اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور میں ڈاکٹروں اور وکیلوں کا تنازعہ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ چھ روزبعد بھی پی آئی سی میں سرگرمیاں پوری طرح سے بحال نہیں ہو سکی ہیں اور نہ ہی عدالتوں میں کام شروع ہو سکا ہے۔
وکلا تنظیموں کی اپیل پر پیر کے روز بھی عدالتوں میں کوئی کام نہیں ہو سکا۔ صوبے کے دوردراز کے علاقوں سے آنے والے سائلین دن بھر انتظار کرنے کے بعد مایوس واپس لوٹ گئے۔ پنجاب بار کونسل نے غیر معینہ مدت کے لیے ہڑتال کا اعلان کر رکھا ہے۔
پاکستان بار کونسل کے رکن اور وکیل رہنما احسن بھون نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہمارے مطالبات نہیں مانے جا رہے، ہمارے تریپن وکلا کو گرفتار کرکے تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے، مزید گرفتاریوں کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ اور کوئی شخص بھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کر رہا کہ وکلا کن حالات اور وجوہات کی بنا ہر انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہوئے۔‘‘
انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس واقعے کی تحقیقات کے لیے جوڈیشنل کمیشن بنایا جائے۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اگلے دو دنوں میں پاکستان بھر کی وکلا تنظیموں کا ایک اہم اجلاس لاہور میں بلائے جانے کی تجویز پر غور کیا جا رہا ہے تاکہ حکومت کے خلاف موثر احتجاجی حکمت عملی بنائے جا سکے۔
دوسری طرف پی آئی سی میں صرف ایمرجنسی میں کام ہو رہا ہے۔ نئے مریضوں کو نہیں دیکھا جا رہا۔ انجیو گرافی اور بائی پاس آپریشن بھی ابھی تک شروع نہیں ہو سکے۔
پی آئی سی کے میڈیکل سپرنٹینڈنٹ ڈاکٹر امیر حسین نے میڈیا کو بتایا کہ اگلے چوبیس گھنٹوں میں ہسپتال کے دیگر شعبے بھی فعال ہو جائیں گے لیکن ڈاکٹروں اور طبی عملے کا کہنا ہے کہ او پی ڈی شروع ہو جانے کے باوجود وہ کل ایک گھنٹے کی علامتی ہڑتال کریں گے۔ اگر تین دنوں تک ان کے مطالبات نہ مانے گئے تو پھر اس تحریک کا دائرہ دیگر علاقوں تک پھیلا دیا جائے گا۔
پیر کی شام ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے گرینڈ ہیلتھ الائنس کے رہنماؤں نے پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کے استعفے کا مطالبہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پی آئی سی حملہ کیس میں ملوث وکلا کو ضمانتیں اور جوڈیشنل ریمانڈ مل رہے ہیں جبکہ ابھی تک نہ تو سکیورٹی بل نافذ ہوا ہے اور نہ ہی ہسپتالوں میں سکیورٹی سٹاف کی تعداد میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ ان کے مطابق پسرور ہسپتال اور فاطمہ جناح میڈیکل کالج کی بس پر حملہ کرنے والے وکلا کے خلاف بھی کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائے گئی۔ اس صورت حال میں احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا گیا۔
پیر کی صبح پنجاب کے وزیر قانون راجہ بشارت نے وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کو پی آئی سی حملہ کیس کے حوالے سے اب تک ہونے والی پیش رفت کے حوالے سے بریفنگ دی۔ اس موقع پر وزیراعلی پنجاب کی طرف سے وزیر قانون پنجاب کو تمام قانونی معاملات کی مکمل پیروی کرنے کی ہدایت بھی کی گئی۔ ایک اور اہم پیش رفت میں وکلا کی رہائی کے حوالے سے ایک رٹ پٹیشن کی سماعت کرنے والے ایک دو رکنی بینچ نے وکلا کا کیس سننے سے معذرت کر لی اور نئے بینچ کی تشکیل کے لیے فائل چیف جسٹس کو بھجوا دی گئی ہے۔
مسلسل چھاپوں کے باوجود پنجاب پولیس وزیراعظم عمران خان کے بھانجے حسان نیازی کو گرفتار کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی جبکہ پی آئی سی کے باہر ہوائی فائرنگ کرنے والے وکیل کا پتہ چلا لیا گیا ہے۔ ہوائی فائرنگ میں ملوث علامہ اقبال ٹاؤن کے عابد ناز کو گرفتار کرنے کے لیے بھی چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
پولیس ذرائع کے مطابق دلچسپ بات یہ ہے کہ مطلوب وکلا کے بارے میں پولیس کو اطلاعات ان کے مخالف دھڑے کے وکلا ہی فراہم کر رہے ہیں،” لگتا یوں ہے کہ مطلوب وکلا کی بڑی تعداد لاہور سے باہر فرار ہو چکی ہے۔‘‘
وکلا سیاست پر نظر رکھنے والے راؤ مدثر اعظم خان ایڈوکیٹ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس تنازعے کے شدت اختیار کرنے کی ایک بڑی وجہ وکلا سیاست بھی ہے۔ ان کے بقول پی آئی سی میں پہلے پہل تشدد کا نشانہ بننے والے وکیل کا تعلق حامد خان گروپ سے تھا۔
حامد خان گروپ کے رانا انتظار گیارہ جنوری کو ہونے والے لاہور ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے صدارتی امیدوار بھی ہیں۔ انہوں نے اس واقعے پر احتجاج کر کے اپنی مقبولیت میں کافی اضافہ کر لیا ہے۔ اس پر احسن بھون گروپ سے تعلق رکھنے والے صدارتی امیدوار گلزار احمد خان طارق کے ساتھی ایک ڈاکٹر کی وائرل ویڈیو کی آڑ میں پی آئی سی پر چڑھ دوڑے اور کمیونٹی کو پیغام دیا کہ وہ ان کے معاملات میں دوسرے گروپ کی نسبت زیادہ مخلص ہیں۔
الزامات اور جوابی الزامات کی بارش میں ابھی کوئی نہیں جانتا کہ ہسپتالوں اور کچہریوں کے یہ حالات کب معمول پر آ سکیں گے۔