مملکتِ خدا داد پاکستان جس کی بنیاد تصورات ِ ڈاکٹر علامہ اقبال اور فکرِ قائداعظم محمد علی جناح پر مبنی تھی، ایک ایسی مملکت جہاں مسلمان اپنے اسلامی تشخص کے مطابق اپنی زندگی بسر کرسکیں ، جہاں بسنے والے ہر شخص کو مذہبی آزادی کے ساتھ یکساں بنیادی جمہوری حقوق بھی میسر ہوںاور یہاں رائج نظام ریاستِ مدینہ کا نقشہ پیش کرے یعنی پاکستان میں کوئی بھی قانون قرآن و سنت کے منافی نہیں ہوگا۔
1947 میں معرض وجود میں آنے والی یہ ریاست اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام سے دنیا کے افق پر جنم لیتی ہے اور اپنے ابتدائی دور میں مختلف نشیب وفراز سے گزرتی ہوئی آخرکار1973 میں ایک متفقہ آئین بنانے میں کامیاب ہوجاتی ہے جس پر اس وقت کی ہر سیاسی جماعت کے دستخط ہوتے ہیں اور آج تک ریاستِ اسلامی جمہوریہ پاکستان اسی آئین کی پاسداری کا حلف لیتے ہوئے عوام پاکستان کی خدمت کرنے کا دعویٰ کرتی رہتی ہے۔
کسی بھی ملک میں سیاسی جماعتوں کا وجود اس امر کا متقاصی ہوا کرتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے ذریعے امور ِمملکت چلانے والی ہر برسراقتدار جماعت کو جمہوریت کا بنیادی سبق اور جمہوری ذمہ داریوں سے اگاہ کیا جاتا رہے اور ملکی قوانین کو وقت اور عوام کی ضرورتوں کے مطابق بہتر سے بہتر بنایا جاتا رہے تاکہ عوام تک جمہوریت کے ثمرات پہنچتے رہیں۔ شومئی قسمت کہ 40 سال قبل ایک متفقہ آئین پر متفق ہونے والی قوم تصورات ِاقبال اور فکرِقائداعظم سے کوسوں میل دور ہو چکی ہے اور ایک متفقہ آئین پر دستخط کرنے والی پارٹیاں بھی کسی نہ کسی طرح عوام کے استحصال کرنے میں ملوث ہو کر جمہوریت کے نام پر آمریت کے ریکارڈ قائم کر رہی ہیں اور پاکستان بنانے والے عظیم اشخاص کی روح کو تڑپانے کے ساتھ ساتھ جمہور کا جینا بھی دوبھر کر چکی ہیں۔
اگر ہم اپنے آپ کو سیاسی وابستگی سے بالاتر ہوکر سوچیں کہ کیا ہم بحثیت پاکستانی ہم اپنے اداروں کی کارکردگی سے مطمین ہیں ؟ کیا پاکستان کے عوام کو انسانی بنیادی حقوق میسر ہیں ؟ انسانی بنیادی حقوق میں روٹی کپڑا اور مکان سے بھی پہلے چادر اور چار دیواری کا تحفظ اور قانون کی حکمرانی سرفہرست ہوتی ہے اور ان تمام چیزوں کو مہیا کرنے کی ذمہ داری ریاست پر عائد ہوتی ہے اور آئین اس کا حکم دیتا ہے قدرت کے خزانوں سے مالامال اس ملکِ پاکستان کی قسمت دیکھیں کہنے کو اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے اور کسی بھی حکمران کو شرم محسوس نہیں ہوتی کہ آئے دن اجتماعی آبرو ریزیاں ہو جاتی ہیں بلکہ یہاں تک کہ دس سال سے کم عمر بچیوں کی عزت بھی محفوظ نہیں اور آج تک ان نام نہاد جمہوری حکومتوں میں ایسے درندہ صفت مجرموں کو سزا نہیں ہوتی کیونکہ وہ سب با اثر افراد ہوتے ہیں اس کے علاوہ تین تین اور پانچ پانچ بار صوبوں کے حکومتی ایوانوں میںبراجمان حکمران عوام کا قتلِ عام روکنے میں بھی مکمل طور پر ناکام ہوچکے ہیں۔
آج کے مضمون کا مرکزی نقطہ پاکستان میں اذیت ناک کرپٹ نظام کی زد میں پسنے والے عوام کی اس حالت کی ذمہ دار نام نہاد سیاسی مفاد پرست جماعتوں کے کردار پر روشنی ڈالنا ہے تاکہ عوام کے حقوق کی بازیابی کو ممکن بنایا جا سکے۔
حسب سابق میں تمام سیاسی جماعتوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھنے کا قائل ہوں اور سیاسی نقطہ نظر سے اختلاف کو جمہوریت کا حسن تصور کرتا ہوں لیکن اس کے ساتھ ساتھ بطورِ پاکستانی وطن عزیر کا مفاد اور عوام کے حقوق کو اولین مقام پر تصور کرتا ہوں یعنی اگر کسی بھی پارٹی کا کوئی عمل پاکستان اور پاکستان کے عوام کے مفادات کو نقصان پہنچائے گا تو پھر ہر محب وطن پاکستانی کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنی دھرتی ماںکے تحفظ کے لیئے اٹھ کھڑا ہو کیونکہ وطن کی محبت ہمیشہ سیاسی مفادات سے بالاتر ہوا کرتی ہے اور اس کے لیئے ہر قربانی فرض ہوجاتی ہے۔
Inflation
اب وطن عزیز کے مقدس نام اور مقام کی لاج کا تقاضہ ہے کہ ہم اپنے حکمرانوں کا خود محاسبہ بھی کریں اور دیکھیں کہ ان حکمرانوں نے کونسا اندازِ حکمرانی اپنایا ہوا ہے جس کی وجہ سے کسی کو بھی چادر اور چار دیواری کا تحفظ نہیں ، کسی کے جان و مال کی حفاظت نہیں اور ہوشربا مہنگائی سے عوام کا معاشی قتلِ عام ہو رہا ہے مہنگائی عالمی افراط زر اور کساد بازاری کی وجہ سے ہے تو کیا ہمارے حکمرانوں اثاثے کم ہوئے ہیں ؟ ان کی دولت کم ہوئی ہے ، مہنگائی کی وجہ سے ان حکمرانوں کے طرز زندگی پر کوئی فرق پڑا ہے؟
بالکل نہیں ، بالکل نہیں ! ان حکمرانوں کی فضول خرچیاں تو مزید بڑھ چکی ہیں اور مہنگائی کا تمام بوجھ عوام پر ڈال دیا گیا ہے جس کی حالیہ مثال بجلی کے اضافی بلوں کی شکل میں عوام کی جیب پر اربوں روپے کا ڈاکہ مارنے کو شش کی گئی ہے ۔ 2013 کے الیکشن میں ان کی جعلسازیاں بھی بے نقاب ہوچکی ہیں اور ان کا نام نہاد خود ساختہ بھاری مینڈیٹ اب خود ان کا منہ چڑا رہا ہے ۔ ان کی ڈیموکریسی گلو کریسی کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ یہ حکمران جعلی الیکشن کے جعلی مینڈیٹ کی وجہ سے اپنے آپ کو کسی کے سامنے جوابدہ نہیں سمجھتے اور نہ ہی اپنے آپ کو آئین کے تابع سمجھتے ہیں بلکہ یہ کہنا بھی بجا ہوگا
یہ حکمران کہنے کو تو مسلمان ہیں لیکن اللہ کے خوف سے بھی نہیں ڈرتے کہ روز محشر کیاجواب دیں گے ؟ بھلا ہو عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کا جنہوں نے عوام کو ان کے حقوق کا شعور دیا اور پورا ملک اس کرپٹ نظام اور اس کرپٹ نظام کے وارثوںکے خلاف ایک آواز بن کر سڑکوں پر آچکا ہے اور تہیہ کرچکا ہے کہ پاکستان کو باری باری لوٹنے والے اس نظام اور ان حکمرانوں سے نجات حاصل کرکے دم لیں گے پوری پاکستانی قوم پر اب یہ حقیقت اظہرمن الشمس کی طرح واضع ہو چکی ہے کہ پارلیمنٹ کے نام نہاد مشترکہ اجلاسوں میں عوام کاخون چوسنے والے گندے انڈوں کی طرح چھانٹی کرکے ایک ٹوکری میں اکٹھے کر دئیے گئے ہیں۔
عوام کے دلوں پر ان حکمرانوں کی حکومت ختم ہو چکی ہے ، بھلا دنیا میں کوئی بھی ایسا ملک ہے جہاں حکمران اپنے نہتے عوام پر سیدھی گولیاں برسائیں اور ایک سو سے زیادہ مرد اور خواتین شدید زخمی ہوں اورچودہ افراد کی لاشیں گرا کر بھی بے خبر رہیں ؟ ملک کے آرمی چیف کے حکم پر ایف آئی آر درج کرنے کے باوجود اپنے آپ کو حکمرانی کا اہل سمجھیں؟ کونسے اسلامی قانون اور کونسی آئینی شق کے مطابق ہے؟
Pakistan
پاکستان کو لوٹنے والے ان حکمرانوں کا استقبال کرنے والے اور ان کرپٹ حکمرانوں کی اعزاز میں دعوتیں اڑانے والے افراد سے میرا سوال ہے کہ کوئی تو ان ظالموں سے پوچھے یہ جمہوریت ہے ؟ بادشاہت ہے ؟ کیا تم علامہ اقبال اور قائداعظم کی فکر کے وارث ہو؟ بالکل نہیں اور ہر گز نہیں. ان حکمرانوں کا اندازِ حکمرانی خود یہ پیغام دے رہا ہے کہ ان کا جانے کا وقت قریب ہے اور انہیں اب جانا ہی ہوگا کیونکہ زبانِ خلق نقارہ خدا ہوتی ہے اور خلق کی زبان پر ایک ہی بات ہے گو نظام گو . گو نوازگو۔