی و فلسفیانہ انداز۔وجودی عقل وتجربہ سے اخذ کئے ہوئے مطلب پر اکتفا نہیں کرتا وہ ہمیشہ اس تشویش میں مبتلا رہتا ہے کہ معنی معرض التوا میں ہیںہا ابھی تک برق تجلی کا ظہور باقی ہے یعنی کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔وہ ایک مکمل تخلیقی فضا میں آپنے آپ کو مصروف رکھتا ہے۔
Philosophy Research
وجودی فلسفے میں انسان کی ذات مرکزیت کی حامل ہے مگر ذات کو ایک حقیقی اور مصدقہ ذات کے سانچے میں ڈھالنے کے لئے آدمی کو خود ذات کی تعمیر و تشکیل کرنی ہوتی ہے ،جب کوئی فرد آپنی ذات کی تکمیل کر لیتا ہے،تو وہ دوسروں سے نہ صرف مختلف ہو جاتا ہے بلکہ دوسروں کے لئے ایک مثالی کردار بھی بن جاتا ہے جس کو نمائندگی کا فطری حق حاصل ہوجاتا ہے۔وہ عام فرد کے بر عکس مثالی شخص بن جاتا ہے،اس طرح انبوہ میں میں یکتائے روزگار ہستیاں جنم لیتی ہیں۔مذہبی اور روحانی سوچ رکھنے والے وجودی فلسفی اس کو ایمان محکم،ارادے کی پختگی،جرات و شجاعت سے تعبیر کرتے ہیں۔بقول کرکیکارڈ ٫٫ سچا وجوشدت احساس سے پیدا ہوتا ہے۔قول وفعل کی ہم آہنگی اور اعتماد ،سچی ذات کی تخلیق کی آبیاری کرتے ہیں۔جوش و ولولہ اس کو قوت فراہم کرتے ہیں۔علائق دنیوی سے بے نیاز ہوجاتے ہیں۔ایک عظیم مقصد کے لئے معاشرتی اقدار اور روایات کو پس پشت رکھ کر بڑے سے بڑے چیلنج کا مقابلہ کرتے ہیں۔یہ سب کچھ آپنی ذات کو خود تخلیق کرنے سے ممکن ہوتا ہے۔سچی ذات عمومیت کو خاظر میں نہیں لاتی اخلاقی قدریں اس کے نزدیک پامال ہو جاتی ہیں۔کرکیکارڈ سچے وجود کے لئے حضرت ابراہیم کی بیٹے کی قہربانی کی مثال دیتا ہے،جس نے اخلاق کے بر عکس ایمان محکم اور شجاعت کا مظاہرہ کیا،اور ہیرو کے لئے خطرات مول لینا ،بے خطر آتش نمرود میں چھلانگ لگانا بنیادی وجودی شرائط ہیں،جس کے بغیر تکمیل ذات نہیں ہوتی۔اقبال بھی صداقت کے حصول کے لئے تن خاکی میں جان ڈالنے کا مشورہ دیتے ہیں۔یعنی مثالیت پسند ذات مصدقہ کے لئے طاقت کا حصول اور اس کے بے خطر استعمال کی پر زور تائید کرتے ہیں۔
بقول سقراط ٫٫بغیر امتحان کے زندہ رہنا بے مقصد ہے،، بامقصد زندگی گذارنے کے لئے مشکلات اور مہم جوئی کی تنگ گھاٹیوں سے گزرنا پڑتا ہے۔اور زندگی کو سمجھے بغیر گزارنا ایک حیوانی جبلت تو ہو سکتی ہے انسانی نہیں۔ بے خظر کود پڑا آتش نمرود میں عشق۔عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی ہو صداقت کے لئے جس دل میں مرنے کی تڑپ ۔پہلے آپنے پیکر خاکی میں جاں پیدا کرے نٹشے کے نزدیک ایک مثالی انسان کو آپنا آدرش پورا کرنے کے لئے نیکی و برائی اور اخلاقی اصولوں کی پاسداری ضروری نہیں وہ آپنی ذات کے لئے سب کچھ کر گذرتا ہے۔مساوات اور احترام آمیت کے فلسفے اس کی ذات کی تکمیل میں سنگ راہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔مگر اس مقصد کے لئے دونوں مثالی اور دہریت پسند فلسفی آپنی زمہ داری کو قائم رکھنے پر بھی زور دیتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام بھی سوشلزم کی راہیں ہموار کرتا ہے،جو ذات کی تکمیل اور فوق البشر کے ظہور میں رکاوٹ کا با عث بنتا ہے۔قانون ارتقا کے تحت بھی برتر طبقات انسان و حیوان آپنے مقاصد کے حصول کے لئے آپنے سے چھوٹے طبقات کا استعمال کرتے ہیں۔مارسل ا نسان کی عمومی معاشرتی زندگی بالخصوص تصنع و جھوٹ، کھوکھلے تعلقات،جھوٹے انسانی رشتے،امیروں کی ریاکاری، حکمرانوں کا سطوت،عہدوں کا رعب ، گھریلو زندگی کے معاملات اور دیگر زندگی کے فرائض کی انجام دہی کو اسرار و بھید بلکہ سچی ذات کے حصول کے راستے میں رکاوٹ سمجھتا ہے ۔سیاسی و مذہبی جماعت کا دم چھلا بننے سے انسان کا باطن سے رابطہ منقطع ہوجاتا ہے۔وہ آپنی حقیقی ذات کی بازیافت نہیں کر سکتا۔بھید کو شے نہ سمجھا جائے بلکہ اس کو ذات کے اندر ایک مخفی قوت جانا جائے۔بڑی ہستیاں انا کو فنا کر کے مطلع ارضی پر طلوع ہوتی ہیں۔اسی حوالے سے سارتر وجود کی حقیقی شناخت کو سماجی مراتب،خاندانی پس منظر،جسمانی ساخت، جغرافیہ، وغیرہ کوغیر ضروری اور مصنوعی قرار دیتا ہے،کیونکہ یہ وجود کے ظہور کے بعد پیدا ہوئی ہیں۔
ان کا وجود کے ساتھ سچا تعلق نہیں ہے،آدمی گرچہ مخصوص ماحول اور پس منظر سے کچھ مستعار لیتا ہے۔لیکن اس کو آپنی مخفی صلاحیتوں کی بازیافت سے زیادہ خود کو نئے سرے سے تخلیق کرنا ہوتا ہے۔انسان کے حال کا مطلب یہ نہیں کہ اس کا ماضی کیسا تھا بلکہ وہ ماضی میں کیا تھا وجودیت کی اصل تعبیر ہے۔سارتر کے نزدیک شعور ہمیشہ کسی دوسری شے کا شعور ہوتا ہے۔وجود پہلے آتا ہے لاشئیت بعد میں اور لا شئیت وجود اور شعورکے درمیان مخفی ہوتی ہے۔ورنہ عدمیت سراسر عد میت ہے یہ ہمیشہ وجود کی محتاج ہوتی ہے۔ہر چیز وجود کیی وجہ سے ہے نہ کہ وجود کسی کا رہین منت ہے۔ہمارا کام سچے وجود کا کھوج لگانا اور اس کو محنت وجذبے کی آنچ سے تخلیق کرنا ہے۔وجود جوہر پر اس لئے مقدم ہے کہ انسانی وجود کا کوئی خالق نہیں یہ ہمیشہ سے ہے۔جوہر تو وجود کی قوت متخیلہ سے پیدا ہوتا ہے۔خود شناسی وخود آگہی کے بغیرزندگی با معنی نہیں بنتی،اور دکھوں کا مداوا بھی اس کے بغیر نہیں ہوتا جب تک شعوری کاوشوں کے ذریعے ذات کو تخلیق نہ کیا جائے۔٫٫ذات مصدقہ اور دکھوں کا مداو،،ا کے عنوان سے لکھے گئے مضمون میں الیسا انوکینا رقمطراز ہیں۔٫٫آدمی کی ذات اس وقت ایک حقیقی ذات کی شکل میں تشکیل ہوتی ہے جب اس کو شعوری طور پر تخلیق کیا جائے،ورنہ ہم جین،کلچر، اور عمومی تجربات کا ملغوبہ ہوتے ہیں۔آپنی ذات کے دریافت کرنے کا مطلب ہے کہ ہمیں ایسی حقیقت کا انتخاب کرنا ہے جس کو ہم نے ہی قبول کرنا ہے۔یہ طریقہ کار موضوعی ہی ہو گا ،مگر دکھوں کے مداوے کے لئے اس سے بہتر کوئی دوسرا راستہ نہیں۔،،یعنی ذات کی تخلیق کے لئے ارادہ،آگہی ،آزادی اور ذمہ داری کے اوصاف اپنانے ہوں گے۔۔بامعنی چیز کا انتخاب ہمیشہ مشکل ہوتا ہے،مگر بقول سائمن٫٫بہت سے اس طریقے سے آپنی ذات کی تشفی کر لیتے ہیں۔،،
Society
ذات کی تخلیق و تشکیل کا عمل ہمیشہ مشکل ہوتا ہے۔یہ کبھی بھی پر مسرت نہیں ہوتا مگر اعتماد ویقین کی منہاج پر جب انسان کا مرغ تخیل براجمان ہوتا ہے،تو انا الحق کی بے ساختہ آواز نکلنا شروع ہو جاتی ہے۔یہ ایک روحانی وجودی کیفیت ہے،جسے ظں و تخمین سے جانچا نہیں جا سکتا۔وجودی فلاسفہ کی تحریروں میں حزن و یاس۔تنہائی وبیگانگی،عدمیت وفنا،دنیا کی بے ثباتی اور بے معنی کا ذکر جا بجا ملتا ہے ہا ئڈیگر کے بقول دنیا میں ہمیں بے مقصد پھینکا گیا ہے یہاں ہماری رکھوالی کرنے والا کوئی نہیں۔وجود انسانی کا مطلب وجود برائے موت ہے اور موت انسان کی فطری وارث ہے۔انسان پیدا ہوتے ہی موت کے لئے بوڑھا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔موت وجود کی مادی تکمیل ہے۔لیکن انسان کی کامل آزادی کا خواب جو وجودیوں نے دیکھا اس کا نعم البدل کوئی فلسفہ نہیں اور آزادی بھی زمہ داری کے ساتھ۔بقول سارتر یہ آزادی صرف آپنی ذات کے لئے نہیں بلکہ دوسرے انسانوں کے لئے بھی ہے۔،اسی بنا پر سارتر نے فرانس پر جرمنی کے حملے کی شدید مخالفت کی،اور جب فرانس نے الجیریا پر قبضہ کیا تو فرانسیسی ہونے کے با وجود اس نے الجیریا کی آزادی کے لئے خوب لکھا اور فرانسیسی استعماریت کی مخالفت کی۔وجودیوں کے لئے آزادی کا مفہوم نوع انسانیت کی آزادی ہے،اور اس آزادی کا تصور ذات مصدقہ کی تخلیق کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ورنہ نسل مذہب، جغرافیہ اور قومی مفادات کے لئے لڑنے والے طالبا ن ،مجاہد اور قوم پرست ہیرو تو تخلیق ہو سکتے ہیں انسان دوست وجودی نہیں۔اسی طرح ١٨٦٠ میںروس میں عدمیت کے فلسفے کی حامل تحریک نے زور پکڑا جس کا نظریہ تھا کہ انسان کے سوا دوسرے تمام معاشرتی،سیاسی،و معاشی ڈاھانچے اضافیت کے دائرہ کار میں آتے ہیں جنہوں نے انسان کی آزادی کو سپو تاژ کر رکھا ہے۔انہوں نے ہر طرح کی مذہبی و معاشی اتھارٹی کو چیلنج کیا۔انسان کے وجود کی آزادی کے لئے قتل عام بھی کیا،زار روس کے حکمرانوں سمیت کئی لوگ قتل بھی ہوئے۔جس کا فکری ملخص یہ تھا کہ انسان کی ذات حقیقی ہے باقی تمام نظام ہائے فکر قبضے گروپ کے زمرے میں آتے ہیں،عدمیت کی اسی تحریک نے آگے چل کر سوشلزم کی راہ ہموار کی۔وجودی عدمیت جب سیاسی فلسفے میں جگہ پکڑتی ہے تو ایک ہی صف میںکھڑے ہو گئے محمود و ایاز۔نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز والی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔
بہر کیف وجود مصدقہ کے لئے فکر و عمل کی ہم آہنگی اور یقین کامل ہونے کا خواب عمومی زندگی میں اتنا آسان نہیں کیونکہ اس میں عمومیت نہیں بلکہ تخصیص ہے اسی بنا پر وجودیوں کے ہاں اجتماعیت کے بر عکس انفرادیت غالب آجاتی ہے۔کیونکہ استحصالی معاشروں میں فکر و عمل کی ہم آہنگی اور یقین محکم کا پیدا ہونے کی صورتحال پیدا نہیں ہوتی۔کیونکہ عام فرد ہر سطح پر احساس بیگانگی کا شکار ہوتا ہے۔ مایوسی و بیگانگی میں فکر و عمل کی یکجائی پیدا نہیں ہو سکتی۔بقول غالب سنبھلنے دے مجھے اے نا امیدی کیا قیامت ہے۔کہ دامان خیال یار چھوٹا جائے ہے مجھ سے۔ اس بنا پروجود مصدقہ اور ذات کی تخلیق کے لئے ایک سازگار و عادلانہ سیاسی و سماجی اور معاشی نظام کا ہونا بھی اہم ہے ،اگر وجودی فلسفہ ذات مصدقہ کا پرچارک کرتا ہے تو اس میں عمومیت کا نہ ہونا بھی ایک بڑا نقص ہے۔مگر سارتر کے نذدیک جذبی سوز اور لگن اور ضمیر کا فیصلہ فرد واحد کے لئے نہیں ہوتا بلکہ نوع انسانیت کے لئے ہوتا ہے۔وجود مصدقہ کے لئے صداقت پر مبنی رائے رکھنا ہی اس کے نزدیک وجودیت ہے۔وہ کہتا ہے کہ ایک عام آدمی جنگ میں شریک نہیں ہوتا مگر جنگجو یانہ عزائم رکھتا ہے تو وہ بنی نوع انسان کا قاتل ہے۔وہ نہ سچی ذات کا مالک ہے اور نہ احترام انسانیت کا نمائندہ۔یعنی وجودی کے لئے ضمیر کا قیدی ہونا ضروری ہے۔
خلاصہ کلام وجودیت معرفت خود آشنائی اور خود آگاہی کا فلسفہ ہے۔یہ انسان کی باطنی کیفیات اور اصلیت کا نمائندہ ہے۔جوش عمل اور حریت پسندی سے آپنی ذات کی تخلیق کرتا ہے۔ماورائیت کے ذریعے امکانات کی دنیا کا متلاشی ہے۔صداقت کا حصول اس کا سب سے بڑا خواب ہے۔انسان کے اندر یقین کامل اور خود اعتمادی پیدا کر کے فرد کو انفرادیت بخشتا ہے۔بر سبیل تذکرہ اقبال اور سارترکے ہاں یہ انفرادیت بعد میں اجتماعیت کا روپ اختیار کر لیتی ہے۔فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیںْموج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں پر منتج ہوتی ہے۔وجودیت ہمیں بتاتی ہے،زندگی سے بہتر کوئی استاد نہیں۔راہنمائی کے لئے ذاتی تجربات سے بڑھ کر کوئی راہنما نہیں۔تجربہ کا ہر امر میں دانشمندانہ استعمال اور آپنی کامیابی کے ثمرات میں دوسروں کو شریک کرنا، کا م اور تجربہ کا مطلب دوسروں کی خوشنودی سے بڑھ کر اس کا شکوک و شبہات سے پاک ہونا ضروری ہے۔ذات مصدقہ کا تجربہ انا کو ٹھیس نہیں پہنچاتا جس سے دوسرا اختلاف کرے۔زندگی میں کون اور کس نے آپ کو صاحب بصیرت بنایا کا طے کرنا بھی ضروری ہے۔دوسروں کو جاننے سے پہلے آپنے آپ کو جاننا ضروری ہے۔صبر ،استقامت،مصمم ارادہ امکانات کے دروازے کھول دیتا ہے۔خوف وخطرات اور بے یقینی کا شکار انا قیادت کا کردار ادا نہیں کر سکتی۔
Prof. Mohammad Hussain Chauhan
تحریر : پروفیسر محمد حسین چوہان mh-chohan@hotmail.co.uk