تحریر: شریں علی عباسی دسمبر اگرچہ ملک بھر میں انتہائی سرد تھا مگر پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کے باعث دسمبر میں سیاسی موسم نہ صرف سخت گرم رہا ۔جس کی وجہ سے فیصل آباد میں دو افراد ہڑتال کی بھینٹ بھی چڑھ گئے اور کچھ زخمی بھی ہوئے۔ عمران خان کی فیصل آباد کے بعد کراچی اور لاہور میں بھی ہڑتال کامیاب رہی۔ ملک کے تین اہم اور بڑے شہر بند رہے، جبکہ ملکی معیشت اربوں روپے کے نقصان سے دوچار ہوئی۔ دکانیں بند ہونے سے ہزاروں مزدوروں کو روزگار سے محروم ہونا پڑا، ٹرانسپورٹ بند بھی رہی، حکومت کے سیکیورٹی کے انتظام پر کروڑوں روپے خرچ ہو گئے۔شام کو صورتحال معمول پر آ گئی اور تینوں شہروں کی رونقیں بحال ہو گئیں۔ سیاسی احتجاج کے لیے جلسے جلوس تو ہر دور میں ہوتے آئے ہیں مگر کئی عشروں سے سیاسی احتجاج کے لیے ہڑتالیں اور شٹر ڈاﺅن جیسے ضرورت بنی ہوئی ہیں اور ملک میں جماعت اسلامی نے دھرنوں کا جو سلسلہ شروع کیا تھا اب تقریبا ہر جماعت ہی دھرنا سیاست اپنا چکی ہے اور مذہبی جماعتیں بھی اب دھرنوں میں پیچھے نہیں ہیں اور اب ہڑتال اور دھرنے احتجاج کے لیے آخری اور موثر ہتھیار بنے ہوئے ہیں۔
جلسے جلوس تو ہر جمہوری دور میں ضروری تصور ہوتے ہیں اور یہ سب کا جمہوری حق بھی قرار دیے جاتے ہیں۔ مگر حالیہ دھرنوں، جلوس اور خصوصا جلسوں سے عام تاثر یہ سامنے آیا ہے کہ عوام زیادہ متاثر نہیں ہوتے بلکہ سیاسی رجحان رکھنے والوں کے لیے تفریح، سیاسی شعور اور وقت گزاری کا ذریعہ ہیں ، جو کہ سیاسی کارکنوں کی اشد ضرورت ہوتے ہیں۔ جلوس اگر پرامن ہوں تو ان پر اعتراض نہیں ہوتا مگر جلوس کی سیاسی اہمیت بڑھانے اور خبریں بنوانے کے لیے جان بوجھ کر جلا ﺅ ، پتھرا ﺅ اور سرکاری املاک کو خصوصا اور نجی املاک کو عموما نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ جلوس میں جو نقصانات ہوتے ہیں کوئی پارٹی اس کی ذمے داری قبول نہیں کرتی اور دوسروں پر یا سرکار پر ڈال دیتی ہے جب کہ حکومت اسے شرپسندی قرار دیتی ہے۔
جلوسوں میں ظاہر ہے احتجاج کرنے والی پارٹی میں شامل لوگ ہی نقصانات کرنے میں پیش پیش ہوتے ہیں مگر شرپسندی کی ذمے داری کبھی قبول نہیں کی جاتی اور نامعلوم افراد کو ذمے دار قرار دے کر خود کو بری الذمہ قرار دے دیتی ہے۔ اب جلسے جلوسوں کے رجحان تبدیل ہو چکے اور صرف جلسے جلوسوں سے ٹی وی چینلوں کی بریکنگ نیوز نہیں بنتی اور نہ وہ اخباروں کی شہ سرخی بنتی ہے اس لیے جان بوجھ کر بھی تشدد کے عنصر کو شامل کرایا جاتا ہے۔ پرتشدد احتجاج کرانے والوں کو بھی پتہ ہے کہ ان کی وجہ سے سرکاری املاک کا جو نقصان ہو گا وہ حکمران اپنی ذاتی حیثیت میں پورا نہیں کرتے بلکہ وہ عوام سے جمع کیے گئے ٹیکسوں سے پورا ہوتا ہے اور حکومت اب سال میں بجٹ کے موقعے پر نہیں بلکہ جب چاہے ٹیکس بڑھا کر عوام سے وصول کر لیتی ہے۔
Political Parties
اب حکمرانوں، ارکان اسمبلی، سیاستدانوں، مذہبی رہنماں، سرمایہ داروں اور بڑے لوگوں کے لیے بھی سیکیورٹی ضروری ہو گئی ہے بلکہ بعض کو بھاری سرکاری سیکیورٹی میں سفر کرنے کا شوق بھی لاحق ہو چکا ہے۔ عوام کو سیکیورٹی فراہم کرنے کے ذمے دار خود سیکیورٹی کے محتاج ہیں اور عوام کو لاوارث چھوڑ دیا گیا ہے اور وہ صرف اللہ کے سہارے ہی زندہ ہیں۔اندرون ملک سب سے زیادہ احتجاج سندھ اور بلوچستان میں نظر آتے ہیں جہاں قوم پرستوں نے خود کو ہڑتالوں کے ذریعے زندہ رکھا ہوا ہے اور وہ اپنے کارکن کی ہلاکت یا گرفتاری پر احتجاج ضرور کرتے ہیں اور چھوٹے شہروں میں ہڑتالیں دوپہر کو ختم ہو جاتی ہیں اور دکانیں کھل جاتی ہیں مگر ہڑتال سے لاعلم دیہی علاقوں کے لوگ صبح جب جلد شہروں میں آ کر ہڑتال دیکھتے ہیں تو واپس لوٹ جاتے ہیں جس سے کاروبار متاثر ضرور ہوتا ہے۔
کراچی کی ہڑتالیں ملک بھر میں مشہور ہیں۔ یہاں جیسی زبردست اور ایک دن سے زیادہ کی پورے دن اور رات کی ہڑتالیں ہوا کرتی تھیں مگر اب چند سالوں سے کراچی میں پہلے جیسی سختی باقی نہیں رہی اور عصر کے بعد کاروبار شروع ہو جاتا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ کبھی کراچی کے لوگ بھی ہڑتالوں کے نہ صرف عادی ہو گئے تھے بلکہ وہ ہڑتال نہ ہونے پر حیران ہوتے تھے۔ سرکاری اور نجی اداروں کے ملازمین کو تو ہڑتالوں کا انتظار رہتا تھا تا کہ وہ چھٹی کر سکیں یہ ملازم ٹرانسپورٹ نہ ہونے کا بہانہ کر کے بھی چھٹی کر لیا کرتے تھے کراچی میں ایسی سخت ہڑتالیں بھی ہوئی ہیں جب پیسہ بے وقعت ہو گیا تھا اور مکمل ہڑتال کے علاقوں میں لوگ رقم لے کر در بدر پھرتے تھے گلیوں تک میں دکانیں بند ملتی تھیں۔بچوں کے لیے دودھ دستیاب نہ ہوتا تھا نہ گھروں میں کھانا پکانے کا سامان ہوتا تھا اور لوگ گھریلو ضرورت کی اشیا مہنگی خریدنے کو تیار ہوتے تھے مگر دکاندار خوف کے مارے دکانیں نہیں کھولتے تھے۔
Sherton Hotel
کراچی ایک ایسا بڑا شہر ہے جہاں روزانہ لاکھوں افراد ہوٹلوں پر کھانا کھاتے ہیں اور ہڑتال کے دنوں میں جب ہوٹل بند ہوتے تھے تو ان لوگوں پر جو گزرتی ہو گی اور پیسہ ہونے کے باوجود بھوکا رہنا پڑتا ہو گا اس کا تصور ہر ذی شعور کر سکتا ہے۔ حال ہی میں تحریک انصاف نے کراچی بند کرایا تو عمران مخالف حلقوں کا خیال تھا کہ شہر بند نہیں کرایا جا سکے گا۔ لاہور، کراچی اور فیصل آباد کے لوگوں سے عمران خان نے یہ بھی کہا کہ ہم زبردستی دکانیں بند کرانا نہیں چاہتے جو لوگ ہمارے حامی نہیں اور حکومت کے ساتھ ہیں بے شک دکانیں کھولے رکھیں، حکومت اور سیاسی حلقوں نے دکانیں کھلوائے رکھنے کی کوشش بھی کی مگر کامیاب نہیں ہوئی۔ فیصل آباد میں تو جانی نقصان ہوا مگر لاہور اور کراچی میں ہنگامے نہیں ہوئے مگر پھر بھی کراچی، لاہور میں ٹائر جلا کر راستے بند کر کے، ٹرانسپورٹ پر پتھرا سے بند کرائے گئے۔ ملک بھر میں کاروبار کی حالت انتہائی خراب ہے۔ دکاندار تہواروں پر بھی دکانیں کھلی رکھتے ہیں۔ شاپ ایکٹ کے تحت ہفتے میں ایک دن کاروبار صرف بڑی مارکیٹوں میں بند ہوتا ہے۔ چھٹی کا تصور ختم ہو چکا مگر سیاسی جماعتوں کو لوگوں کی مجبوری اور پریشانیوں کا قطعی کوئی احساس نہیں۔لوگ بے درد سیاسی جماعتوں کو ووٹ دے کر بھی ہڑتالوں کا عذاب سہنے پر مجبور ہیں؟