کراچی (جیوڈیسک) پاکستان کی قومی فضائی کمپنی پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کارپوریشن لمیٹڈ کے چیئرمین اعظم سہگل کا کہنا ہے کہ ادارے میں انتظامیہ کی عملداری اور اختیار نہ ہونے کے برابر ہے۔
پی آئی اے سی ایل کے پہلے باضابطہ چیئرمین کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس کی بڑی مثال عملے اور طیاروں کی تعداد کا تناسب ہے۔
’پی آئی اے میں مستقل ملازمین اندازاً 14 ہزار ہیں اور چار ہزار کے قریب دیہاڑی دار ہیں جو عرصے سے کام کر رہے ہیں تب سے جب ہمارے پاس 14 یا 15 طیارے تھے۔ ہمیں اب دستیاب طیاروں کے حساب سے چار ہزار افراد کی ضرورت ہے۔ آپ اس سے اندازہ لگا لیں کہ ہماری انتظامیہ کی اس پی آئی اے میں عملداری کتنی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ عملے کے انتخاب سے لے کر اگر کمپنی کارکردگی کی بنیاد پر کسی کو برخاست کرنا چاہے تو بھی نہیں کر سکتی۔
اعظم سہگل کو مئی 2016 میں حکومت نے پی آئی اے سی ایل کا پہلا باضابطہ چیئرمین مقرر کیا تھا پی آئی اے میں قیادت اور احتساب کے فقدان کے حوالے سے اعظم سہگل نے بتایا کہ ایئرلائن میں احتساب کے فقدان کی بڑی وجہ یونین اور ایسوسی ایشنز کا حد سے زیادہ اثر و رسوخ ہے۔
’بدقسمتی سے یونینز اور ایسوسی ایشنز کے اثر و رسوخ اور ان کی دخل اندازی کی وجہ سے ہم احتساب کے لیے تحقیقات کر کے نتیجے پر پہنچ تو جاتے ہیں مگر ہمارے لیے اس سے اگلا قدم بہت مشکل ہے۔‘
پی آئی اے نے 14 اگست 2016 سے پریمیئر سروس کے آغاز کا اعلان کیا ہے انھوں نے کہا کہ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ’انتظامیہ کی عملداری بالکل نہیں ہے۔ ہماری انتظامیہ کی طاقت بالکل نہیں ہے۔‘ اور یہ خیال بھی ایک حد تک درست ہے کہ پی آئی اے کی ’انتظامیہ یونینز کے ہاتھوں یرغمال بنی ہوئی ہے‘۔
اعظم سہگل کا کہنا تھا کہ اس صورتحال کا حل آسان نہیں۔ ’یہ آہستہ آہستہ ہوگا۔ ہم اپنے طیاروں کی تعداد میں اضافہ کریں گے جس کے نتیجے میں ہمارے لوگ جو فارغ پھر رہے ہیں، جو سازشیں کرتے ہیں، سیاست کرتے ہیں انھیں کمپنی میں اتنے کام پر لگایا جائے گا کہ وہ ان کاموں سے باز رہیں گے۔‘
پی آئی اے کو کمپنی بنانے کے بعد تبدیلی کے حوالے سے چیئرمین نے کہا کہ حکومت نے پی آئی اے کو پرائیویٹائز کرنے کی غرض سے اسے ایک لمیٹیڈ کمپنی بنایا جس کی ملکیت حکومت کے پاس رہے گی چاہے اس کی نجکاری ہو یا نہ ہو۔
پی آئی اے کی نجکاری کے بارے میں انھوں نے بتایا کہ ہڑتال اور بعد میں سیاسی جماعتوں کی مخالفت کی وجہ سے ’حکومت نے 26 فیصد حصص کی نجکاری کرنے کے فیصلے کو بدلا اور اب کمپنی کا انتظام حکومت کے پاس رہے گا۔ حکومت 51 فیصد حصص اپنے پاس رکھے گی۔‘
بقیہ حصص کے بارے میں اعظم سہگل نے بتایا کہ ’حکومت سٹریٹیجک سرمایہ کار لائے گی 49 فیصد کے لیے یا سٹاک مارکیٹ کے ذریعے اس کے حصص کی قیمت بہتر کر کے اس کو بیچا جائے گا۔‘
پی آئی اے کارپوریشن لیمیٹڈ کے انتظامی امور چلانے کے لیے جرمن ایئرلائن لفتھانسا کے سابق سینیئر اہلکار برنارڈ ہلڈنبرینڈ کو چیف ایگزیکٹو افسر تعینات کیا گیا ہے
چیئرمین پی آئی اے نے بتایا کہ کمپنی میں چھ یونینز اور ایسوسی ایشنز ہیں، جن کے علاوہ ایک بہت طاقتور سی بی اے یعنی کلیکٹو بارگیننگ ایجنسی ہے جن کا کافی اثر و رسوخ ہے۔
پی آئی اے کے عملے سے مسافروں کی شکایات اور عملے کے مختلف جرائم میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے حوالے سے اعظم سہگل کا کہنا تھا کہ ’اس کا مکمل الزام پی آئی اے پر لگا دینا مناسب نہیں کیونکہ افرادی قوت کی تعداد اور ان کی سروس کا معیار یونینز اور ایسوسی ایشنز قائم کرتی ہیں انتظامیہ نہیں۔‘
جب اُن سے پوچھا گیا کہ گذشتہ دنوں ہڑتال کے بعد شوکاز نوٹس جاری کیے گئے مگر کارروائی کچھ نہیں ہوئی تو اعظم سہگل کا کہنا تھا کہ ’میرے نزدیک بدقسمتی میں اس معاملے کو برے طریقے سے ہینڈل کیا گیا ہم نے لوگوں کی شناخت کی، سزا دی انہیں ملازمتوں سے نکالا، ان کے خلاف کیس درج کروائے مگر کسی نہ کسی طریقے سے وہ سب لوگ واپس پی آئی اے میں پہنچ گئے۔‘
لازمی سروس ایکٹ کے باوجود کارروائی نہ کرنے پر چیئرمین پی آئی اے کا کہنا تھا کہ ’ہمیں اسے بہتر طریقے سے ہینڈل کرنا چاہیے تھا۔ جن لوگوں کا بہت قصور تھا اور وہ واضح تھا۔ لازمی سروس ایکٹ بھی لاگو تھا جس کے نتیجے میں بہت ساری کارروائیاں غیر قانونی تھیں مگر ہم لوگوں نے اس کا فائدہ نہیں اٹھایا۔‘