تحریر: ابنِ ریاض دو روز قبل ہونے والے پی آئی اے کے طیارے کے حادثے میں اڑتالیس افراد لقمہ اجل بن گئے۔ ان میں معروف شخصیت جنید جمشید کی ہے۔ بلاشبہ ہر جان قیمتی ہے اور اس کا کوئی متبادل نہیں۔ وفات پانے والی ہر جان اپنی خاندان اور گھر والوں کے لئے اتنی ہی اہم تھی کہ جتنا کوئی بھی انسان ہو سکتا ہے اور یقیناً ان کا خلا مدتوں پورا نہیں ہو گا ۔ کئی خاندان اپنے کفیلوں سے محروم ہو گئے اور رشتوں سے محرومی ہوئی اس کا تو کوئی مداوا کوئی متبادل ہی نہیں مگر جنید جمشید صاحب کا تذکرہ ظاہر ہے کہ سب پر حاوی تھا۔اس کو بعض لوگ ان کی تبلیغ سے نتھی کر رہے ہیں کہ چونکہ وہ اسلام کی تبلیغ کر رہے تھے تو اس لئے ان کا میڈیا پر اتنا تذکرہ ہے۔ اس میں کلام نہیں کہ ان کی زندگی کے آخری سال اسلام کی تبلیغ میں بسر ہوئے اور اب بھی وہ چترال اسی سلسلے میں گئے تھے۔ اللہ تعالٰی یقیناً اس سےواقف ہے اور وہ اجر دینے میں کنجوسی نہیں کرتا مگر میڈیا پر اتنے افسوس کی وجہ ان کا میڈیا سے وابستہ ہونا ہے ۔ میڈیا کے سبھی قابل ذکر لوگ ان کے شناسائوں میں سے تھے ۔ جب ہم لوگ جو کہ ان کو صرف ان کو میڈیا پر دیکھتے تھے ، اس قدر افسردہ ہیں تو وہ جن کے شب و رو ز ان کے ساتھ گزرے وہ کیونکر نہ صدمے میں ہوں گے۔
جنید جمشید نے ‘دل دل پاکستان سے شہرت پائی اور ان کو زندہ رکھنے کے لئے یہ ملی نغمہ ہی کافی تھا۔ شاید ہی کوئی پاکستانی ہو گا کہ جس نے یہ ملی نغمہ نہ سنا ہو اور اپنی آواز میں نہ گنگنا یا ہو۔ نازیہ زوہیب کے بعد پاکستان میں پاپ میوزک کے فروغ میں ان کا ہی نام آتا ہے۔انھوں نے اپنے گانوں کے کئی البم دیئے اور وہ سبھی قبول عام ہوئے۔ نوجوان طبقے میں وہ بلاشبہ بہت مقبول تھے اور ان کے کنسرٹس میں ہزاوروں افراد شریک ہوتے تھے۔
Junaid Jamshed
اپنے عروج میں ہی ان کی زندگی نے پلٹا کھایا اور وہ موسیقی و گانوں سے تائب ہوئے اوراپنے طرزِ زندگی کو بدلا اور دین کی تبلیغ کے لئے خود کو وقت کر لیا۔ساری ساری رات کنسرٹس کرنے والا اب صبح فجر کے لئے اٹھنے لگا۔ کچھ لوگ ان کی وفات پر انھیں جنتی قرار دے رہے ہیں تو چند اایسے بھی ہیں کہ جو ان کی کچھ غلطیوں اور ماضی کی بنا پر کافر بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ ان کی وفات کو خوش خبری قرار دے رہے ہیں انکو بس اتنا ہی کہا جا سکتا ہے۔
دشمن مرے تو خوشی نہ کرنا سنجاں وی مر جانا اے
ہم پاکستانی از خود ہی کسی کو جنتی تو کسی کو جہنمی قرار دینے کا اختیار رکھتے ہیں ۔ یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ میرے رب کا اختیار ہے اور قیامت میں اعمال گنے نہیں تولے جائیں گے۔اگر اعمال گنے جاتے تو شیطان مردود کیوں ہوتا اور حبشی حضرت حمزہ کو شہید کرنے کے باوجود صحابی کیسے بن پاتا؟ سو جنید جمشید بلکہ ہر شخص کا معاملہ ہمیں اللہ پر چھوڑ دینا چاہیے مگر اس سب کے باوجود جنید صاحب کے سراس بات کا سہرا ہے کہ انھوں نے عین عروج میں انھوں نے موسیقی کو غلط جانا تو اس کو چھوڑ دیا حالانکہ وہ ان کا ذریعہ معاش تھا اور جو رستہ ٹھیک لگا اس کو چن لیا۔ اس وقت یقیناً انھیں علم نہیں ہو گا کہ وہ یہ سب چھوڑ کر بھی بہت اچھی اور قابلِ رشک زندگی گزاریں گےاور ان کےچاہنے والوں کا حلقہ اگر زیادہ نہیں تو اتنا تو رہے گا ہی جتنا کہ دورانِ موسیقی تھا۔بلاشبہ یہ کوئی معمولی عمل نہیں۔ ہم سے تو فیس بک نہیں چھوڑی جاتی کجا کہ اتنی بڑی قربانی۔ کل جب سے یہ واقعہ ہوا ہے دو باتیں ذہن سے چپک گئی ہیں۔ ایک تو سورۃ لقمان کی آخری آیت کہ کوئی زی روح نہیں جانتا کہ اس نے کس زمین(مقام) پر جان دینی ہے۔ جنید صاحب ساری دنیا گھومے۔ پہلے موسیقی کے سلسلے میں ۔ بعد ازاں تبلیغ کے لئے۔ عین ممکن ہے کہ وہ حویلیاں یا ایبٹ آباد بھی گئے ہوں مگر ان کے بعید ترین گمان میں بھی یہ نہیں ہو گا کہ کسی روز وہ ایک چھوٹے سے علاقے کے ایک ہسپتال میں ایسے پڑے ہوں گے کہ ان کو پہچاننا مشکل ہو گا۔
دوسرا خیال جو باوجودکوشش کے جھٹک نہیں پا رہا وہ یہ کہ جنید صاحب ایک انتہائی خوبصورت آدمی تھے۔ خوبصورت نین نقش۔ لمبا قد۔گورا رنگ اور متناسب جسم۔ مرد ایسے حسین بہت ہی کم ہوتے ہیں کہ ان کو دیکھ کر جی نہ بھرے۔بلکہ محمود ہاشمی صاحب کا کہنا ہے کہ جب وہ اپنے ہیرو کے متعلق سوچتے تھے اور لکھتے تھے تو جنید جمشید ان کے ذہن میں ہوتے تھے۔ ایسا آدمی کہ جو سینکڑوں لوگوں میں پیچانا جائے بلکہ میرے ایک بھارتی دوست نے بتایا کہ انھوں نے دوران عمرہ جنید جمشید کو دیکھا تھا۔ گویا کہ ہزاروں لاکھوں میں پہچانا جانے والا۔ یہ بات بھی بلکہ حیران کن نہیں ہونی چاہیے کہ اگر حویلیاں کے اکثر لوگ انھیں جاتے ہوںمگر ا للہ کی مصلحتین اللہ ہی جانے کہ اتنے خوبصورت اور وجیہہ مرد کو ایسا کر دیا کہ وہ باقی سب لاشوں کے ساتھ موجود ہے اور پہچانا نہیں جا رہا۔ چھ سات لاشیں ورثاء کے حوالے ہوئی ہیںاور باقی سب ناقابلِ شناخت ہیں۔اس کا پتہ بھی ڈی این اے سے ہی چلے گا اور اس کام میں قریب ہفتہ بھی لگ سکتا ہے۔ یہ ان کے لئے نہیں بلکہ ہمارے لئے عبرت ہے کہ اس دنیا کی ہر شے وہ دولت ہو صحت ہو حسن ہو شہرت ہو سب کو زوال ہے۔ سب عارضی ہیں۔
سب دھوکہ ہے فریب ہے سب مایا ہے سب ڈھلتی پھرتی چھایا ہے اس عشق میں ہم نے جو کھویا ہے جو پایا پے جو تم نے کہا ہے، فیض نے جو فرمایا ہے سب مایا ہے اس موقع پر میر انیس کا ایک قطعہ بھی بے اختیار یاد آ گیا۔ اس وقت بھائی کام آئے گا نہ فرزند عرصہ نہیں،کھل جائے گا جب آنکھ ہوئی بند وہ کام کرو کہ جس سے خدا ہو رضامند ہشیار کہ ہونا ہے تمھیں خاک کا پیوند اپنی نہ کوئی ملک نہ املاک سمجھنا ہونا ہے تمھیں خاک یہ سب خاک سمجھنا