تحریر : پیر عثمان افضل قادری خانقاہ نیک آباد شریف کے مورث اعلیٰ، قطب الاولیاء حضرت پیر محمد اسلم قادری رحمة اللہ علیہ کے والد محترم، مفتی اعظم جناب مفتی محمد اشرف القادری اور پیشوائے اہلسنت حضرت پیر محمد افضل قادری کے دادا جان شیخ المشائخ فقیہ اعظم حضرت پیر محمد نیک عالم قادری رحمة اللہ علیہ بن عالم ربانی ولی کامل میاں فیض احمد قادری فاضلی رحمة اللہ علیہ کا سلسلہ نسب 38واسطوں سے مولیٰ کائنات امیر المؤمنین حضرت سیدنا علی المرتضیٰ شیرِ خدا کرم اللہ وجہہ الکریم سے ملتا ہے۔
آپ نے اپنے زمانہ کے اکابر اساتذہ سے 12 سالہ قدیم درس نظامی کی تکمیل کی۔ طالب علمی کے دوران آپ کے والد گرامی رحمة اللہ علیہ وصال فرما گئے تو آپ نے اپنی آبائی اراضی فروخت کر کے گھر کا نظام چلایا اور تحصیل علم کا سلسلہ جاری رکھا۔ اپنے استاذ گرامی عالم ربانی حضرت مولانا غلام حیدر انصاری کے ہمراہ حج وحاضری رسالت کیلئے سفر کیا۔ حجاز مقدس میں برہنہ پا اور پیدل رہے۔
سلوک کی منازل طے کرنے کیلئے آپ نے سلطانِ اقلیم ِمعرفت، قطبُ الارشاد، حضرت سید حافظ ظہور الحسین شاہ قادری گیلانی سجادہ نشین ہفتم دربار عالیہ بٹالہ شریف سے بیعت طریقت کی اور آپکے خلف الرشید غوث زمانہ حضرت میاں نذر محیِ الدین قادری گیلانی رحمة اللہ علیہ سے منازل سلوک کی تکمیل کی۔
1905میں مراڑیاں شریف کی مسجد میں دینی درسگاہ کی بنیاد رکھی جو کہ اس وقت آپ کے مزار اقدس نیک آباد میں ”جامعہ قادریہ عالمیہ” کے نام سے مشہورِ عالم ہے۔ درسگاہ میں مقامی ومسافر طلبہ کی تعداد ایک صد سے دو صد تک رہتی تھی۔ آپ اکیلے ہی ان طلبہ کو ابتدائی قاعدہ سے لے کر درس نظامی کی آخری کتب تک تعلیم دیتے تھے۔آپ سے جن سینکڑوں حضرات نے علم دین حاصل کیا ان میں شیخ الحدیث سید محمد جلال الدین شاہ رحمة اللہ علیہ جامعہ محمدیہ بھکھی شریف، استاذ العلماء حضرت مولانا پیر محمد اسلم قادری رحمة اللہ علیہ، استاذ الاساتذہ حضرت علامہ محمد نواز نقشبندی کیلانی رحمة اللہ علیہ، حضرت مولانا محمد فضل کریم قادری، صدر العلماء حضرت مولانا فیض احمد مہلوی، استاذ العلماء ِ کشمیرحضرت مولانا علامہ علی محمد کاشمیری رحمة اللہ علیہ، بانڈی عباس پور کشمیر، حضرت مولانا سید محمد قاسم شاہ رحمة اللہ علیہ سابق خطیب اعظم امام بری اسلام آباداور دیگر بے شمار ممتاز دینی، علمی وروحانی شخصیات شامل ہیں۔
آپ نے جامع مسجد باری والی گجرات میں چالیس سال تک فی سبیل اللہ خطابت کے فرائض سرانجام دیئے، کسی سے ایک پائی تک وصول نہیں کی۔
حضرت پیر سید ولایت شاہ صاحب رحمة اللہ علیہ کی گجرات آمد پر حضرت شاہ صاحب کی مسجد میں آپ کی دعوت پر ہر نماز جمعہ کے بعد وعظ فرمایا کرتے تھے اور دور دراز سے آئے ہوئے لوگوں کو مسائل کے جواب دیتے تھے۔
حضرت صاحب قبلہ کے وصال کی خبر سن کر حضرت پیر ولایت شاہ صاحب کافی دیر تک زاروقطار روتے رہے اور فرمایا: ”افسوس! ہم قطب زمانہ سے محروم ہوگئے۔”
مسجدکے درو دیوار کی صفائی اپنی قمیض سے کرتے اور فرماتے : غبارِ مسجد آتش جہنم سے نجات دیتا ہے۔ آپ نے تبلیغ وعظ پر کبھی کسی سے ایک پیسہ کا مطالبہ نہ فرمایا، آپ ہمیشہ یتیم بیٹوں اور بیٹیوں کواپنی پرورش میں رکھتے۔ سادات عظام کا بے حد احترام فرماتے۔ اعلیٰ درجہ کے خطاط تھے، قرآن پاک اپنے ہاتھ سے لکھتے آج بھی آپ کے ہاتھوں کے لکھے ہوئے قرآن مجید نیک آباد (مراڑیاں شریف) میں موجود ہیں۔
آپ اعلیٰ درجہ کے صادق و امین اور پاکباز تھے آپ ہمیشہ مسجد میں خود نماز کی امامت فرماتے۔ آپ کی سیرت طیبہ واخلاق عالیہ نہایت بلند تھے۔ آپکے زمانہ میں آپ جیسا عابد وزاہد نہ دیکھا گیا۔
آپ کے تلمیذ رشید سید قاسم شاہ خطیب بری امام اسلام آباد اپنے قلمی تأثرات میں لکھتے ہیں جب بھی رات کوآنکھ کھلتی تو استاذ صاحب قبلہ عبادت میں مشغول ہوتے، لکھتے ہیں میرے بھتیجے شاہ حسین نے استاذ صاحب سے زیارت نبوی کی درخواست کی آپ نے جواب نہ دیا۔ رات کو خواب میں قبلہ استاذ صاحب نے فرمایا: شاہ حسین! وہ حضورۖ جے، رج کے زیارت کر لو۔
آپ کے تلمیذ ارشد مولانا محمد نواز صدرالمدرسین بھکی شریف نے بتایا: استاذ صاحب قبلہ حافظ قرآن نہ تھے لیکن کثرت تلاوت کی وجہ سے حافظ بن گئے تھے اور آخری علالت کے ایام میں بھی روزانہ 18 پارے سے کم تلاوت نہ فرماتے تھے۔
شیخ الحدیث پیر سید حاجی احمد شاہ گجراتی رحمة اللہ علیہ نے آپکی نماز جنازہ کی امامت کی اور فرمایا: حضرت مولانا محمد نیک عالم قادری رحمة اللہ علیہ صحیح معنوں میں نائب رسول تھے۔
حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خاں نعیمی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا: مزار اقدس پر ایسی روحانی کشش ہے دل چاہتا ہے کہ گجرات شہر چھوڑ کر یہیں رہائش اختیار کر لوں۔
پیر سید سردار حسین شاہ آف وینس نے عرس مبارک کے موقع پر بتایا کہ میں قحط سالی کے موقع پر اس نماز استسقاء میں موجود تھاکہ آسمان پر بادل کا نشان نہ تھا۔ استاذ محترم حضرت مولانا محمد نیک عالم قادری رحمة اللہ علیہ نے نمازِ استسقاء پڑھائی ابھی رکوع میں نہ گئے تھے کہ کالی گھٹا ظاہر ہوئی اور نہایت موسلادھار بارش ہوئی۔
خلیفہ شیر ربانی حضرت سید محمد یعقوب شاہ رحمة اللہ علیہ آف ماجرہ شریف نے زیارت نبوی کیلئے دعا کی درخواست کی تو اسی رات زیارت نبوی سے مشرف ہوئے پھر مسلسل زیارت نبوی سے مشرف ہوئے اور حضرت مولانا محمد نیک عالم قادری رحمة اللہ علیہ کو بارگاہ نبوی میں مقرب دیکھتے۔ شاہ صاحب فرماتے تھے : اگر اس زمانہ میں شرع شریف کسی کو صحابی کہنے کی اجازت دیتی تو میں برملا کہتا کہ حضرت مولانا محمد نیک عالم قادری ” صحابی رسول ” ہیں۔
35سال سے مسجد نبوی میں مقیم سید عربی شاہ پشاوری لکھتے ہیں کہ میں سلوک کی منازل طے کرنے کیلئے پریشان تھا خواب میں مجھے حضرت مولانا محمد نیک عالم قادری رحمة اللہ علیہ کی زیارت ہوئی، دانتوں سے چھن چھن روشنی نکل رہی تھی، مجھے نیک آباد کی جگہ دکھائی، فرمایا : میرے پاس آجائو میں تمہاری تربیت کرونگا۔
فرماتے ہیں: میں نے نیک آباد کے مقام کی تلاش کیلئے مختلف مزارات کی حاضری دی بالآخر نیک آباد پہنچا، پانچ ماہ کا چلہ کیا حضرت مولانا محمد نیک عالم قادری رحمة اللہ علیہ اور اُن کے سجادہ نشین حضرت مولانا محمد اسلم صاحب قادری کی توجہات سے بے شمار فیوض وبرکات حاصل کیے اور بارہا زیارت نبویۖ اور زیارت غوثیہ سے مشرف ہوا۔
آپ کے شاگرد وخادم مولانا محمد کریم اللہ قادری آف بھمبر ضلع جہلم نے آپ سے بیداری میں زیارت نبوی کیلئے بے پناہ اصرار کیا، حضرت نے فرمایا: مولوی صاحب سرکار دو عالم ۖ کے جلوئوں کو دیکھنا بہت مشکل ہے۔ مفتی محمد عبداللہ قادری رحمة اللہ علیہ آف بریڈفور ڈبرطانیہ فرماتے ہیں : مراڑیاں شریف مسجد کی مغربی دیوار پھٹ گئی اور حالتِ بیداری میں سرکار ِ مدینہ ۖ مسجد میں تشریف فرما ہوئے مولوی کریم اللہ نے چیخ ماری بے ہوش ہو گئے۔
مفتی محمد عبد اللہ قادری فرماتے ہیں: شاہ حسین اور دیگر طلباء کو بلانے کیلئے گیا واپس آیا تو وہ جلوہ اختتام پذیر ہو چکا تھا۔ خطیب اعظم پاک وہند حضرت مولانا قاری احمد حسین رو ہتکی رحمة اللہ علیہ فرماتے: مراڑیاں شریف کی مسجد کی ایک ایک اینٹ سے اللہ کی آوازآتی ہے اور داخل ہوتے ہی نبی اکرم ۖ کی مخصوص خوشبو محسوس ہوتی ہے۔
نمبردار چوہدری قدردار آف ساہنوال کہتے ہیں: ایک بار قحط میں بڑا اجتماع ہوا فرمایا: اگر کوئی شخص جس نے جوانی میں اپنی نظر پاک رکھی ہو دعا کرے تو بارش ہو جائیگی سب لوگ خاموش رہے فرمایا میں نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنی نگاہ جوانی میں پاک رکھی ہے، پھر دعا فرمائی تو دوران ِ دعا موسلادھار بارش ہوئی۔
اختصار یہ کہ آپ نہ صرف استاذ العلماء الراسخین تھے بلکہ شیخ المشائخ العارفین اور الحضوری فی حضرة سید المرسلینۖ کے منصب پر فائز تھے۔
آپ کا سن ولادت ولادت: 1884ء اور سن وصال ٢٦ رجب المرجب ١٣٧٧ /16فروری 1958ء ہے
آپ کا عرس مبارک ہر سال 27رجب صبح 9بجے تا نمازِ ظہر مرکز اہلسنت نیک آباد (مراڑیاں شریف) گجرات میں ہوتا ہے۔
وحید زماں حضرت نیک عالم فدائے جمال شہ ِ مرسلاں شُد محدث مفکر معلم فقیہ منزئہ خصائل فصیح البیاں شُد
ایسی شخصیات کے متعلق ہی علامہ اقبال رحمة اللہ علیہ نے کہا تھا: نگاہ ولی میں یہ تاثیر دیکھی بدلتی ہزاروں کی تقدیر دیکھی