تحریر : عاطف فاروق تیرہویں صدی ہجری کے نصف میں وسطی پنجاب کی بستی”پیر سیال” سے ایک عظیم روحانی تحریک ابھری جس نے چندہی سالوں میں لاکھوں درماندہ راہ مسافروں کیلئے روشن منزلوں کا تعین کردیا ان میں سے ایک بہت بڑی عظیم القادر ہستی مفکر اسلام ،مفسر قرآن ،بناص عصر حضرت جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری کے روپ میں ظاہرہوئی۔ضیاء الامت جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری ایک عظیم صوفی و روحانی بزرگ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مایہ ناز مفسر، سیرت نگار، ماہر تعلیم، صحافی، صاحب طرز ادیب اور دیگر بیشمار خوبیوں کے مالک تھے۔ تفسیر ضیاء القرآن، سیرت طیبہ کے موضوع پر ضیاء النبی ۖ،1971ء سے مسلسل اشاعت پذیر ماہنامہ” ضیائے حرم” لاہور، منکرین حدیث کے جملہ اعتراضات کے مدلل علمی جوابات پر مبنی حدیث شریف کی اہمیت نیز اس کی فنی، آئینی اور تشریعی حیثیت کے موضوع پر شاہکار کتاب ”سنت خیر الانام”، فقہی، تاریخی، سیاسی، معاشی، معاشرتی اور دیگر اہم موضوعات پر متعدد مقالات و شذرات آپ کی علمی، روحانی اور ملی خدمات کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔انکی زندگی علم وآگہی کی ایسی جامع کتاب تھی جسکے ہر ہر ورق پرامت مسلمہ کے امید افزا مستقبل کی تقدیر رقم تھی۔آپ پوری امت مسلمہ کیلئے سائباں رحمت تھے ۔ آپ کا فیضان انسانی زندگی کے سارے شعبوں میں عام ہوااور بیشمار خوش قسمت افراد نے آپکی تعلیمات کی روشنی میں اپنی زندگیاں ازسر نو مرتب کیں۔
آپ کے نام کے بارے میں بھی خانقاہ حضرت امیرالسالکین میں بہت ساری روایات ہیں اس بارے میں حضورضیاء الامت علیہ الرحمتہ کا اپنا قول ہی صحیح ہے کہ پیر کھارا کوہستان نمک کے دامن میں ایک گاؤں ہے جو حضرت پیرمحمدکرم شاہ المعروف ٹوپی والے کے فیضان کی وجہ سے مرجع خلائق ہے چونکہ اس جلیل القدر ہستی کے ساتھ آپکے خانوادہ کے نسبی تعلقات ہیں ۔اس لئے آپ کے جدامجدحضرت پیر امیر شاہ نے انہی کی نسبت سے آپ کانام محمد کرم شاہ تجویز فرمایا ۔آپ کا شجرہ نسب شیخ بہاؤالدین ذکریا ملتانی سے ملتا ہے۔آپ کی کنیت ابو الحسنات آپ کے بڑے صاحبزادے اور موجودہ سجادہ نشین پیر محمد امین الحسنات شاہ صاحب کے نام سے منسوب ہے۔
آپ کی پیدائش21 رمضان المبارک 1336ھ بمطابق یکم جولائی 1918ء سوموار کی شب بعد نماز تراویح بھیرہ شریف ضلع سرگودھا میں ہوئی۔خاندانی روایت کے مطابق آپکی تعلیم کا آغاز قرآن کریم سے ہوا ثقہ روایت یہ ہے کہ حافظ دوست محمد صاحب سے تعلیم کا آغاز ہوا استاد صاحب انتہائی سادہ مزاج اور نیک طبیعت تھے۔ قرآن پاک کی جلد بندی کا کام کرکے رزق حلال کماتے تھے۔ پوری زندگی کسی کیلئے بوجھ نہ بنے نہایت ملنسار اور خلیق تھے۔جن اساتذہ سے قرآن کی تعلیم حاصل کی انکے نام یہ ہیں۔(١) حافظ دوست محمد صاحب(٢) حافظ مغل صا حب(٣) حافظ بیگ صاحب۔ محمدیہ غوثیہ پرائمری اسکول کا آغاز 1925ء میں ہوا۔آپ اس اسکول کے پہلے طالب علم ہیں۔ اس لحاظ سے سات سال کی عمر میں تعلیم کا آ غاز کیا پہلے استاد کا نام ماسٹر برخوردار تھا جو محمدیہ غوثیہ اسکول میں ہیڈ ماسڑ تھے۔
پرائمری اسکول میں اس وقت چار کلاسز ہوتی تھی اس لحاظ سے اس اسکول میں آپکی تعلیم کا سلسلہ1925ء سے 1929ء تک رہا اس کے بعد آپ نے 1936ء میں گورنمنٹ ہائی اسکول بھیرہ سے میٹرک کا امتحان پاس کیا ہائی اسکول میں دورانِ تعلیم جن اساتذہ سے اکتساب فیض کیا انکے اسمائے گرامی یہ ہیں(١) چوہدری ظفر احمد(٢) چوہدری جہاں داد(٣) فرمان شاہ(٤) قاضی محمد صدیق(٥) شیخ خورشید احمد۔ حضور ضیاء الامت رحمتہ اللہ علیہ نے حضرت مولانا محمد قاسم بالا کوٹی سے فارسی کتب کریما، پندنامہ، مصدر فیوض، نام حق پڑھیں اور صرف و نحو اور کافیہ بھی پڑھیں۔ اس کے بعد مولانا عبد الحمید صاحب سے الفیہ، شرح جامی، منطق کے رسا ئل، قطبی، میر قطبی، مبزی، ملا حسن اور سنجانی جیسی کتابیں پڑھیں۔ دیگر کئی علماء سے بھی آپ نے علم دین کی بعض دوسری مشہور و معروف کتابیں پڑھیں۔1941ء میں اوریئنٹل کالج لاہور میں داخلہ لیا اور فاضل عربی میں شیخ محمد عربی، جناب رسول خان صاحب، مولانا نورالحق جیسے اساتذہ سے علم حاصل کیا۔ آپ نے 600 میں سے512 نمبر لیکر پنجاب بھر میں پہلی پوزیشن لیکر فاضل عربی کا امتحان پاس کیا۔علوم عقلیہ و نقلیہ سے فراغت کے بعد دورہ حدیث شیخ الاسلام حضرت خواجہ قمر الدین سیالوی، سیال شرف کے حکم پر حضرت صدرالافاضل مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی سے 1942ء سے 1943ء تک مکمل کیا اور بعض دیگر کتب بھی پڑھیں۔1945ء میں جامعہ پنجاب سے بیـاے کا امتحان اچھی پوزیشن سے پاس کیا۔ستمبر 1951ء میں جامعہ الازہر مصر میں داخلہ لیا اور ساتھ ہی ساتھ جامعہ قاہرہ سے ایمـاے کیا۔ جامعہ الازہر سے ایمـفِل نمایاں پوزیشن سے کیا۔
Pir Muhammad Karam Shah Sahib
یہاں آپ نے تقریباً ساڑھے تین سال کا عرصہ گزارا۔ مصر سے واپس تشریف لا کر آپ نے دارالعلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ کی نشاة ثانیہ فرمائی اس کا نصاب ترتیب دیا اور علوم قدیمہ و جدیدہ کا حسین امتزاج آپ نے امت کو فراہم کیا اس وقت دارالعلوم محمدیہ غوثیہ کی شاخیں پاکستان ، برطانیہ ، یورپ سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں خدمت دین کا فریضہ ادا کر رہے ہیں اس ادارہ کے فارغ التحصیل علماء بھی پوری دنیا میں دین اسلام کے اجالے پھیلا رہے ہیں۔1981ء میں 63 سال کی عمر میں آپ وفاقی شرعی عدالت کے جج مقرر ہوئے اور 16 سال تک اس فرض کی پاسداری کرتے رہے۔ آپ نے متعدد تاریخی فیصلے کیے جو عدالتی تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔آپ وقت کے ہر ہر لمحہ کی قدر کرتے اور کبھی بے مقصد کاموں میں وقت ضائع نہ کرتے تھے۔ حضور ضیاء الامت فرمایا کرتے تھے کہ ایک درویش کے پاس سب سے بڑی متاع اور قیمتی سرمایہ اس کا وقت ہے اگر اس نے اس کو لا یعنی بے مقصد کاموں میں صرف کردیا تو اس سے بڑا خسارے والا کوئی سودا نہیں ہو گا۔
حضور ضیاء الامت نے 1945ء میں جب بی۔اے کا امتحان پاس کیا ان سالوں میں تحریک پا کستان پورے عروج پر تھی اوربر صغیر پاک وہند کے حالات لمحہ لمحہ بدل رہے تھے آپ کے والد گرامی غازی اسلام حضرت پیر محمد شاہ صاحب بھر پور انداز سے تحریکی سر گرمیوں میں شامل ہو چکے تھے آپ ایک طرف حلقہ مریدین میں تبلیغی دوروں کے ذریعے قائد اعظم کا پیغام دیہاتی علاقوں میں رہائش پزیر آبادی تک پہنچا رہے تھے اور دوسری طرف انگیز اور ہندو کی مشترکہ سازش کے ذریعے وجود میں آنے والی یو نینسٹ پارٹی کی حقیقت کو بے نقاب کرنے میں سر گر م عمل تھے۔حضور ضیاء الامت بھی اس گروہ میں شامل ہو گئے اس دور میں گاندھی نے بھیرہ میں ایک جلسہ عام سے خطاب کیا اور نظر یہ وطنیت کو اچھال کر مسلمان آبادی کے دلوں میں تشکیک پیدا کرنے کی مزموم کو شش کی۔مسلم لیگ کی ہائی کمان نے اس جلسہ کے جواب میں ایک عظیم جلسے کا اہتمام کیا گاندھی کی تقر یر کے مندرجات کا جواب دینے کے لیے مسلم لیگ کی قیادت حضور ضیاء الامت کا انتخاب کیا آپ نے انتہائی مدلل اور موثر انداز میں رد کیا جس کے سبب مسلمانوں میں ایک دفعہ پھر مطالبہ قیام پاکستان کے بارے میں جوش و ولولہ پیدا ہو گیا اس زمانہ میں تحریک پاکستان کی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ دارالعلوم محمدیہ غوثیہ میں آپ تدریسی خدمات بھی انجام دیتے رہے۔سیاست میں آپ کی دلچسپی ان مقاصد کے لیے نہ تھی جن کیلیے آج کے نام نہاد سیاست دانوں کی دلچسپی ہوتی ہے بلکہ سیاسی امور میں آپکی رہبری کا مقصد صرف ملک وملت کی فلاح وبہبود تھا۔ یہ بھی واضع رہے سیاست دین کا ایک حصہ ہے۔
حضور ضیاء الامت نے میدان سیاست میں صرف اپنی تحریروں سے ہی قوم کی راہنمائی نہ کی بلکہ بوقت ضرورت انھوں نے اپنی مسند کو چھوڑا اور عملی طور پر میدان میں آئے ،جلسوں میں تقاریر کیں ،سیاست دانوں سے ملاقاتوں میں وقت صرف کیا میٹنگوں میں شریک ہوئے،علماء اور علوم کے شانہ بشانہ چلے اور اس انداز پر اپنی ذمہ داری کو پورا کیا جو ایک دین کے عالم کی ہونی چاہیے۔انہیں بارہا جماعت کی قیادت اور اعلیٰ عہدوں کی گئی لیکن انہوں نے ہمیشہ نہایت ہی انکسار کے ساتھ یہ کہ کر معذرت کر لی کہ میری مصروفیات اس ذمہ داری کو قبول کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔نہ انہوں نے کوئی جماعت بنائی ،نہ کسی عہدے کے امید وار ہوئے اور نہ جماعتی عہدہ کے لیے الیکشن میں حصہّ لیا۔عہدے کی ذمہ داری سے آزاد رہ کر انہوں عہد ے داروں کی بہ نسبت زیادہ کا م کیا اور عوام کی نظروں میں باوقار رہے۔
آپ کی تصنیفات میں ”ضیاء القرآن” سرفہرست ہے ۔3500 صفحات اور 5 جلدوں پر مشتمل یہ تفسیر آپ نے 19 سال کے طویل عرصہ میں مکمل کی۔اس کے بعد ”جمال القرآن” بھی یکساں ہی مقبول ہوئی اور قرآن کریم کا خوبصورت محاوراتی اردو ترجمہ جسے انگریزی میں بھی ترجمہ کیا گیا۔ازاں بعد ”ضیاء النبی”7 جلدوں پر مشتمل عشق و محبتِ رسول سے بھرپور سیرت کی یہ کتاب عوام و خواص میں انتہائی مقبول ہے۔ اس کا انگریزی ترجمہ بھی تکمیل پزیر ہے۔” سنت خیر الانام”بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے نصاب میں شامل یہ کتاب سنت اور حدیث کی اہمیت اور حجیت کی موضوع پر لکھی گئی ہے۔ یہ آپ کی پہلی کاوش ہے جو آپ نے جامعہ الازہر میں دورانِ تعلیم تالیف کی۔آپ نے عالم اسلام کی دینی رہنمائی کیلئے ماہنامہ” ضیائے حرم”1971ء میں کا اجراء کیا جو تاحال مسلسل شائع ہو رہا ہے۔اسی طرح ضیاء القرآن پبلیکیشنزجون 1974ء میں لاہور میں ضیاء القرآن پبلیکیشنز کا قیام عمل میں آیا جو اسلامی مواد کو دنیا بھر میں پھیلانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کر رہا ہے۔
حکومت پاکستان نے 1980ء میں آپ کی علمی و اسلامی خدمات کے اعتراف میں”ستارہ امتیاز” اعزاز سے نوازا۔مصر کے صدر حسنی مبارک نے 6 مارچ 1993ء میں دنیائے اسلام کی خدمات کے صلے ”نت الامتیاز”میں دیا۔حکومت پاکستان اور حکومت آزاد کشمیر نے 1994ء میں سیرت کے حوالے سے آپ کی گراں قدر خدمات کے اعتراف یہ میں”سند امتیاز” اعزاز دیا۔ڈاکٹر احمد عمر ہاشم نے جامعہ الازہر کا یہ سب سے بڑا اعزاز”الدائرہ الفخری” آپ کو دیا۔
9 ذوالحج 1418ھ بمطابق7 اپریل 1998ء بروز منگل رات طویل علالت کے بعد آپ کا وصال ہوا۔سجا دہ نشین آستانہ عالیہ سیال شریف امیر شر یعت حضرت خوا جہ محمد حمید الدین سیا لوی دا مت برکاتہم القدسیہ نے نماز جنازہ کی امامت کرائی، فخرالملت والدین حضرت خواجہ غلام فخر الدین سیالوی کے علاوہ سینکڑوں مشائخ اور علما ء نے نماز جنازہ میں شرکت فر مائی۔ آپ کے وصال پر پورے عالمِ اسلام سے امت مسلمہ کے عوام و خواص نے جس محبت و عقیدت کا اظہار کیا وہ ایک ضرب المثل بن گیا۔ آپ کی قبر المبارک آپ کی وصیت کے مطابق دربار عالیہ حضرت امیر السالکین میں آپ کے دادا جان حضرت پیر امیر شاہ کے بائیں جانب کھودی گئی۔اللہ رب العزت ہمیں آپ کی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے،آمین۔