پیرمحل کی خبریں 16/7/2016

Pir Mahal

Pir Mahal

پیرمحل (نامہ نگار) درست تشخیص درست علاج، شوکت خانم لیبارٹری کولیکشن سنٹر کا پیرمحل میں آغاز جلد کیا جائے گا ان خیالات کا اظہار انچارج نعیم فراز نے صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو میں کیا انہوںنے کہا تحصیل پیرمحل میں درست تشخیص کے لیے اعلیٰ معیار کی کلینکل لیبارٹری کی ضرورت تھی تاکہ درست تشخیص پر درست علاج ممکن ہوسکے اس ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے شوکت خانم کلینکل لیبارٹری کاصاحب لولاک مسجدر وڈ پیرمحل میں آغاز کی جارہاہے تاکہ مکینوں کو ارزاں نرخوں پر علاج معالجہ کی تشخیص کے لیے اعلیٰ معیار کی لیبارٹری کی سہولت مقامی طورپر حاصل ہو اور آن لائن ریکارڈ کے تحت ایس ایم ایس کے ذریعے ٹسٹ کروانے والے کو آگاہی مل سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیرمحل (نامہ نگار) چوہدری جبار جٹ صدر پیرمحل بار کے سسر انوار جٹ انتقال کرگئے جن کی نما زجنازہ بستی قطب پور سندھلیانوالی میں ادا کی گئی جس میں وکلاء صحافیوں سیاسی سماجی شخصیات سمیت سینکڑوں افراد نے شرکت کی مرحوم کے انتقال پر پریس کلب پیرمحل عہدیداران ممبران رانا محمداشرف رانا شاہدالرحمن ،میاں اختر علی ،میاں اختر حسین ، راحیل رسول ، محمدافضل ، محمد اکرم شیرازی نے گہرے رنج وغم کا اظہار کرتے ہوئے مرحوم کے درجات کی بلندی کے لیے فاتحہ خوانی کی اور لواحقین کے لیے صبرجمیل کی دعابھی کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیرمحل (نامہ نگار) تاریخی، جغرافیائی اور ثقافتی لحاظ سے مسلم اکثریتی خطہ کشمیر پاکستان کا حصہ ہے۔جنوبی ایشیاء میں قیام امن کے لیے مسئلہ کشمیر کا منصفانہ حل وقت کی اہم ضرورت ہے۔بھارت خود مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ لیکر گیا لیکن اس کی قراردادوں پر آج تک عمل نہیں کیا ۔نہتے کشمیریوں پر طاقت کا استعمال ماورائے عدالت قتل کے مترادف ہے۔ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر جاویداقبال رانا چیف ایگزیکٹو کمیشن برائے قانون انصاف بین المذاہب ہم آہنگی وانسانی حقوق نے کشمیر میں بھارتی مظالم کی مذمت کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ چھ دہائیوں سے کشمیر کے عوام اپنی آزادی کے لیے جو قربانیاں دی ہیں اس کی مثال نہیں ملتی۔بھارتی سیکیورٹی فورسز کی طرف سے نہتے کشمیریوں پر کیا جانے والا ظلم انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔بھارتی فورسز کی طرف سے نہتے کشمیریوں پر گولیاں چلانا اور گھروں میں گھس کر بزرگوں اور بچوں پر تشدد اور خواتین کی عصمت دری جیسے گھنائونے افعال معمول بن چکے ہیں۔ظلم اور تشدد کے اس ماحول کی وجہ سے کشمیریوں میں خوف و ہراس پایا جاتا ہے اور اپنے گھروں میں مقید ہوچکے ہیں جس کی وجہ سے معمولاتَ زندگی مفقود ہوچکے ہیں اور گھروں میں فاقوں کی نوبت ہے۔ بے پناہ ظلم کے با وجود بھی مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی تحریک شدت اختیار کرتی جارہی ہے جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ کشمیری بھارت کے غاصبانہ قبضے کو قبول نہیں کرتے۔ 67 برس کی طویل مدت سے مسئلہ کشمیر سلامتی کونسل کی متعدد قراردادوں کے باوجود حل نہ ہونے کے باعث اور ہندوستانی افواج کے انسانیت سوز سلوک کی وجہ سے یہ مسئلہ نہ صرف پیچیدہ ہو گیا ہے بلکہ انسانی حقوق کی پامالی کی تاریخ میں شرمناک اور بھیانک اضافہ ہو گیا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ کشمیر کے متعلق حکومت اپنا موقف ٹھوس انداز میں بیان کرے اورعالمی طاقتیں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں منظور شدہ قراردادوں کی روشنی میں مسئلہ کشمیر کو حل کرنے میں اپنا موثر کردار ادا کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیرمحل (نامہ نگار) فیکٹریاں، کارخانے محکمہ لیبر کے افسران کی ملی بھگت سے کھلے عام سرکاری قوانین کی دھجیاں اڑانے میں مصروف، پیرمحل سمیت ضلع بھر میں سینکڑوں دکانداروں نے کئی سال سے پرانے ناپ تول اورپیمائش کے پرانے ناٹ اور پیمانے رکھے ہیں جس سے وزن میں ہیراپھیری معمول بن گئی ایک سروے کے مطابق ضلع بھر میں مارکٹیوں، انڈسٹریل زون اورسینکڑوں کی تعداد میں فیکٹری اورکارخانوں کے مالکان محکمہ لیبر کے بعض افسران اوراہلکاروں کے ساتھ ملی بھگت کرکے لیبرقوانین کی مسلسل خلاف ورزیاں کررہے ہیں اورعرصہ دراز سے ان غیرقانونی کاموں کوچیک نہیں کیاگیا اورپکڑے جانیوالے بیشتر افراد مک مکا کرکے چھوڑدیئے جاتے ہیں سروے میں دیکھنے میں آیاہے کہ بہت سے اداروں، کارخانوں اوردکانوں میں چائلڈ لیبر اورخواتین کی بڑی تعداد بھی محنت مزدوری کرتی ہیں لیکن محکمہ لیبر کے پاس ان خواتین اوربچوں کااندراج نہیں کروایاجاتا اکثر ادوار میں فیکٹریوں اورکارخانوں میں کام کرنیوالے محنت کشوں کی تعداد بھی انتہائی کم درج کرواتی جاتی ہیں سروے کے مطابق ان مذکورہ غیرقانونی چلنے والے اداروں، کارخانوں اورفیکٹریوں سے جہاں کام کرنے والے مزدور سوشل سکیورٹی، میڈیکل الائونسز، اولڈ ایچ بینفٹی، بچوں کی شادی گرانٹس اوردیگرسرکاری مراعات سے محروم ہورہے ہیں وہاں سرکاری خزانے کوبھی کروڑوں روپے کے ریونیو کانقصان پہنچایاجارہاہے۔ اکثربڑے اداروں میں ٹیکسز بچانے کی غرض سے لیبرسے ڈیلی ویجز کے ضمن میں کام کرالیاجاتاہے لیبرقوانین کے مطابق شاپس اینڈاسٹیبلشمنٹ ایکٹ1969 ء کے مطابق لیبرانسپکٹر اپنے علاقے میں واقع دکانوں، کارخانوں اورفیکٹریوں کے مالکان کولیبر لا کے تحت ان کی رجسٹریشن کرانے کاپابندہوتاہے۔ لیبرایکٹ1975 اینڈ میٹرلا انٹرنیشنل سسٹم رولز1976 کے مطابق لیبرآفیسر اپنے علاقوں میں کنڈوں، پیمائش کے پیمانے اورپٹرول پمپس اورسی این جی اسٹیشن پرنصب سسٹم کوباقاعدہ اسٹینڈرڈ معیار کے مطابق چیک کرکے محکمانہ پالیسی کے مطابق انہیں سرکاری اسٹیمپ لگاکر اس کوپاس کرکے اس کی سرکاری فیس خزانہ سرکاری جمع کروانے کاپابندہوتاہے اس طرح فیکٹری ایکٹ1934 ء کے مطابق لیبرآفیسر فیکٹریوں وکارخانوں میں کام کرتے رہے تمام ملازمین کے کوائف حاصل کرکے مالکان نے ان کی متعلقہ سرکاری اداروں میں رجسٹریشن کروانی کی سرکاری فیس سرکاری خزانے میں جمع کروانا ترجیحات میں شامل ہوتاہے لیکن ضلع بھر میں اس کے برعکس سرکاری اہلکارسرپرستی میں سرکاری قوانین کی دھجیاں اڑارہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیرمحل (نامہ نگار) میڈیکل ریپ کے ڈاکٹروں میں بڑھتے ہوئے اثرورسوخ نے ملک بھرمیں غریبوں کیلئے علاج مہنگاکردیاپیرمحل میں ڈاکٹرز ان کی پرکشش آفروں کے باعث کروڑوں پتی بن گئے۔ذرائع کے مطابق ملک میں قومی اوربین الاقوامی دواساز کمپنیاں ڈاکٹروں میں غیرضروری اثرورسوخ پیداکرچکی ہیں اوراپنی پرکشش ترغیب کے ذریعے کمپنیاں ڈاکٹرز کواپنی ادویات مریض کوتجویز کرنے کیلئے مائل کرتی ہیں دواساز کمپنیوں اورڈاکٹر ز میں ہونیوالی ڈیل کے باعث ڈاکٹر ز مریضوں کوغیر ضروری ادویات بھی تجویز کررہے ہیں ذرائع کے مطابق دواساز ادروں کی طرف سے ڈاکٹروں کوپیش کیے جانیوالے تحائف، تحقیق کیلئے فنڈز مہیا کرنااورمیڈیکل کانفرنسوں وسیمینارز کے انعقاد کی مالی معاونت جیسے معاملات پرکئی سوال اٹھائے جاسکتے ہیں ذرائع کے مطابق دواساز اداروں کے نمائندے ہرہفتے ڈاکٹروں کے پاس جاتے ہیں اورانہیں اپنی دوائیوں کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہیں اوراپنی کمپنی کی مہنگی ادویات مریضوں کولکھنے پرپرکشش آفرز کرتے ہیں ان پرکشش آفرز میں بے شمارقیمتی تحائف سمیت پرائیویٹ ہسپتال اورکلینک کیلئے ایکسرے مشین الٹراسائونڈ جیسی دیگر آلات جراحی شامل ہوتے ہیں بعض اوقات ان قیمتی تحائف میں لاکھوں روپے مالیت کی گاڑی بھی شامل ہوتی ہیں ڈیل ہونے کے بعدڈاکٹرز حضرات ان میڈیسن کمپنیوں کے نمائندوں کی بتائی ہوئی ادویات مریضوں کوتجویز کرناشر وع کردیتے ہیں جبکہ اکثر مریضوں کوان تجویز کردہ ادویات کی ضرورت بھی نہیں ہوتی ڈاکٹر مریضوں کوجوادویات تجویز کرکے لکھ دیتے ہیں ان پر ان کاکسی طرح کااحتساب نہیں کیاجاسکتا۔ بعض مریض غربت کے باعث مہنگی ادویات خریدنے سے قاصر رہتے ہیں جس پر میڈیکل سٹورز والے انہیں اسی سالٹ کی دیگرکمپنیوں کی ادویات تھمادیتے ہیں اس سارے کھیل میں نقصان بے چارے مریضوں کاہوتاہے ایک طرف توان کی صحت دائو پرلگی ہوتی ہے تودوسری طرف وہ مہنگی ادویات نہ خرید سکنے پر اپنی زندگیاں گنوا بیٹھتے ہیں۔ ڈاکٹر توکمپنیوں سے مراعات لے کر سرخرو ہوجاتے ہیں لیکن مریض زندگی کی بازیاں ہارنے پرمجبورہوتے ہیںسماجی حلقوںنے محکمہ صحت کے اعلیٰ حکام اور پی ایم ڈی سی سے کاروائی کا مطالبہ کیا ہے