تحریر: ڈاکٹر تصور حسین مرزا ہر دور میں مخلوق خدا کی راہنمائی و ہدایت کے لئے اللہ کے محبوب بندے آتے رہتے ہیں اور قیامت تک یہ سلسلہ جاری و ساری رہے گا۔ جب اللہ کا کوئی نیک بندہ نبی رسول اس فانی دنیا میں جلوہ نشین ہوتا ہے تو اپنا کام مکمل کر کے اللہ رب العزت کے حضور پیش ہو جاتا ہے، چودہ سو سال قبل جب دنیا ظلم ، زیادتی، انسانوں میں حوانیت، طاقتور کمزور کو مارنا پیٹنا اپنا ھق سمجھتا تھا، جب عورت کو منحوس سمجھا جاتا تھا۔
جب معصوم بچیوں کو زندہ دفن کر دیا جاتا تھا، جب جوا شراب زنا سود سب جائز اور فخر کے ساتھ کئے جاتے تھے، جب اپنے ہی ہاتھوں بت بنا کر خداسمجھ لئے جاتے تھے، حلال و حرام کا کوئی تصور نہ تھا۔جب انسانوں کو غلام بنایا جاتا اورغلام انسانوں کو جانوروں سے بھی برتر سمجھا جاتا تھا،قصہ مختصر جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا محاورہ عملی طور پر لاگو تھا، ظلمت کی گھٹا توپ اندھیرے میں انسانیت سسک رہی تھی ایسے میں اللہ نے اپنا کرم کیا ، اور اللہ کے فضل سے سارے جہانوں کے والی،تاجدار مدینہ سرور سینہ نبی احمد مجتبےٰ ۖکو اس دنیا میں بھیجا اور ہم انسانوں پر بہت بڑا احسان کیا، یہ اللہ پاک کا بہت بڑا کرم ہے جو اپنے پیارے محبوب کو اس فانی دنیا میں بھیجا اور ہم پر زات ِ کبریا کا احسان ِ اعظیم ہے جو ہم اُمت محمدیہ سے ہیں۔
نورِ مجسم، صاحب ِ لولاک،شافی ِمحشر جنابِ حضرت محمد ۖ اللہ کے پیارے اور آخری نبی ہے ،اب قیامت تک کوئی نبی نہیں، اسلام کی تبلیغ علمائے کرام اور مشائخ حضرات کے زمہ ہیں۔ادھر آؤ میری بات سنو !ط میرا نام پیر آفتاب احمد قاسمی ہے میرا تعلق موڑہ شریف سے ہے۔ ایک میں اور چند بزرگ قسم کے لوگ ہوتے ہیں، ایک پہاڑ نما جگہ پر پیر طریقت رہبر شریعت پیر آفتاب احمد قاسمی کھڑے ہوتے ہے اور کچھ خطبہ نما ارشاد فرماتے ہیں۔ آپ جس پیاڑی پر جلوہ فروز ہوتے ہیں اس کے نیچے دو پہاڑ ہیں سب سے نیچے والی پہاڈی پر میں بندہ ناچیز ڈاکٹر تصور حسین مرزا اور کچھ ساتھی نا معلوم ساتھ کھڑے ہو کر آپ کی واعظ سُن رہے ہوتے ہیں، ہمارے اور پیر آفتاب احمد قاسمی کے درمیان بھی ایک پہاڑ نمایاں ہوتا ہے وہاں بھی باریش سنت رسول چہروں پر سجائے کھڑے پیر آفتاب احمد قاسمی کا خطاب سن رہے ہوتے ہیں۔
Mora Shareef
یہ تھا وہ خواب جو آج سے سات آٹھ سال قبل آیا اور اس کے خواب کے آتے ہی دل و دماغ میں پیر خانے کی حُب بھڑک ااٹھی کیونکہ بندہ ناچیز اپنے بچپن سے ہی پیر آفتاب احمد قاسمی کے ہاتھوں پیت جیسی عظیم سعادت حاصل کر چکا تھا۔ بچپن کی بیت اور خواب کے درمیان کم و بیش دس سال کا عرصہ گزر چکا تھا۔خواب کے اگلے روز اپنے دوست کے ہمراہ زیارت پیر صاحب کے لئے پروگرام بنایا کہ بدھ رات کو سرائے عالمگیر سے پیر خانہ جانا ہے۔بدھ کے روز اپنے سکول کی ایک ٹیچر کی بہین نے گوجرانوالہ بورڈ میں پارٹ ون کا داخلہ بجھوانے کئے لئے اپنی ہمشیرہ کے داخلہ فارم مجھے دیتے ہوئے کہا سر آپ میری سسٹر کی داخلہ فیس مبلخ ساڑھے چار سو روپے بینک میں خود جمع کروا دیں اور میری ماہانہ تنخواہ سے لے لینا۔
بینک میں داخلہ فارم کے ساتھ ایک ہزار روپے کا نوٹ دیا اور بینک نے داخلہ فارم جمع کر کے مجھے بقایا ساڑھے پانچ سو روپے واپس کر دئیے جن میں ایک پچاس اور ایک پانچ سو روپے کا نوٹ تھا۔گھر پہنچ کر دیکھا تو بینک نے جو نوٹ واپس کئے تھے یعنی پانچ سو اور پچاس والے وہ ساڑھے پانچ سو غائب تھے۔ کافی تلاش کئیے مگر کوئی اتا پتا نہ ملا، کپڑے لئیے تو سرائے عالمگیر آگیا سرائے عالمگیر کے تمام دوستوں کو بتایا کہ آج رات مرشد خانے موہڑہ شریف کوہ مری جارہا ہوں اور آج ہی کئی ساڑے پانچ سو گُم ہوگئے ہیں۔
اللہ اللہ کرتے میں اور میرا دوست عاصم شہزاد مغل رات کو ١١ بجے راولپنڈی والی بس پکڑ کر تقریباً صبح کے چار بجے سے راولپنڈی بس سٹاپ پر پہنچ گئے تھے۔وہاں راولپنڈی پہنچ کر پتہ چلا کہ مری جانے والی بس ساڈے چھ بجے روانہ ہو گئی ۔ ماہ دسمبر کا سخت سرد ماہ اور رات کا عالم سردی کیا کرتی ہم تو عشق پیر میں غرق ہو کر گھومنے پھرنے لگ گئے کیونکہ راولپنڈی بس ستاپ پر ساری دکانیں کھلی اور میلے جیسا ہلہ گلہ تھا۔گھومتے گماتے مری والی بس میں ہم لوگ سوار ہوگئے اور سنی بینک سٹاپ پر کوئی ساڑھے سات بجے اتر گئے، موہڑہ شریف جانے والی جیپوں کے اڈے پر پہنچ کر پتہ چلا جب تک سواریاں تقریباً چودہ پوری نہ ہو جائیں یہ جیپ اڈے سے نہیں نکلتی۔ پوچھنے پرمعلوم ہوا دربار شریف یعنی موہڑہ شریف سنی بینک جہاں جیپ کا سٹاپ تھا۔ سات کلومیٹر کی مسافت ہے۔جوش محبت و الفت پیر کے تحت ہم پیدل ہی چلنے لگ گئے۔ کوئی ڈیڈھ دو گھنٹہ کے بعد ہماری آنکھوں کے سامنے دربار موہڑہ شریف تھا۔ موہڑہ شریف سٹاپ پر ایک مسجد ہے۔ وہاں وضو کیا اور کپڑے تبدیل کرنے کی غرض سے جیسے ہی قمیض اتاری یکا یک وہ ہی پیسے جو بینک والے نے داخلہ فارم جمع کرنے کے بعد بقایا ایک نوٹ پانچ سو کا اور دوسرا نوٹ پچاس روپے والہ دیا تھا، جس کو گھر پوران ، سرائے عالمگیر، حتیٰ کہ راست میں کھاتے پیتے اور کرایہ دیتے وقت نظر نہ آیا میرے سامنے تھے۔ دوست کو بتایا اور میں خود بھی حیران پرشان ہوا کہ یہ کیسے ممکن ہے؟
Mora Shareef
اسی شش و پنج میں ہم نے راہ گزر سے پوچھا کہ ہم پیر طریقت رہبر شریعت پیر آفتاب قاسمی کو ملنا ہے۔ہماری یہ بات کرنی تھی کہ وہ ٹک ٹک لگائے ہمارے چہروں کو گھورتا رہا۔کچھ لمحے بعد بولہ پیر آفتاب احمد قاسمی نے اس دنیا فانی سے پردہ کر گئے ہیں، یعنی آپ کا وصال ہوئے کافی عرصہ گزر چکا ہے۔یہ سنتے ہی ہمارے پاؤں سے زمین کھسکنے لگی۔ کہ اللہ ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ اس آدمی نے کہا وہ سامنے دربار ہے۔یہ رستہ جاتا ہے ۔ ہم نے شکریہ ادا کیا اور دربار کی طرف چلنے لگئے۔۔ جب دربار کے قریب پہنچے تو ہماری آنکھوں سے دربار اوجھل ہوگی۔ہم پھر مسجد والی جگہ آتے تو دربار نظر آتا۔۔ تین چار بار ایسا ہونے سے ہماری پرشانی میں اضافہ ہوگیا تو پھر ہم نے ایک راہ گزرتے آدمی کو بتایا کہ ہم دربار پیر آفتاب احمد قاسمی جانا چاہتے ہیں تو وہ عورت بولی وہ سامنے دربار ہے چلے جاؤ۔
خیر ہم نے سارا ماجرا سنایا تو وہ عور ت ہم کو دربار کے اند چھوڑ آئی اور ہم نے سلام کیا دعائے مغفرت کی دوپہر کا لنگر کھایا ظہر کی نماز ادا کی اور سجادہ نشین لخت جگر پیر آفتاب احمد قاسمی پیر اورنگ زیب بادشاہ کا شرف دیدار ہوا اور ہم واپس اگئے۔لیکن آج تقریباً بارہ سال سے زیادہ عرصہ بیت گیا مگر میرے دل و دماغ میں یہ واقعہ ایسے ہی ہے جیسے کل کی بات ہو۔حضور غوث زماں بابا جی خواجہ پیر محمد قاسم موہڑوی کے پوتے اور اعلیٰ حضرت امین الامت حضرت پیر محمد زاہد خان صاحب کے نور نظر امام العارفین ھضرت پیر آفتاب احمد قاسمی صبغتہ اللہ رحمتہ اللہ علیہ والئے موہڑہ شریف حضور امین الامت حضرت پیر محمد زاہد خان صاحب رحمتہ اللہ علیہ سجادہ نشین موہڑہ شریف کے بڑڑے صاحبزادے ،خاندان موہڑہشریف کے ان چمکتے ستاروں میں ایک ایسا ستارہ جس کی روحانی دینی عظمتوں نے بر صغیر پاک و ہند ، یورپ اور مشرق وسطےٰ میں دربار عالیہ موہڑہ شریف کی روحانی عظمتوں سے مخلوق خدا کو فیضیاب کیا۔
سوچتا ہوں کہ مام العارفین ھضرت پیر آفتاب احمد قاسمی صبغتہ اللہ رحمتہ اللہ علیہ کی یہ کرامت ہے؟ یہ بندہ ناچیز سے محبت ہے؟آپ حضرت امین الامت رحمتہ اللہ علیہ کے منظور نظر تھے۔وہ شانِ ادب وفا کا پیکر، محبتوں کا ساتھی،حقیقتوں کا راہی،عاشقِ رسول دربارِقاسم سے قاسمی کا لقب پا کر محبت میں ڈوب کر دربارِولایت کا روحانی رہبر بن کر اور مقام ِ سادگی کا منصب حاصل کر کے برادرانِ حقیقی اور خاندانِ نقشبندیہ ،قاسمیہ زاہدیہکی محبت سے سرشار ہوکر موہڑہ شریف کی وادی سے اس عزم سے نکلا اور اطراف عالم میں مخلوقِ خدا کو شریعت و طریقت کا ایسا نہ ختم ہونے والہ رنگ چڑھ گیا، یقیناً اما العارفین جو ایک نام ہے جو ایک پیغام ہے،عاشقانِ صوفیاء کی پہچان ہے اور غلامانِرسول ۖ کی جان ہے۔آپ نے ساری زندگی زاہد و تقویٰ،عجزو انکساری اور سادگی میں گزار کر ہزاروں بھٹکے ہوؤں کو درصمدیت پر سجدہ ریزی کا شوق بخشا۔
آپ کے جانشین حضرت پیر جہان زیب بادشاہ قاسمی مدظلہ مخدوم طریقت حضرت پیر اورنگ زیب بادشاہ قاسمی مدظلہ حضرت پیر شہزادہ ڈاکٹر فضیل عیاض قاسمی مدظلہ حضرت پیر رفعت محمود قاسمی مدظلہ
دنیا کے چپہ چپہ پر ہر ملک ہر شہر ہر گاؤں گلی گلی نگر نگر فیض قاسمی جاری و ساری ہے، اللہ رب العزت سے دعا ہے ۔یااللہ اپنے پیارے نبی ۖ کے وسیلے سے اوالیائے کرام کے واسطے اُمت محمدیہ کو ہر قسم کے شر ، فتنہ، حسد، بغض سے بچا کر سچا اور پکا مسلمان بنا ،اور اپنے ولیوں کے آستانوں میں خیر و برکت عطا فرما اور اپنے نیک بندوں کی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرما ۔اے میرے اللہ امام العارفین حضرت پیر آفتاب احمد قاسمی کے درجات بلند فرماآمین ثم آمین۔