ویسے میں کل کھڑا سوچ رہا تھا کہ پی آئی سے جعلی پائلٹ نکال دینے کے دکھ میں پوری نون لیگ کیوں تڑپ رہی ہے۔کھڑے کھڑے سوچا کہ پی آئی کے ان مشاق لوگوں کو ایئر بلیو میں کیوں نہیں نوکریاں دی جاتیں وہ ایئر بلیو جو رینکنگ میں پاکستان کی بہترین ایئر لائین ہے ۔مشاہد اللہ خان،اللہ شاہد ہے اور گواہ ہے اس بات کا کے جتنے اللے انہوں نے پی آئی اے میں بھرتی کرائے ہیں کاش وہ اپنے کسی غریب محلے دار کو بھرتی کرا دیتے ہیں لندن نیو یارک کی پوسٹ اور وہ بھی گھوم پھر کے اوللہ خاندان کے کیوں پاس آ جاتی ہے۔اس دارے کے ساتھ جو کچھ ہوا ہندی کا ایک لفظ ٰاد آ رہا ہے لیکن اس وقت لکھنا مناسب نہیں ہے۔بات مشاہد اللہ خان کی نہیں ہو رہی بات ان نالائق پائلٹوں کی ہو رہی ہے جن کی وجہ سے پاکستان کو بد نامی کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ اس میں دو گروہ بن گئے ہیں ایک کا کہنا ہے غلام سرور خان نے اعلان کر کے برا کیا پردہ رکھنا چاہئے تھا اس سے ایئر لائن بدنام ہو گئی ہے اس کے جہاز گرائونڈ ہو گئے ہیں حالنکہ کرونا کی وجہ سے فلائٹیں بند ہیں کہنے والے کہتے ہیں ملک کا نام بد نام ہوا ہے دوسری قسم کی سوچ رکھنے والے کہتے ہیں جلد یا بدیر یہ کام ہو کے رہنا تھا کب تک مسافروں کی لاشیں اکٹھی ہوتی رہیں گے کب تک لوگ ان جعلسازوں کا سامنا کرتے رہیں گے۔
پی آئی اے تھی جی بلکل تھی جب تک ایئر مارشل نور خان جیسے لوگ اسے چلاتے رہے اسی کی دہائی تک تو معاملات ٹھیک تھے آپ یقین کریں ہم جب نئے نئے سفر کرنا شروع ہوئے تو تو جہاز اترتے وقت ہمیں یہ محسوس ہی نہیں ہوتا تھا کہ لینڈنگ ہو چکی ہے اور اب تو جہاز کے پائلٹ کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ لینڈنگ گیئر کھولے بھی گئے ہیں یا نہیں۔کراچی ایئر پورٹ پر جو حادثہ ہوا ہمیں اس پائلٹ کے والدین س اور فیملی ے ہمدردی ہے لیکن کہا جاتا ہے مہاشے لینڈنگ ویلز کھول ہی نہیں پائے اور دھڑام سے جہاز نیچے گرا دیا پھر شعلے بلند ہوئے اور اڑ گئے اور وہی ہوا جو میں اور آپ جانتے ہیں ۔٩٧ لوگ جان سے گئے۔
جعلی پائلٹوں کا مسئلہ کوئی چھوٹا نہیں ۔پائلٹوں کی شہنشاہی ہم نے دیکھی ہے یہ لوگ اپنی دنیا کے بادشاہ بنے ہوئے تھے اپنی تنخواہیں اپنی مراعات کا تعین کرنا ان کا کام تھا یہ جب چاہتے ادارے کا بازو مروڑ دیتے اس کے لئے پالپا سلو پر فارمنس دیتی رہی ۔جب ان کی باتیں نہیں مانی جاتی تھیں وہ ہڑتال کر دیتے تھے۔ستم ظریفی دیکھئے کہ ان کی اس دھونس کے خلاف کوئی نہیں بولتا تھا ۔کسی زمانے میں پیاسی ہوا کرتی تھی اس کے دور میں گرچہ ترقی کا پہیہ نہیں رکا لیکن پھر بھی یکم نومبر ١٩٧٠ کو پولینڈ کے ڈپٹی وزیر خارجہ زائڈ فریک وولنیاک کراچی ایئر پورٹ پر موت واقع ہو ئی تھی اس پر گاڑی چڑھا دی گئی تھی وہ ایک حادثہ ملکی تاریخ کا بھیانک حادثہ قرار دیا جا سکتا ہے ۔حد تو نون لیگ کے دور میں ہوئی مرضی کے لوگوں کی بھرتیاں سیاسی پارٹیاں جب ہر جگہ الیکشن جیتنے کی کوشش کریں گی تو یونین سازی میں لگ جاتی ہیں پیپلز یونٹی بنا لی پیپلز پارٹی نہین اوپر سے جماعت اسلامی کی پیاسی کمزور ہوئی تو مسلم لیگ نے بنا لی ایئر لیگ۔۔الیکشن سے پہلے یہ لوگ کچی بھرتیاں کرتے رہے اور وقت آنے پر انہیں پکا کر کے ووٹ بٹور کر الیکشن جیت لیا جاتا تھا ایئر لیگ اور پیپلز لیگ دونوں نے یہ کام کیا ۔اس سے ادراے کا بیڑہ غرق ہو گیا۔جو ایماندار اور شریف لوگ تھے ان کی زندگیاں ویران ہو گئیں ۔
اس ایئر لائن کے ساتھ ہمارا جذباتی تعلق رہا پر دیس میں ستر کی دہائی کے آخری سالوں میں پی آئی اے کے جہاز کو دیکھ کر پاکستان یاد آ جاتا تھا ۔صبح کے وقت جہاز آتا تو محسوس ہوتا کہ جدہ کی ہوائوں میں ماں کی خوشبو آئی ہے دھرتی ماں کی خوشبو جس سے ہزروں میں دور سمندر پار پاکستانی روٹی کی تلاش میں نکلے تھے ہمارے دور میں پی آئی اے کا ٹکٹ سارھے آٹھ ہزار کا تھا ریال پونے تین روپے کا تھا جو اب چالیس کا ہے۔
اس پی آئی سے بڑی یادیں وابستہ ہیں جدہ میں قومی تقریبات کا انعقاد بھی ہوا کرتا تھا اس زمانے میں قونصلیٹ سے زیادہ لوگوں نے پی آئی کی طرف دیکھا کرنل ذکاء اللہ تھے ملک ایوب خان تھے راجہ وزیر یہ لوگ پاکستانیوں کے لئے فرشتے ثابت ہوئے کہیں غلطی نہ ہو جائے اللہ ان سب کو خوش رکھے لیکن ان میں سرخیل فرزند چکوال ملک ایب خان تھے اعوانوں کے اس فرزند نے سچی بات ہے کمیونٹی کے لئے دروازے کھولے ورنہ پی آئی اے کا آفس بھی ایک پولیس کا تھانہ تھا ۔شہر کے اندر پی ؤئی کا شاندار دفتر ادارے کا عظمت کا نشان ہے یہ اس دور کے لوگ تھے جنہوں نے ادارے کو اٹھایا ۔آج مقابلہ کر لیجئے پی آئی اے کا دفتر قونصل خانے سے ہزار درجہ بہتر جگہ پر ہے اور خوبصورت ہے جبکہ قونسلیٹ تنگ سی گلیوں میں واقع ہے لگتا ہے شائد یہ ایتھوپیاں کا قونصل خانہ ہے ۔جبکہ اس کے افسران اور خود قونصل جنرل کے گھر کسی محل سے کم نہیں ہیں۔
کالم ادھر اھدر نہ ہو جائے عمران خان بھینسیں بیچے تا کہ بچت ہو اس کی جگہ وزارت خارجہ کے لوگ کرایوں کی مد میں موجیں مار رہے ہیں ۔جدہ قونسلیٹ کی کہانیاں اب کون سنے گا ویسے لکھنے سے فرق ہی کیا پرتا ہے آپ جو مرضی لکھیں یہ آپ کا شوق ہے کسی زمانے میں ایڈیٹر کے نام خط پر کاروائی ہو جاتی تھی اسی کی دہائی میں روزنامہ جنگ کے بلادی صفحے پر لکھا تھا تو ایکشن ہوا تھا سوئی گیس والوں کی ہوا نکل گئی تھی اور شکائت دور کی گئی تھی اب آپ ایڈیٹوریل لکھ دیں اخبار کے سامنے والے صفحے کی سرخی میں آ جائیں کوئی پوچھتا نہیں۔میں سمجھتا ہوں پائلٹوں پر ہاتھ ڈالنے کا فیصلہ بر وقت ہے کرونا کی وجہ سے ویسے ہی فلائٹیں بند ہیں ایسے میں انقلابی قدم اٹھانا ایک دلیرانہ قدم ہے۔یہ دلیری غلام سرور خان ہی دکھا سکتے ہیں ۔اس مین تو کوئی شک نہیں کہ حکومت عمران خان چلا رہے ہیں لیکن وزیر ہوا بازی اگر کمزور دل شخص ہوتا تو یہ قدم اٹھانا نا ممکن تھا ۔غلام سرور کان کو دنیا اور لحاظ سے بھی جانتی ہے اور وہ اس کا عوامی ہونا ہے قومی اسمبلی کی دو صوبائی کی چار جتوانے والے سرور خان ہی تھے جو چودھری نثار کو شکست دے سکتے تھے پی پی ١٠ کی سیٹ بھی اگر دیکھیں تو چودھری نثار پی ٹی آئی کی غلطی کی وجہ سے ہارے۔عین وقت پر الیکشن کمیشن کی شرائط کی وجہ سے ایک بی بی کو میدان میں اتارنا پڑا جس سے مختلف امیدوار کھڑے ہو گئے پی ٹی آئی کے اپنے پانچ بندے اس دھندے میں گھس گئے جن کے مجموعی ووت چودھری نثار سے زیادہ تھے۔
خیر مین اس موقع پر ادارے سے نکالے جانے والے پائلٹوں اس کے اچرات پر اپنے ان دوستوں سے بات کرنا چاہوں گا جو سمجھتے ہیں کہ اس طرح ملک کی بد نامی ہوئی ہے آپ حیران ہوں گے کی پی آئی میں ایک جہاز کو چلانے کے لئے ٥٠٠ افراد ملازم ہین جب کہ ٥٠ کی ضرورت ہے یہ سب کچھ کس نے کیا ہے ۔ادارے کو بدنام کرنے والے یہ مشاہد اللہ خان جیسے لوگ ہیں یا جو اب آئے ہیں۔آپ مزید ھیران ہو جائیں کہ ٢٠١٨ کے کریش میں جان سے ہارنے والے پائلٹ کے لائسنس کی تاریخ پبلک ہالیڈے تھی۔اسی طرح کے جعلی لائسنسوں کی بنیاد پر لوگوں کی جانوں سے کھیلا جا رہا تھا سرور خان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ٨٦٠ لائسنس یافتہ پائلٹوں میں ٢٦٠ کے پاس جعلی لائسنس ہیں یہ امتحان میں بے قائدگیا کر کے جہاز اڑا رہے ہیں کراچی حادثے کی بنیادی رپورٹ بھی بتا رہی ہے کہ پائلٹ کی یا کنٹرولر کی غلطی ہے جس میں ٩٧ افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
اس فلسفے کی سمجھ نہیں آ رہی کہ بات کو چھپانا تھا ۔یہ تو شہباز شریف والی بات ہے کہ کرپشن تو ہوئی لیکن سب سے بری بات یہ ہے کہ عمران خان نے دنیا کو کیون بتایا کہ ہم نے کرپشن کی ہے پاکستان کی دو سگی بہنوں نے بوئنگ ٧٧٧ اڑایا یہ ریکارڈ ان کے نام ہے لیکن یہ بھی سن لیجئے کہ ان کے پاس بھی بتایا گیا ہے جعلی لائسنس ہے پچھلی بار گلگت ایئر پورٹ پر طیارہ صیح طور پر لینڈ نہیں کیا جا سکا اس کی پائلٹ بھی ایک خاتون ہی تھی یہ اے تی آر طیارہ جس کی فلائٹ نمبرپی کے ٦٠٥ اسلام آباد سے گلگت گیا تھا یہ کام ایسے ہی نہیں ہو جاتا ایک گینگ ہوتی ہے جو اس قسم کے دھندوں میں شامل ہوتی ہے سول ایوی ایشن کے پانچ افسر بھی اس میں ملوث پائے گئے ہیں۔ دو چیزیں ہیں یا تو عمران خان اس ملک کو ایسے ہی چلنے دے جس طرح پہلے ہوتا رہا ہے۔سکریپ میں طیارے بکتے رہیں غائب ہوتے رہیں۔
افسوس کے اس ادارے کے چیئرمین کی اپنی ایئر لائین تو پاکستان کی بہترین ایئر لائین قرار دی گئی ہے لیکن قومی ایئر لائین کا بھرکس نکال دینے والے شاہد خاقان عباسی مشاہد اللہ خان پی آئی اے کی تباہی کا سہرہ عمران خان اور سرور خان پر ڈال رہے ہیں ۔یہ ٹھگوں کا وہ ٹولہ ہے جو پیر ودھائی اڈے پر سرگرم رہتا ہے شریف مسافر کے بکسے میں چرس ڈالر ملی ہوئی پولیس کے حوالے کرا کے ہوٹل میں بیٹھ کر مک مکا کر لیتے ہیں ۔آپ یقین کیجئے قوم اس معاملے کو سمجھتی ہے۔کرونا کے ان دنوں میں جبکہ فلائٹیں ویسے ہی بند ہیں حکومت نے ان پر ہاتھ ڈال کر درست کام کیا ہے۔ہم غلام سرور خان کو مبارک باد پیش کرتے ہیں ادارے تباہ کرانے ہوں تو پیپلز پارٹی اور نون لیگ کو بلالیجئے اگر کمی رہ گئی ہو تو مولانا فضل الرحمن آپ کی مدد کو تیار ہیں۔پی آئی اے کا کباڑہ کرنے والو اللہ کی پکڑ آپ کے گلے تک پہنچ چکی ہے۔