سقراط کو مغربی فلسفے کے بانیوں میں سے ایک مانا جاتا ہے – یہ ایک عجیب بات ہے کہ جس نے اہل مغرب کو ایک جدید نظریے اور فلسفے سے روشناس کروایا اس کی کوئی باقاعدہ اپنی تصنیف موجود نہیں سوائے افلاطون کے جس نے سقراط کے نظریات کو پھیلایا – ایتھنز میں پیدا ہونے والا سقراط ایک سنگ تراش تھا اور بعد میں ایتھنز کی فوج میں بھی شامل رہا – سقراط نے عوام میں پھیلے گمراہ کن عقائد پر تنقید کی جو کہ معاشرے میں سرایت کر چکے تھے – سقراط مکالموں کی صورت عوام میں گفتگو کرتا تھا جس کا مقصد عوام کو ان گمراہ کن عقائد پر غور و فکر کی دعوت دینا ہوتا تھا – اس کے مکالمے کچھ یوں ہوتے؛
سوال :کیا دیوتا سب جانتے ہیں؟ جواب:جی ہاں! بالکل سوال:لیکن بعض اوقات وہ کچھ معاملات سے غیر متفق بھی ہوتے ہیں – جواب:ہاں ایسا ہی ہے، وہ ہمیشہ لڑتے ہیں – سوال:یعنی وہ صحیح اور غلط کی کشمکش میں الجھے رہتے ہیں؟ جواب:جی میرا خیال تو یہی ہے – سوال:تو مطلب یہ ہوا کہ دیوتا ہر شے کے بارے میں علم نہیں رکھتے؟
سقراط کا خیال تھا کہ اچھائی یا برائی کوئی نفسی موضوعات نہیں بلکہ یہ ابدی تصورات ہیں _ اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم مسلسل خودشناسی کے ذریعے ان تصورات کو دریافت کریں – حکمت اور دانائی ہی انسان کو اخلاقیات کی حقیقی روح سے متعارف کرواتی ہیں – سقراط کے نزدیک کائنات میں واحد اچھائی علم اور جہالت واحد برائی ہے – وہ کہتا ہے کہ انسان کو علم کی تلاش کسی بھی قیمت پر جاری و ساری رکھنی چاہیے ورنہ جہالت اس کا مقدر بن کر عمر بھر اسے اندھیروں میں ہی بھٹکاتی رہے گی – سقراط کے نزدیک جسم اور روح دو مختلف چیزیں ہیں اور اگر جسم متروک کر دیا جایے روح کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا بلکہ وہ کہیں اور چلی جائے گی – سقراط کی نظر میں نقصان صرف وہ ہوتا ہے جو آپکو روحانی طور پر متاثر کرے اور یہ صرف انسان کے اپنے غلط عمل کی وجہ سے ہی ہوتا ہے – سقراط کے سامنے اسکے جرائم پر پانچ شرائط تھیں جن میں سے اس نے موت کو چنا تھا – پہلی قید، دوسری جلاوطنی، تیسری اپنے نظریات سے کنارہ کشی، چوتھی جرمانہ اور آخری موت –
قید سقراط کے لیے ناقابل قبول تھی کیونکہ اسطرح اسے عمر بھر دوسروں کے تابع رہنا پڑتا – سقراط جو ایتھنز کو دل و جان سے چاہتا ہے، 70 سال کی عمر میں جلاوطنی کا تو وہ سوچنا بھی نہیں چاہتا تھا – اسکا کہنا تھا کہ وہ کہیں اور بھی چلا جائے تب بھی لوگ اسے ڈھونڈ کر اسکی محفل میں بیٹھنے لگیں گے اور ان سے بچنے کے لیے اسے مسلسل ایک جگہ سے دوسری جگہ چلتے رہنا پڑے گا – سقراط کے لیے علم و حکمت سے بھرپور مکالموں سے دستربردار ہو کر خاموشی کی زندگی گزارنا موت جیسا تھا – خاموش رہنے کا مطلب دیوتاؤں کی نافرمانی تھی – سقراط کے نزدیک علم ایک نیکی ہے اور لوگوں تک اسے پہنچانے کا واحد ذریعہ یہ ہے کہ ان سے ان کے عقائد کے بارے سوال کیے جائیں تاکہ وہ جوابات کی تلاش میں زندگی کے نئے اسراروں سے پردہ ہٹا سکیں – سقراط کے پاس اتنی دولت بھی نہ تھی کہ وہ جرمانہ بھر کر آزاد ہو سکتا لہذا موت ہی ایک آخری صورت تھی جسے وہ چن سکتا تھا – کیونکہ سقراط سمجھتا تھا کہ خاموشی، جلاوطنی اور قید اسکی روح کو نقصان دیں گے اور وہ نہیں چاہتا کہ خود اپنی مرضی سے اپنی روح کو نقصان پہنچائے اور دیوتاؤں کو ناراض کرے-
سقراط موت کو ایک امید سمجھتا تھا – ایسی امید کہ جس کے بعد اسکی روح ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو جائے گی – جہاں اسے وہ تمام خوشی اور دانائی مل سکے گی جو یہاں نہ مل سکی تھی – لہذا سقراط نے خود ہی اپنے ہاتھوں سے زہر کا پیالہ پی لیا – سقراط کو مغربی تاریخ کا پہلا شہید دانشور تصور کیا جاتا ہے – یہ وہ شخص تھا جس نے اپنی زندگی حکمت و دانائی کی کھوج اور انصاف و خوبصورتی جیسے تجریدی تصوارات کے حصول میں وقف کر کے آنے والی دنیا کو علم و حکمت کی نئی راہوں پر گامزن کیا-
جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ انسان کو سائنسی مشاہدات کی بنا پر بہت سا علم حاصل ہوا ہے – فلیمنگ کی پنسلین ہو یا مارکونی کا ریڈیو معلومات جس ذریعے سے بھی حاصل ہوں وہ ہمارے علم میں اضافے کا سبب بنتی ہیں – سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انسان کا تمام علم عملی مشاہدات کی بنا پر ہی حاصل ہوا؟ ہمارا جواب ہاں ہی ہو گا مگر سقراط کے نزدیک ایسا نہیں ہے – وہ کہتا ہے کہ حسیات کسی بھی صورت حقیقت کو نہیں سمیٹ سکتیں – روح اور بدن کے مابین ایک تقسیم ہے جس میں بدن کا علم حاصل کرنے میں کوئی کردار نہیں ہے – سقراط کے نزدیک جسم کا تعلق صرف مادی خوشی کے ساتھ ہے جیسے خوراک، جنسی ضروریات اور دولت وغیرہ – لہذا ان تمام وجوہات کی بنا پر بدن علم کے حصول میں ایک رکاوٹ ہے اور یہ کبھی بھی حقیقی علم سے آشنا نہیں کروا پاتا بالکل اسی طرح جیسے ایک ہی شے کو دو مختلف لوگ مختلف انداز سے بیان کرتے ہیں اور ان کا مشاہدہ کبھی بھی یکساں نہیں ہوتا – سقراط کا کہنا ہے کہ انسان کو علم کے ذرائع کے لیے اپنی حسیات پر کبھی انحصار نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ہر انسان کی حسیات مختلف ہوتی ہیں – اس کے مطابق علم ایک ابدی، ٹھوس اور کبھی نہ بدلنے والی شے ہے اور اس کے لیے اپنی حسیات پر انحصار کر کے اسے کھوجنا بےکار ہے – اس کی مثال سقراط یوں دیتا ہے کہ اگر ایک لکڑی کو آدھا پانی میں ڈبو کر دیکھا جائے تو یہ ٹیڑھی دکھائی دے گی جبکہ حقیقت میں وہ ایسی نہیں ہے – تو کیا ہماری حسیات ہمیں دھوکہ دیتی ہیں؟
سقراط کہتا ہے کہ جسم کا تعلق ایک ناپائیدار اورحسیاتی دنیا سے ہے جبکہ روح ایک ابدی اور پائیدار دنیا سے تعلق رکھتی ہے – حسیاتی دنیا یہی ہے جو ہم اپنے اردگرد دیکھتے ہیں لیکن یہ ایک عکس ہے – حقیقی دنیا ہم سے پوشیدہ ہے جہاں ہر شے کی پہلے سے ایک وضع اور ہییت موجود ہے – یہ ہییت ایک پائیدار، ناقابل تبدیل اور ابدی پیمانہ ہے جس کی بنیاد پر ہم اس ناپائیدار دنیا میں اشیا کو پہچان پاتے ہیں – سقراط کے نزدیک چونکہ یہ کائنات مسلسل بدلاؤ کا سامنا کرتی ہے اس لیے یہ حقیقی نہیں ہو سکتی اور اسی بنا پر کوئی بھی شے یہاں مستقل نہیں ٹھہر پاتی – مثال کے طور پر لکڑی کی ایک کرسی چاہے جتنی اعلی اور مضبوط بنائی گئی ہو لیکن ایک وقت آتا ہے کہ یہ بھی زوال پزیر ہو کر اپنا وجود مکمل کھو بیٹھتی ہے – اسی طرح جسم بھی اپنی تمام ضروریات اور خواہشات کی بنا پر ہمیں مختلف طریقوں سے مصروف رکھتا ہے – اسی حسیاتی وجود کی بنا پر یہ انسان کو علم و حکمت سے دور کر دیتا ہے –
سقراط کے نزدیک اگر کوئی انسان علم و دانش حاصل کرنا چاہتا ہے تواسے حسیاتی دنیا سے توجہ مکمل طور پر ہٹانی ہو گی کیونکہ یہ ایک خواب سے زیادہ کچھ نہیں ہے – اور ہم سب جانتے ہیں کہ خواب کتنا تیزی سے بدلتے ہیں – اور اگر چیزیں اسی طرح بدلتی رہیں تو ہم کیسے کچھ بھی سیکھ سکتے ہیں؟ جسم ایک بدی کا مقبرہ ہے جو ہماری روح کی اچھائی کو قید کر لیتا ہے اور حکمت کے ہر موقعے کو دھوکہ میں بدلنے کی سعی کرتا ہے – اس طرح سقراط مختلف دلیلیوں کی بنیاد پر یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ بدلاؤ اور ناپائیداری سے بھرپور اس کائنات میں ہماری حسیات کبھی حقیقت تلاش نہیں کر سکتیں – حقیقت اور حکمت صرف اپنی روح میں تلاش کی جا سکتی ہے جس کے لیے روح تک پہنچنا لازم ہے – ہماری پیدائش ہمیں وہ تمام چیزیں بھلا دیتی ہے جو ہماری روح سیکھ چکی ہوتی ہے لیکن انہیں پہچاننا ممکن ہوتا ہے – اسی لیے سقراط کہتا ہے کہ انسانوں کو وہ سب سیکھا ہوا دوبارہ یاد کرنا پڑتا ہے اور اس کے لیے سقراط جدلیاتی طریقہ اپنایا کرتا تھا – وہ لوگوں سے سوالات کرتا تھا اور انکو غور و فکر کرنے پر اکساتا تھا – سقراط کہتا ہے، “حکمت و دانائی اس وقت آ سکتی ہے جب انسان کسی بھی منظر یا حسیاتی مشاہدے کو ذریعہ بنائے بنا خالصتاً اپنے خیالات پر غور کرے – آنکھوں اور کانوں اور دیگر بدنی عوامل سے آزاد ہو کر ہی روح انسان کو حقیقی علم سے آشنا کروا سکتی ہے کیونکہ انسان کا بدن ہمیشہ اسکی روح کو کشمکش میں ڈال کر اسے سچائی اور حکمت سے دور رکھنے کی کوشش کرتا ہے ”
سقراط کا نظریہ ایک طرف رکھ کر اگر ہم اسلام پر غور کریں تو معلوم ہو گا کہ یہ دنیا کی ناپائیداری اور ابدی زندگی کے بارے سقراط سے زیادہ مدلل اور واضح نظریات پیش کرتا ہے – یہ ہمیں علم و حکمت کے لیے جسمانی خواہشات سے دوری اور مکمل یکسوئی سے غور و فکر کرنے کی دعوت دیتا ہے لیکن یہ جسم کو مکمل نطر انداز کرنے کی بھی اجازت نہیں دیتا – چونکہ یہ ہدایت کا ایک واضح راستہ دکھاتا ہے لہذا سقراط کا فلسفہ اپنی جگہ لیکن اسلامی فلسفہ حیات انسان کو مکمل حقیقی علم سے آشنا کرواتا ہے – بس شرط یہ ہے کہ خیالات تمام دنیاوی و جسمانی خواہشات سے پاک ہوں – لہذا سقراط، افلاطون، ارسطو اور ان جیسے دیگر فلسفیوں کے فلسفے پڑھنا اچھا ہے لیکن صرف انہی سے متاثر ہو کر حقیقی فلسفہ حیات نظرانداز کر دینا دانشمندی نہیں ہے – موجودہ دور میں حقیقت کے متلاشی ارسطو اور سقراط کو پڑھنے میں عمر تو کھپا رہے ہیں مگر وہ ایک واضح اور حقیقی فلسفے کی جانب توجہ نہیں دیتے جو انہیں علم و حکمت کے ساتھ ساتھ اس کائنات سے بھی آشنا کرواتا ہے جسے سقراط عمر بھر کھوجتا رہا –