کبوتروں کا سپائی پلان

Shahid Jamil Ahmed

Shahid Jamil Ahmed

تحریر : محمد تیمور

شاہد جمیل احمد اردو فکشن کا اہم نام شاہد جمیل احمد صاحب نے اس سے پہلے تین افسانوں مجموعے ،آو فاختہ گھر چلیں، جاگراں سرخ گلاب ایک پنجابی شعری مجموعہ مائے نی، ایک خطوط کا مجموعہ، کیسے ہوتے ہیں وہ خط لکھ چکے ہیں۔
کبوتروں کا سپائی پلان میں طبقاتی کشمکش، غیرت کے نام پر عورتوں کا قتل، فرسودہ توہمات، تعلیم کے مسائل، شدت پسندی، انسان کی تلاش، مدارس کی تعلیمی مسائل، اقتصادی نظام، لسانی مسائل کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے. ستی کی رسم کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

مصنف نے کبوتروں کو امن کی علامت کے طور پر پیش کیا ہے جو کہ کووں کے ڈر سے خوف زدہ ہیں ایک کبوتر اور ایک کبوتری یہ طے کرتے ہیں کہ ہم انسانوں کی دنیا میں رہ کر تحقیق کریں گے کہ وہ کس طرح ایک دوسرے کے دشمن بنے ہوئے ہیں ایک دوسرے کو مختلف طبقات میں تقسیم کر رکھا ہے ایک دوسرےقتل کر رہے ہیں اور یہ فارمولے ہم کووں پر ناقد کریں گے تاکہ وہ ایک دوسرے سے لڑتے رہیں اور ہم ان سے محفوظ رہیں۔ اس تحقیق کے سفر پر پہلے وہ ہندوستان روانہ ہوتے ہیں وہان بھی دیکھتے ہیں کہ انھوں نے اپنے ہی لوگوں کو چار طبقات میں تقسیم کر رکھا ہےہر طرف نفرت ہی نفرت ہے۔

جہالت کی وجہ سے انسان کو طبقات میں تقسیم کر رکھا ہے.صفحہ نمبر 34 اگر جہالت کااندھیرا چھٹ جائے تو.انسان جیسی عقلمند مخلوق کو ذات پات اور اوچ نیچ کی بنیاد پر تقسیم نہیں کیا جاسکتا جیسا کہ یہاں ہو رہا ہے. برہمن گھر پیدا ہونے والا برہمن اور شودر کے گھر پیدا ہونے والا شودر بن کر جیتا اور مرتا ہے مگر یہ بات انسانوں کو کون سمجھائے. پھر وہ سیا چن اور قراکرم کے سفر پر نکلتے ہیں اس کے بعد تبت، گلگت بلتستان اور آخر میں بہار کے موسم میں پاکستان کا سفر کرتے ہیں۔
یہ خطہ جو مذہب کے نام پر بنا تھا مساوات اور اور بھائی چارہ کہیں بھی نطر نہیں آتا ہر طرف نفرت ہی نفرت ہے عام انسان کا جینا حرام ہے جہالت کی وجہ سے انسان مختلف طبقات میں. معاشرے میں بچہ لسانی بنیادوں پر پیدا ہوتا ہے سندھی پختون ،پنجابی کشمیری، بلوچی ،مسلمان، انسان کی کمی ہے پاکستان کے نظام تعلیم کو شدید تنقید کا نشانہ بناتا ہے جہاں غریب کے بچوں کے لیے الگ تعلیم ہے امیر کے لیے الگ مدرسوں میں الگ پرائیویٹ سکولوں میں الگ ہے کووں کو انسان سے بہتر قرار دیتا ہے۔

صفحہ نمبر 61. ایک ملک کے رہنے والے ایک ہی مذہب کے ماننے والے مگر انھوں نے خود کو ذات برادری اور مختلف چھوٹے چھوٹے خانوں میں تقسیم کر رکھا ہے اگر ان کو سزا کا ڈر نہ ہو تو ایک دوسرے کو قتل کرنے سے بھی ہرگز نہ چوکتے اس ماحول میں کافی مواد جمع چکا تھا اب وہ اس کو کووں میں متعارف کروا کر اپنی مرضی کے نتائج حاصل کر سکتے تھے۔

یہ شاہد جمیل احمد صاحب کا فکری ناول ہے شاہد جمیل احمد معاشرے میں ہونے والی ناہمواریوں سے شدید متاثر ہے شاہد جمیل احمد نے گہرے مشاہدے کے بعد اس کو تخلیق کیا ہے یہ ناول اردو ادب میں ایک بہترین اضافہ ہے. یہ ناول الخمد پبلی کیشنز لاہور نے شاہع کیا ہے۔

تحریر : محمد تیمور