کراچی (جیوڈیسک) حکومت نے عازمین حج کے لیے بحری سروس شروع کرنے کی تجویز پر غور کرنا شروع کردیا ہے جس کے باعث حج اخراجات میں کمی اور ایئرلائنوں پر سے بوجھ کم ہوجائے گا جب کہ زیارات کے لیے ایران، عراق اور شام جانے والے زائرین کے لیے بھی آسانیاں پیدا ہوں گی۔
ذرائع کے مطابق حکومت حج بحری سروس شروع کرنے کی تجویز پرسنجیدگی سے غور کر رہی ہے وزارت پورٹ اینڈ شپنگ کے وفاقی وزیر نے بھی گزشتہ سال بحری سروس شروع کرنے کی تجویز پیش کی تھی تاکہ وزارت کو مالی فوائد حاصل ہوسکیں۔ عازمین حج کے لیے بحری سروس 1995 میں بند کردی گئی تھی سفینہ عرب آخری جہاز تھا جو 1995 میں سمندر کے راستے عازمین حج کو لے کر گیا تھا
1995 سے قبل 4 بحری جہاز عازمین حج کو فریضہ حج کی ادائیگی کیلیے سعودی عرب لے کر جایا کرتے تھے ان بحری جہازوں کے نام سفینہ حجاج،سفینہ عرب، سفینہ خالد اور الشمس تھے ایک بحری جہاز میں 3 ہزار سے لیکر ساڑھے 5 ہزارعازمین حج سفر کیا کرتے تھے، 8 دن کا سفر ہوتا تھا۔
ملائشیا، انڈونیشیا اوردنیا کے دیگرممالک سے اب بھی بحری جہازعازمین حج کولیکر سعودی عرب جاتے ہیں۔ 70ء کی دہائی میں عازمین حج کے لیے بس سروس بھی شروع کی گئی تھی لیکن مگریہ ناکام ثابت ہوئی تھی کیونکہ سفرطویل تھا اور بس سروس آرام دہ نہیں تھی اور اس میں موسم کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں تھی جس کی وجہ سے متعدد حجاج انتقال کرگئے تھے۔ بس سروس غیرمحفوظ بھی سمجھی جاتی تھی۔ مختلف طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے عازمین حج کے لیے بحری سروس شروع کی تجویز کا خیرمقدم کیا ہے اور کہا ہے کہ بحری سروس شروع کرنے سے حج اخراجات میں قدرے کمی آئے گی۔
مجلس درس پاکستان کے چیئرمین الحاج محمد سعید صابری نے بحری سروس شروع کرنے کی تجویز کو مثبت قراردیتے ہوئے کہا کہ بحری سروس عازمین حج کیلیے سود مند ثابت ہوگی، ممتاز عالم دین جماعت اہلسنت کے صوبائی رہنما علامہ نسیم صدیقی نے کہا کہ عازمین حج دوران سفرنماز باجماعت ادا کرسکتے ہیں اور حج تربیتی پروگرام بھی تسلسل کے ساتھ کیے جاسکتے ہیں۔