تحریر : محمد جواد خان قرآن مجید کے مطالعہ کے بعد یہ انکشاف ہو ا کہ اس وقت دنیا میں جتنے بھی فلسفے رائج ہیں ، قرآن مجید ان سب کے مجموعے پر برتری و بالادستی رکھتی ہے، اس کے پیش کردہ فلسفے کے مقابلے میں دنیا کے دوسرے تمام نظریات اور فلاسفر کوئی حثیت نہیں رکھتے۔ کانٹ ، ہیوم، سارترا اور ارسطو تک جتنے بھی نامور فلسفی گزرے ہیں اور انہوں نے اپنی پوری پوری زندگی اس سوال کے جواب تلاش کرنے میں کھپا دی کہ ہم (انسان) اس دنیا میں کس کے لیے آئے ہیں لیکن ان سب نے اپنے اپنے فلسفے، خیالات، نظریات تو دینا کے سامنے پیش کر دیئے ہیں لیکن حقیقتاََ ان میں سے کوئی بھی اس سوال کا جواب تلاش کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔
ان لوگوں کے فلسفوں نے دنیا کی آبادی کے ایک بڑے حصے کو تو یقینا متاثر کیا ہوگا لیکن وہ اس بنیادی سوال کا کوئی متفقہ جواب بنی نوع انسان کو پیش نہیں کر سکے۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہی تھی کہ انھوں نے “وحی الہٰی” کے اہم ترین پہلو کو بالکل یکسر نظر انداز کر دیا تھا اور انسان کو مسلئہ اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ جب وہ وحی الہٰی کو نظر انداز کر دیتا ہے یا اس کو قبول کرنے سے انکار کر دیتا ہے تو بس وہ بھٹکا ہی رہتا ہے۔ ان سارے فلسفیوں کے فلسفے میں کہیں “خدا” کا کوئی تصور ہے بھی تو وہ شرک سے آلودہ ہے یا پھر سرے سے بڑے بڑے “دانشور”کسی خدا کو مانتے ہی نہیں۔
پھر اس کی جانب سے عطا کردہ ہدایت (وحی) کو قبول کرنے کا کیا سوال رہ جاتا ہے۔ چنانچہ ان نام نہاد “دانشوروں” کے یہ نظریات کبھی بھی کل انسانیت میں قبول عام نہیں پا سکتے اور نہ کبھی پا سکیں گئے۔ یہ چیز ہم کو صرف اور صرگ وحی کے اندر ہی مل سکتی ہے۔ جس کی آخری، مکمل ، منضبط اور مکمل مدمل شکل جو آخری اور قطعی فیصلہ کن بھی ہے۔ وہ قرآن کریم ہے جو سر تا سر “وحی” پر مبنی ہے اور یہ امر طے شدہ ہے کہ “وحی” کے بغیر انسانیت گمراہ ہے اور پیغمبر ۖ نے سب سے پہلے خود وہی پر عمل کر کے دنیا کو دکھا دیا۔ آپ ۖ کا یہ عمل پوری انسانیت کے لیے مشغل ِ راہ ہے۔ انسانیت صرف اسی سے راہ ِ ہدایت پا سکتی ہے۔
Holy Quran
اسی طرح آپ ۖ کی پوری زندگی قرآن کی عملی تفصیر تھی اور رہتی دنیا تک بہترین نمونہ رہے گی۔ قرآن کریم پوری انسانیت کے لیے زندگی کے ہر پہلو کی مکمل وضاحت کرتا ہے، اور ہر سوال کا جواب عطا کرتا ہے۔ یہ دنیا کے تمام فلسفوں اور فلسفیوں کی ہر بات کا جواب ہے جو خود آپس میں شدید اختلافات رکھتے ہیں ورنہ یہ لوگ کسی ایک فلسفے پر تو متفق ہو جاتے، لیکن ایسانہ ہوا اور نہ ہو سکتا ہے کیوں کہ یہ سب اصلاََ “بندوں” کے خیالات ہیں جن پر پوری انسانیت کبھی متفق نہیں ہو سکتی۔
یہ اعجاز صرف قرآن کو حاصل ہے کہ پوری دنیا میں صرف قرآن کریم کے پیش کردہ فلسفے کو نہ صرف سمجھا جاتا ہے بلکہ اس پر عمل درآمد بھی کیا جاتا ہے۔ اس بابت پوری دنیا میں دو مسلمانوں میں کوئی اختلاف نہیں ہو گا اور نہ ہو سکتا ہے، چاہے وہ افریکا کا رہنے والا سیاہ فام ہو یا برطانیہ کا رہنے والا گورہ ہو، سعودیہ کا رہنے شیخ ہو یا ایشیاء کا رہنے والا فقیر ہو سب کا فلسفہ ایک ہی ہوگا۔ لہذا قرآن کا فلسفہ ہی حق و سچ ہے۔
دنیاوی نام نہاد فلسفیوں اور دانشوروں کے فلسفوں میں سوائے ان کی وحی سے محروم پریشان خیالی اور انتشار ِ فکر کے کچھ نہیں تھا اور نہ کبھی ہو سکتا ہے لہذا ہمارے پاس حضرت محمد ۖ کی لائی ہوئی کتاب ہدایت اور آپ ۖ کی سنت مبارکہ کی پیروی ہی واحد راستہ ہے جس پر چل کر پوری انسانیت دنیا و آخرت کی تمام تر بھلائیاں حاصل کر سکتی ہے۔ باقی سب چیزیں باآخر تاریخ کے کوڑے دان میں جانے والی ہیں۔
Mohammad Jawad Khan
تحریر : محمد جواد خان mohammadjawadkhan77@gmail.com