تحریر: شیخ عوام علامہ عطا محمد قادری غفاری حضرت شیخ فضل احمد نے فضل کیتا، دتی بادشاہ پور جاگیر بھائی جھلی شاہ دا سی ولی عہد کامل، تابع اوس دے شاہ وزیر بھائی نقشبند سی سلسلہ اوس کامل، گویا آہا محمودانجیر بھائی عالم، علم معقول ،منقول دا سی، عامل کامل جایا، عالم پیر بھائی آہا خاص ابدال پنجاب اندر، ولی اللہ دا بے نظیر بھائی کدی پکڑ تسبیح تہلیل پڑھدا، کدی وچ مسجد تفسیر بھائی غوث ِزماں حضرت پیر سید سید ن علی شاہ بخارائی اولیائے منڈی بہاء الدین میں منفرد مقام اور بلندرتبہ کے حامل ہیں۔آپ سرکار ِدوعالم کی عترت ِطیبہ میں چالیسویں پشت میں آتے ہیں۔
آپ کا نورانی نسب نامہ اسطرح سے ہے؛ غوث ِزماں حضرت پیر سید سیدن علی شاہ بخارائی بن سید عالم علی شاہ بخارائی بن سید حسنین شاہ بخارائی معروف بہ چنن شاہ بن سید اکرم شاہ بخارائی بن سید گل محمد شاہ بخارائی بن سید رسول شاہ بخارائی بن سید عادل شاہ بخارائی بن سید فتح محمد شاہ بخارائی بن سید احمد اصغر شاہ بخارائی بن سید عبد اللہ شاہ بخارائی ثانی بن سیدنظام الدین اصغر شاہ بخارائی بن سیدجلال شاہ بخارائی بن سید محمد شاہ بخارائی بن سید محمد شاہ بخارائی ثانی بن سید محمود شاہ بخارائی بن سید عبد اللہ شاہ بخارائی بن سید اسماعیل شاہ بخارائی ہزاری منصب بن سید اسماعیل شاہ بخارائی بن سید نر ناصر الدین شاہ بخارائی بن سید جلال الدین حسین مخدوم جہانیاں جہاں گشت بخارائی بن سید سلطان احمد کبیر بخارائی بن مخدوم سید جلال الدین شیر شاہ حیدر سرخپوش بخارائی بن سید ابوالحسن علی المؤید بن سیدجعفرالثالث بن سید محمد صفی الدین ابو الفتح بن سید احمد ابو یوسف بن سید محمود اصغر بن سید عبد اللہ شاہ بن سید علی اصغر شاہ بن امامزادہ سید جعفرالثانی بن سیدنا امام علی النقی بن سیدنا امام محمد تقی الجواد بن سیدنا امام علی الرضا بن سیدنا امام موسیٰ الکاظم بن سیدنا امام جعفر الصادق بن سیدنا امام محمد الباقر بن سیدنا امام علی زین العابدین بن سیدنا امام حسین شہید کربلا بن سیدنا امام علی ابن ابی طالب اسد اللہ الغالب داماد رسول ۖ زوج ِبتول۔ طریقت میں آپ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں حضرت فضل احمد پشاوری المعروف میاں جیو صاحب یکہ توت شریف پشاور کے خلیفہ ، حضرت میاں خدا بخش المعروف پیر جھلیشاہ مدفون مڈھ رانجھا ضلع سرگودھا کے خلیفہ وداماد تھے ۔تمام عمر ریاضت وچلہ کشی میں گزار دی۔
داستان ِفقر بیان کرتے فرماتے ہیں ؛ میراں جی کی بارگاہ ”ایک دن میرے دل میں شوق جاگااور میں بادشاہ پور سے سالم گیا۔وہاں سے بھیرہ میں جلوہ افروز حضرت میراں سید محمدیالمعروف میراں جی کے مزارپہ حاضر ہوا۔شام کے وقت ایک درویش وہاں پہنچا اور کہا،”چناب کے کنارے سے ایک درویش آیا ہے اور وہ بارگاہ میراں جی میں حاضری دینا چاہتا ہے۔” چناب کے کنارے سے آئے درویش نے آکر کہا ،”یہاں غوثِ زماں حضرت جُھلیشاہ کے داماد آئے ہیں۔ ”میں خاموشی سے دیکھتارہا ۔وہ دوبارہ بولا ،”یہاں حضرت جُھلیشاہ کے داماد آئے ہیں۔ ”میں پھر خاموشی سے دیکھتارہا ۔ تیسری مرتبہ وہ میری طرف متوجہ ہوا اور کہا ،”یہاں حضرت جُھلیشاہ کے داماد آئے ہیں۔ ”پھر میرا ہاتھ پکڑا اور اپنے گھر کی جانب لے کر چل دیا ۔میں نے اس کے گھر کے دروازہ پر پہنچ کر پوچھا ،”بھائی تم کون ہو؟” بولا،”میرا نام خواجہ سعی محمد ہے ۔تمام بھیرہ شہر مجھے جانتا ہے ۔میں کوئی ولی یا فقیر نہیں بلکہ ایک مفلوک الحال شخص ہو ں ۔ حضرت جُھلیشاہ کا مرید ہوں،آج بوقت ظہر مرشد کی بارگاہ میں حاضر تھا ۔انہوں نے فرمایا؛”آج دربار حضرت میراں سید محمدی پہ شام کے وقت، میرے داماد آئیں گے ۔وہ تھکے ہوں گے۔انہیں گھر لے جا کر خوب خاطر مدارت کرنا۔ ”میرے مرشد جُھلی شاہ جلیل القدر ولی اللہ ہیں جنہیں اہل بلخ وبخارا بخوبی جانتے ہیں۔میں نے فقط ان کے فرمان کی تعمیل کی ہے۔ ”
Hazrat Fazl Ahmad Naqshbandi Peshawari
لشکر ِابلیس کچھ دیر خواجہ سعی محمد کے گھر رہ کر میں دوبارہ حضرت میراں جی کے دربار میں حاضر ہوااور اوراد ووظائف کرنے لگا ۔وہیں اونگھ آگئی ۔خواب دیکھا کہ کچھ لٹھ بردارسپاہی ہیںاور مجھے کہتے ہیں ،”تم رسول اللہ کی زیارت کرنا چاہتے ہو ؟”انہوں نے میرے ساتھ انتہائی حقارت کا سلوک کیا اور شمال کی جانب دوڑ گئے ۔پھر میں نے انتہائی خوبصورت پالکی دیکھی جس میں ایک خوبصورت،عجیب صورت مرد بیٹھا تھا ۔اس نے آنکھیں کھول کر مجھے کہا ،”تم آج کے بعد نماز نہ پڑھنا ۔نہ ہی روزہ رکھنا ۔بار بار تاکید کی اور کہا کہ تمہارے سر سے یہ بھاری وزن ہٹا دیا گیا ہے۔ ”میں نے اسے کہا،”خدا تعالیٰ نے قرآن مجید ،فرقان حمید میں فرمایا ہے کہ نما ز ،روزہ فرض ہے ۔جو اسے قضا کرے گا میں اس کو آگ میں پھینکوں گا چاہے وہ کتنا بڑا خان ہی کیوں نہ ہو ”۔پھر کہا،”نماز ،روزہ کے بغیر چارہ کار نہیں ۔خدا تعالیٰ نے ہمیں صلوٰة وسلام کا حکم دیا ہے اور رسول اللہ ۖنے بھی ہمیں تلقین فرمائی ہے۔ ”یہ سن کر وہ لشکر ابلیس غائب ہو گیا۔
درگاہِ جھلیشاہ صبح نماز فجر کے بعد میں عازم سفر ہوا اور نواں کوٹ کا رخ کیا ۔وہاں پہنچ کے دیکھا کہ حضرت اعلیٰ جُھلیشاہ سرکار ( ولادت 14رمضان المبارک 1137ھ بروزپیر ، وصال 14جمادی الثانی1277ھ،بروزبدھ مطابق 16کاتک1917بکرمی مزار پرانوار نوانکوٹ ،مڈھ رانجھاضلع سرگودھا۔) مسجد میں تشریف فرما تھے اور آپ کی بارگاہ میں مریدین و عقیدت مند ،سوالی بیٹھے تھے ۔میں نے سلام وتسلیمات عرض کیں اور ہاتھ باندھ کے کھڑا ہو گیا۔ اس طرح کھڑے کھڑے ایک پہر گزر گیا ۔کسی نے عرض کیا ،”پیر سیدن کھڑے ہیں ،حکم کیجئے وہ بیٹھ جائیں۔”
سرکار عالی نے خوشدلی سے فرمایاِ”مصلے پر بیٹھ جائو”میں نہ بیٹھا ۔انہوں نے فرمایا،” اَلاَمْرُ فَوْقَ الْادَبْ ”،حکم ادب پہ فوقیت رکھتا ہے ۔میں آپ کے پاس مصلے پہ بیٹھ گیا۔ تین دن تک آپ متعددسولات کر کے مجھے آزماتے رہے ۔میں نے سوچا آپ مجھے فقر سے محروم رکھنا چاہتے ہیں ۔چوتھے دن آپ نے مجھے نواں کوٹ چھوڑنے کا حکم دیا ۔ میں چل دیا۔ دل میں سوچا کہ دنیائے فانی میں اکیلا ہی رہ گیا ہوں ۔ماں نہ باپ ۔ایک مرشد کا دامن تھامنا چاہا ،انہوں نے بھی تنہا چھوڑ دیا ۔ییہاں سے فقر نہ ملا تو کیا ہو ا،سید تو میں ہوں ،ارض خدا کا مالک ہوں ۔یہی سوچتے نویں کوٹ کی حدود سے نکل گیا ۔میرے پیچھے مرشد نے ایک گھوڑ سوارپٹھان دستہ روانہ کیا ۔جس نے مجھے روکا اور کہا،”واپس چلو ،تمہیں سرکار بلاتے ہیں۔” اس نے کافی اصرار کیا مگر میں نہ مانااور چل پڑا۔اس کے ساتھ آئے پٹھانوں نے مجھے زبر دستی پکڑ لیا ۔میں ان کی زبان نہیں جانتا تھا ۔انہوں نے مجھے ایسے دبوچا جیسے بھیڑیے ، بکریوں کے ریوڑ پکڑتے ہیں ۔ کاندھوں پہ اٹھا کر چل دیے ۔میں نے بہت فریاد کی مگر انہوں نے میری کوئی بات نہ مانی۔ جب ہم نویں کوٹ کے قریب پہنچے تو وہاں میں نے حضرت دادا صاحب کی تربت دیکھی ۔ میں نے درخواست کی ۔”مجھے اتار دو ،یہ بے ادبی ہے۔ ”میں سائیں کے دربار میں حاضر ہوں گا ۔یہ بلائیں کہاں سے میرے پیچھے پڑ گئیں ہیں ۔انہوں نے مجھے اتارا۔میں حضرت غوث جھلیشاہ کی خدمت میں حاضر ہو ا۔انہوں نے مجھے دیکھ کر صد کلمات تحسین و آفرین ادا کیے اورمیرے علم وفضل کی تعریف کی ۔فرمایا،”تم نے علم سے یہ عقل حاصل کی ۔خدا کے کرم سے غافل نہ رہنا ۔اگر تم بے علم ،جاہل ہوتے اور ا ن کا کہنا مان لیتے ،امر خدا سے غافل ہوتے تو تم بھی شیطان کے فعل میں شامل ہو جاتے ۔وہ ساری فوج شیطانی تھی ۔ سپاہی اور پالکی والے اہل ِحرام تھے۔ ”
Masid Pir Jhulli Shah, Midh Ranjha
میراں جی کی زیارت پھر فرمایا ،”سیدن !بھیرہ شہر جائو اورمیراں سید محمدی کی بارگاہ میں جبین نیاز خم کرکے دو چلے کاٹواورعشق معظم کی دولت حاصل کرووہیں آپ وصل پاکے گلزار حقیقت کی سیر کریں گے۔ ”میں ان کے حکم کے موجب دربار حضرت میراں جی پہنچا اور چلہ شروع کیا ۔دوران چلہ بشارت ہوئی اورپاک میراں جی نے زیارت عطا فرمائی ۔میراں محمدی میانہ قامت اور سرمدی رخ مبارک کے حامل تھے ۔میں نے لوگوں سے ان کی نشانیاں پوچھیں اور جو سنی تھیں مشاہدہ کیں ۔ان کا زمانہ پانے والے حاضرین مجلس ان کا تذکرہ کیا کرتے تھے ۔میں نے ان سے بیان کیا تو انہوں نے کہا،”یہ خواب سچا ہے ،سردارِ پنجاب محمدی ایسے ہی تھے”۔ دو چلے مکمل ہوئے تو میراں صاحب نے مسکراتے ہوئے زیارت سے شرفیاب فرمایا اور حکم دیا کہ لاہور جا کر داتا صاحب کے مزار پہ اکیس دن گزاریں ۔وہیں ابر رحمت آپ پہ برسے گا۔
تاجدار ِبھیرہ ،حضرت میر احمد ،وصال ١٨رمضان المبارک ١٠٩٢ھ مطابق ٤اکتوبر ١٦٨١ء بروز پیر، گیارہویں صدی ہجری کے اوائل میں ہندوستان کی ریاست بیجاپور کے عارف حضرت صالح شاہ کے گھر متولد ہوئے اور انہی سے ابتدائی تعلیم وتربیت پائی۔ بعد ازاں علمائے دہلی سے قرآن وحدیث،فقہ اور علوم متداولہ میں کمال حاصل کیا۔ آپ کے زہد وتقویٰ اور تبحر علمی سے متاثر ہو کر مغل فرمانروا جہانگیر نے قاضی القضاة کے عہدے کی درخواست کی جو آپ نے نفاذ شریعت محمدی اور پاسداریء حق کے لیے قبول فرمائی اور جہانگیر کی سلطنت کے قاضی القضاة مقرر ہوئے ۔علوم شریعت میں کمال حاصل کرنے کے بعد طریقت اور حقائق ومعرفت کا بحر بے کنا ر سامنے تھا ۔دل مضطرب تھا تو روح بے چین ۔ اسی کشمکش میں ندائے حق سنائی دی اَلَمْ یَانْ لِلَّذِیْنَ آمَنُوْااَنْ تَخْشَعْ قُلُوْبُھُمْ لِذِکْراللّٰہْ ،کیا ابھی ایمان والوں کے لیے وہ وقت نہیں آیا کہ اُن کے دل اللہ کے ذکر کے لیے جھک جائیں ۔ قلب وروح نے لَبَّیْک اَللّٰھُمَّ لَبَّیْک کی صدا دی ۔عہدئہ قضا وت سے مستعفی ہو کر جادئہ عشق ومستی میں قدم رکھا اور جذب وسلوک کی ابتدائی منازل طے فرماکر عازم عراق ہوئے۔اکیس سال تک اماکن متبرکہ کی زیارت سے شرفیاب ہوتے سیر وسلوک میں کمال حاصل کیا۔اللہ کریم کی محبت کاجوش فزوں تر ہوکے بحر متلاطم بن چکا تھا۔
گلستان ِروح میںذوق وشوق کی عنادل ترنم ریز تھیں ۔اشتیاق وصل عالم سرائر میں مشتعل تھا۔فہم وفراست کا سفینہ دریائے معرفت کی اتہاہ گہرائیوں میں گم ہو گیا ۔جام وصل کے ادوار چلنے لگے جس سے آپ کے قلب وروح اور سر و باطن بھرپور سیراب ہوئے ۔عراق کی زیارات سے اکیس برس فیضان حاصل کرکے عاز م حجاز ہوئے ۔ تیرہ برس مَدِیْنَةُالْنَّبِیْ کی بہشت میں گزارے اور حرمین شریفین سے فیضان ِسید ِکونین ۖحاصل کیا ۔بارگاہ ِنبوی سے فَقَدْفَازَفَوْزاًعَظِیْماًکی دستار پا کر نجف اشرف ،بارگاہ ِاما م الائولیاء سیدنا امام علی ابن ابی طالب کے حضور پیش ہوئے ۔ الطاف ِربانی کے قلزم نے جوش مارا ۔سند ِولایت حاصل ہوئی اور بھیرہ مقام رشد وہدایت کا فرمان جاری ہوا۔درئہ خیبر پشاور کے راستے موگلہ تحصیل تلہ گنگ تشریف لائے اور ایک مسجد میں قیام فرمایا۔موگلہ کے جنوب میں قادر پور روانہ ہوئے ۔جگہ جگہ کرامات ظاہر ہوئیں ۔قادر پور سے جابہ اور جابہ سے چامبل گائوں تشریف لے گئے۔چامبل کے بنجر پہاڑوں میں پانی مفقود تھا ۔عصامبارک کی ضرب لگائی تو چشمہ آب جاری ہوا جو آج تک جاری ہے ۔ متعدد مقامات پہ نور ہدایت عام فرماتے طالبان ِحق کی ایک جماعت کے ہمراہ انگہ کے نواح میں ٹل کے مقام پر قیام فرما ہوئے ۔ مٹھہ ٹوانہ ،بوتالہ اوربیربل کے مقامات پر فیضان ِطریقت عام فرماتے بھیرہ پھُلاں دا سہرہ کہلانے والے شہرکے شمال مغرب میں آستانہ آباد کیا ۔ بھیرہ قیام میں آپ سے متعدد کرامات ظاہر ہوئیں جس میں دریائے جہلم کی طغیانی اور سیلاب کا آپ کے حکم پر ٹھنڈا ہو جانا اور دریا کا شہر سے دور چلا جانا معروف ہے ۔حضرت میاں شیر محمد شرقپوری فرمایا کرتے تھے ، ”جب میں اس علاقے کی طرف نظر ڈالتا ہوں تو سب سے بلند خیمہ حضرت میراں شاہ صاحب کا نظر آتا ہے ”۔ آپ کے مبارک وجود کے باعث بھیرہ ، میراں دی نگری کہلاتا ہے۔ آپ کی درگاہ نے بھیرہ کو وہ شرف عظیم عطا فرمایا کہ یہ شہر مختلف تاریخی ،تہذیبی اور مذہبی حوالوں سے چاردانگ عالم میں بھیرہ شریف کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ہر سال چیت کے مہینے میں آپ کا عرس مبارک نہایت تزک واحتشام سے منایا جاتا ہے۔
Darbar Hazrat Meeran Sahib, Bhera
اگر پرسد کسے سال وصالش بگو پرفیض بس ایں یادگار است ١٠٩٢ھ چل وسیئے شہر لہور چلہ پورا ہو جانے کے بعد میں پھر نویں کوٹ حاضر ہوا جہاں میری دین ودنیا کی کائنات تھی ۔غوث جھلی شاہ کی بارگاہ میں حاضر ہو اجن کے در پہ تمام خلقت سلام کرتی تھی۔ غوث پاک کی کچہری میں حاضر ہوا ۔کامل مرشد نے مجھے لاہور جانے کا حکم دیا ۔ میں نے لاہور جانے کی جلد تیاری کی اور بفضل تعالیٰ بڑے میاں اسماعیل ثانی کی درگاہ پہ پہنچا۔ سبحان اللہ! نور علیٰ نور کا مقام تھا ۔ آپ کے دربار پہ چلہ کشی کر کے پیر ہجویر سرکار داتا گنج بخش ،مرد کامل کی درگاہ پہ حاضر ہوا اور چلہ کیا ۔لاہور چلے سے فارغ ہوا تو حکم ملا کہ سیدن شاہ ملتان کو جائیں اور پیر بہاء الحق کی ملتانی کی بارگاہ میں حاضری دے کر خزائن عرفان حاصل کریں ۔فراق مٹ جائے گا ۔چھ ماہ ملتان رہا ۔بہاء الحق ملتانی نے کہا ؛” آپ داتا صاحب کی بارگاہ میں حاضر ہوں ،وہاں دروازئہ رحمت کھلے گا اور آپ افلاک ِولایت پہ مانند شاہباز سیر کریں گے۔
یہ حکم پا کر آپ دوبارہ لاہور تشریف لائے اور داتا صاحب کے مزار پہ چلہ کش ہوئے اور گنج بخش کی بارگاہ سے فیضان ولایت حاصل کیا۔داتا صاحب نے حکم دیا کہ آپ دوبارہ حضرت جھلیشاہ کی بارگاہ میں جائیں اور ان کی نگاہ فضل سے دونوں جہانوں میں سرخروئی حاصل کریں۔یہ حکم پا کر میں مرشد پاک کے آستانہ، نوانکوٹ جاکر آپ کی زیارت سے مشرف ہوا۔
اندر ایس جہان دے جُھلی تیری نور وچہ دربار رسول دے ،تیری گل منظور خادم تیرے سینکڑوں ،اندر شہر لہور وچہ حساب نہ آئوندے کابل ،شہر پشور ان مقامات کے علاوہ حضرت، وادیٔ سون سکیسرکے غاروں میں چارسال اورپشاورمیں چھ ماہ چلہ کش رہے۔
Gaddi Nasheen Meeran Sahib
دریائے چناب میں بارہ سال آپ نے مجھے دریائے چناب کے پانی میں چلہ کرنے اور چناب کی مچھلیوں کو جسم کھلانے کا حکم دیا ۔آٹھ پہر میں حکم صادر ہوا۔سارا دن روزہ رکھ کے باتھوں کے ساگ اور بکرن کی بوٹی سے افطار کرنے کا حکم دیااور رات کامل شب بیداری میںوردوظائف کی تاکید کی ۔آپ نے فرمایا،”دریا کا زہد کرنے سے دلگیر مت ہونا۔ ”آپ نے چلہ شروع کیا تو ابتدا ہی میںسرکار دوعالم حضور نبی کریم ۖ نے اپنے اصحاب کبار اور اولیاء اللہ کی جماعت کے ہمراہ آپ کو شرف زیارت عطا کیا ۔تجلیات ِنبوی کی شدت سے آپ پہ لرزہ طاری ہو گیا اور آپ غش کھاکر گر گئے اور ایک مدت بے تابی میں گزری یہاں تک کہ پٹھان مریدین اٹھا کر مرشد کے حضور لائے تو مرشد نے فرمایا ،”آپ اپنے جد پاک کی زیارت سے کیوں غش کھا گئے ۔ دوبارہ محنت کریں ،یہ عشق کا پیالہ رات دن نوش کریں۔ ” پکڑدلیری سیدا ،ہویوں کیوں بے ہوش آھ لے پیالہ عشق دا ،رات دنے کر نوش اوکھی کار ہے فقر دی ،سولی تے چڑھ بیہن جنہاںزہد کمایا ، عیشاں خوشیاں ریہن لمبا پینڈا فقر دا جیوں لمبی کھجور چڑہے تے کھائیں کھنڈ ، ڈگیں چکنا چور حاصل ایہہ کلا م دا،گزرے باراں سال سید کرے ریاضتاں ، جانے رب جلال سن اصحاباں ساریاں ، آئے نبی رسول لے گل نال لگائوندے ، اللہ دے مقبول داخل وچ حضور دی کیتا سیدن پیر چمکے چہرہ اونہاں ، وانگ بد ر منیر اس تے پچھے ہویا ، انہاں تے رحم خدا برکت جھلیشاہ دی ، حاجت رئے نہ کا
حکم مرشد پہ آپ بارہ سال دریائے چناب میں چلہ کش رہے اور خزائن فقر وولایت سے مالا مال ہو گئے ۔دن روزہ رکھتے اور افطار باتھوں کے ساگ سے کرتے ۔بارہ سال مکمل ہوئے تو آپ کے بدن کا نچلا حصہ مچھلیاں اور کچھوے کھا چکے تھے ۔ بالآخر منزل مکمل ہوئی اور سرکار ختمی مرتبت تشریف لائے ۔آپ کو گلے سے لگا کر اپنے حضور جگہ عنایت فرمائی ۔ آپ کا چہرہ چودہویں کے چاند کی مانند دمک رہا تھا۔
Miyan Khuda Bakhsh Sahib
داخل وچ حضور دی کیتا سیدن پیر چمکے چہرہ اونہاں ، وانگ بدر منیر اس تے پچھے ہویا ، انہاں تے رحم خدا برکت جھلیشاہ دی ، حاجت رئے نہ کا دے کے جبہ فقر دا ٹوریا طرف گھراں ویکھو وچ بادشاہپور ، مارے موج چنہاں١
یہ داستان یکم جمادی الثانی 1319ھ،مہریہ مسجد بادشاہ پور شریف میںمولوی الٰہی بخش کندوال نے میاں محمد دین چک ڈڈاں والا کے روبرو،پنجابی شاعری میں تحریر کی۔
بادشاہ پور شریف کی بادشاہی جُھلیشاہ تھیں عشق پیالہ پیتا سیدن سائیں جیندا فیض کمال جگت وچ ،روشن ہرہر تھائیں اسدا نام لیاںدکھ نسن ، نسدیاںکل بلائیں وچ مصیبت بھیڑاں بھاڑاںجسدا نام اڈاریدا نام اللہ دے سیدن سائیں،ویلا مدت یاریدا ہکدن جھلی شاہ کرم تھیں سیدن کول بہائے بھربھر دیندا وحدت والے اسنوںمست پیالے بخت بیدار ہوئے شاہ سیدن ،دکھ ازل رب ٹالے دل دی آساںرب پونچایاں،مرشد ملیا کاریدا نام اللہ دے سیدن سائیں،ویلا مدت یاریدا
تکمیل ولایت کے بعد حضرت جھلی شاہ سرکار نے اپنی بلند پایہ ولیہ ،اکلوتی دختر نیک اخترحضرت مائی صاحبہ رسول بی بی کوپیر سیدسیدن علی شاہ صاحب کے عقد میں دیا۔ پیر جھلیشاہ جنات پہ تصرف خاص رکھتے تھے اور جنات کے ان گنت قبائل کو دائرئہ اسلام میں داخل کیا تھا ۔آپ نے اپنی لخت جگر کو اڑھائی سو پکھی جنات کی جہیز میں دے کر روانہ کیا جو آپ کی خدمت پر مامور رہتی۔ پیر صاحب نے اپنے داماد اورخلیفہء طریقت کو ان کے آبائی علاقہ بادشاہ پور کو شرف عطا کر کے رشد وہدایت فرمانے کا فرض سونپا۔آپ نے فتح شاہ پور کو لازوال شرف ِعظیم عطا فرمایا جس باعث فتح شاہ پور شریف معروف ہوا۔حضرت مائی صاحبہ(وصال 14جمادی الثانی1348ھ،6جیٹھ1986بکرمی،1929ئ،بروزپیر)بادشاہ پور شریف تشریف لائیں اور خانہء پیر سیدن کو تین جلیل القدر فرزند عطا کیے ۔پیر سید حیدر علی شاہ ،پیر سید قادر علی شاہ ،پیر سید مہر علی شاہ ۔ پیر سیدحیدر علی شاہ ،صاحب جذب وحال تھے۔8رجب المرجب 1353ھ،18اکتوبر 1934ء مطابق 2ماہ ِکاتک 1991بکرمی رات کے چاربجے دار ِفانی کوابدی الوداع فرماکر بروز جمعرات تین بجے دن دفن کیے گئے ۔پیر سید قادر علی شاہ علوم حکمت کے ماہر تھے اور ان کا شمار نامور اطبا وحکما میں ہوتا تھا ۔یکتائے دہر ،فرزندِ خورد حضرت پیر سید مہر علی شاہ بخاری ،آپ کے سجادہ نشین ہوئے ۔ پیر سید سیدن علی شاہ سرکار کے چھ فرزند سید بہادر علی شاہ ،سید احمد علی شاہ ،سید محمد علی شاہ ،سید حیدر علی شاہ ،سید قادر علی شاہ اور سید مہر علی شاہ ہیں۔سب صاحب مزار اور حلقہء ارادت کے حامل ہیں۔
غوث جھلی شاہ رنگ لگایا،نور سارا بادشاہ پور آیا شعلے نور دے چانن لایا ، ملک سلامی آیا ای پاہیو خیر سوالی تائیں ، در تساڈے آیا ای توں منظور خدا دے اگے ،رب تینوں وڈیایاای
پہلی کرامت ایک دن پیر سیدن شاہ صاحب کے دل میں خیال آیا کہ ایک کنواں کھدوایا جائے کہ جس سے مخلوق ِخدا فیضیاب ہو ۔ خلقت پانی پئے جورضائے الٰہی کا باعث ہو ۔ مزدوروں نے کنواں تیار کیا ۔جب دیوار پختہ ہو گئی تو کنواں چلانے کے لیے لکڑی کی ضرورت پیش آئی ۔کسی نے گوش گذار کیا کہ ہریہ شہر سے لکڑدستاب ہو جائے گی ۔آپ ہریہ روانہ ہوئے ۔ ہریہ میں دو نمبر دار تھے ۔ایک کانام سردارخان اور دوسرے کا خان تھا جو ذات کا دلیان تھا ۔جاٹ کی بدتمیزی: پیر صاحب ہریہ کے دارے میںپہنچے اور سلام کیا مگر کسی نے سلام کا جواب دیانہ تعظیم کی ۔چارپائی پیش کی نہ چارپائی پہ بیٹھنے دیا۔آپ زمین پہ تشریف فرما ہوئے اور خدا کا نام لے کر درخت کے لیے سوال کیا ۔نمبردار سردارخان نے حیلہ کیا اورانتہائی بدتمیزی سے پیش آیا ۔اس نے کہا؛”کہ یہ درخت سردیوں میں جلانے کے کام آتا ہے ، دوسرااس کے ساتھ لوگ جانور باندھتے ہیں ، تیسرا شادی بیاہ کے موقع پر اس کے نیچے گویے گاتے ہیں ۔میں یہ دے کر بہت بدنام ہو جائوں گا ۔ آپ یہ بغیر ہتھیار کے گرا لیں تو یہ آپ کی ہو جائے گی،جب چاہیں گرا لیں ”۔ اس نے صاف انکار کر دیا۔آپ نے دوبارہ سوال کیا اور فرمایا ،”اوجٹ!مجھے مجبوری ہے ”۔اس نے کہا،” اکیس دن میں گرا لیں تو یہ آپ کی”۔ سیدن شاہ صاحب نے فرمایا ،”میں لمبا وعدہ نہیں کرتا، ایک ہفتہ میں ٹاہلی زمیں بوس ہوگئی تومیری۔ ” ناامید ہو کرسید خاص فقیر اپنے دولت خانہ تشریف لائے ۔رات غم واندوہ میں جاگ کرگزاری ۔فجر تک گریہ زاری فرمائی اور اپنے اجدادِطاہرین کی بارگاہ میں عرض گزار ہوئے ۔خدا کا نام لے کر مسجد داخل ہوئے ۔رات دن مناجات کرتے رہے ۔ کھانا پینا چھوڑ دیا ۔گریہ زاری کرتے ،شہ لولاک ۖ کے فضل وکرم سے استعانت طلب کرتے تھے ۔ غوث ِاعظم دستگیر سے مدد مانگتے، حضرت فضل احمد پشاوری کی بارگاہ میں عرض گزار ہوئے ۔رات دن مسجد میں رہنے اور نوافل کی ادائیگی سے بدن خستہ ہو گیا۔
Saeen Azad Ali Bheravi
ٹاہلی کاٹ دی : رات آپ نے نبی کریم ۖ،امیرالمومنین ،غوث الثقلیناور اپنے مرشد جھلیشا ہ کی زیارت کی جنہوں نے فرمایا ، ”بیٹا!فکر نہ کرو۔کیوں غمگین ہو؟تمہارے لیے ٹاہلی کاٹ دی گئی ہے ”۔صبح آپ نے ایک دھوبی لڑکے کو بلایااور فرمایا ،”ہریہ شہرجائو اور دارے کے پاس ٹاہلی والی جگہ دیکھو ”۔اس لڑکے نے جا کر دیکھاتو وہ ذرا بھی نہ ہلی تھی اور اس کا ایک پتہ بھی نہ ٹوٹا تھا ۔ دھوبی لڑکے نے یہ بات حضرت کے گوش گزار کی ۔پیر سید نپہلے سے زیادہ غمگین ہوئے اور گریہ زاری فرمائی ۔ رات خواب میں شاہ ِجیلاں تشریف لائے جن کے ہمراہ آپ کے مرشد جھلیشاہ بھی تھے ۔انہوں نے فرمایا،”آپ کے وعدہ کی تاریخ میں ایک دن باقی ہے ۔ٹاہلی کاٹ دی گئی ہے ۔صرف ایک جڑرہ گئی ہے جس پہ وہ قائم ہے۔”اس درخت ٹاہلی کی ایک مضبوط جڑرہ گئی تھی جو مشرق وجنوب کی جانب گڑی تھی ۔ جیسے ہی حضرت کا دیا وقت پورا ہوا تو عین دوپہر وہ بلند وبالا ٹاہلی زمین پہ آن گری جس کی دھمک پورے شہر میں قیامت بن کے سنائی دی ۔مال مویشی شہر چھوڑ کر بھاگ گئے۔ لوگ تھر تھر کانپنے لگے ۔ مسلمان کلمہ اور ہندو ہری رام ہری رام کا ورد کرنے لگے ۔تمام ہندو مسلم پیر سیدن کے قدموں پر آن گرے اور نذرونیاز پیش کر کے دست بستہ کھڑے ہو گئے۔
نمبردار خان بھی آیا اور غلطی کی معافی مانگی ۔آپ نے فرمایا ،”تم نے میراراز فاش کر دیا ۔کوہڑے، دفع ہو جائو ۔میرے پاس نہ آئو ۔او جٹ تیراستیاناس ہو”۔ جلال ِسیدنے وہ بدبخت کوہڑا (مبروص)کر دیا ۔غیرت ِفقیر کے باعث وہ جل کر خاک ہو گیا اور اس کا نام ونشان مٹ گیا ۔پیر سیدن شاہ صاحب وہ درخت ٹاہلی لے کر بادشاہ پور تشریف لائے اور کاریگر لگوا کر کنواں تیار کروایا اور عوام الناس اس سے استفادہ کرنے لگے ۔اس کرامت کے بعد عوام الناس کا جم غفیر آپ کی بارگاہ میں حاضر رہتا اور آپ تبلیغ اسلام کے ساتھ ان کے روحانی ومعاشرتی مسائل حل فرمایا کرتے ۔
فرمان برائے خاص وعام ” اے اہل اسلام !خاص وعام سن لو ،حضور نبی کریم ۖنے حدیث مبارکہ میں فرمایا ہے کہ جب تک تمہارے اندر یہ دو چیزیں رہیں گی تم امان ِالٰہی میں رہو گے اور کوئی غم نہ دیکھو گے ۔ایک نبی سرور ۖ کی اہل ِبیت ،اولاد ِخاتون ِجنت اور دوسرا فرقان یعنی قرآن ِمجید ۔ان دونوں کی برکت سے روز قیامت ، اللہ رب العزت اجر عظیم عطا فرمائے گا۔ ”
آخری ایام آخری ایام میں آپ نے 22رجب المرجب کی نیاز دی اور نو لاکھ دفعہ درود ِپاک کا ختم فرمایا۔ وصال حیات ِبابرکات کے آخری ایام میں آپ نے اپنے فرزند خورد ،حضرت پیر سید مہر علی شاہ سرکار کو طلب فرما کر حکم دیا کہ جس قدر ہو سکے میری زبان چوس لیں ۔پیر سید مہر علی شاہ سرکار نے ہر ممکن آپ کی اوراد ِاسمائے الٰہی میں مشغول رہنے والی زبان اقدس چوس لی جس سے آپ کافقر وولایت حضرت پیرسید مہرعلی شاہ سرکار میں منتقل ہو گیا ۔انہیں اپنی طریقت ودرگاہ کا سجادہ نشین مقرر کر کے تاعمررضائے حق میں چلہ کش رہنے والے فخر جلال الدین سرخپوش بخاری ،یکم شعبان المعظم 1316ھ،2پوہ ،صبح جمعرات باطہارت کلمہء طیبہ کاورد فرماتے اور سرکار دوعالم کی بارگاہ میں نذرانہء درود پاک پیش فرماتے جاں بحق ہوئے۔
Nusrat at Pir Sayda Shah Sahib’s Urs
ساری عمر وظائف دے وِچہ اپنی انہاں گزاری وحدت دے دریا وچ مچھی وانگوں لاندے تاری غیر شرع دیاں بیخاں پٹ کے وچ دریا رہڑہانیاں غیر شرع مخالف جہڑے نسن دین دہائیاں اونہاں شیراں، پھڑ شمشیراں شرعی واہیاں نال صفائیاں لامذاہب ، کفر وشرک دیاں فوجاں مار اڈایاں کوئی لامذہب نہ چھڈیا اپنے وچ زمانے سورج وانگ کیتی روشنائی سارے وچ جہانے مرید انہاندے جیہڑے سارے کردے شکر زبانی سیدن پیر اساڈے اُتے کیتی ہے مہربانی مبارک چہرہ پیر صاحب دا جیوں سورج اسمانی موٹیاں چشماں ، ریش مکمل ہوون لوک حیرانی
بوقت شام دفن کیے گئے ۔آپ کا روضہ اقدس بادشاہپور شریف کے مرکزی قبرستان سادات ِعظام میں مرجع خلائق ہے۔
جاں بحق خود را تسلیم کرد راضیةً مرضیةً را مصداق گشت
مرثیہ تاریخ جناب سیدن شاہ صاحب ،خلاصہء خاندان ِمصطفٰی ۖ،نقاوہ دودمان ِمرتضوی ، ادام اللہ برکاتہم فی اولادہ واکبادہ بحرمة النبی ۖ،یکم شعبان،صبح پنجشنبہ باطہارت کلمہ ،درود گویاںجاںبحق خود تسلیم کرد ، راضیة ًمرضیةًرا مصداق گشتند ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔طبع زادمولوی عبدالمجید عفی عنہ حسرت وافسوس واویلا دریغ انمیز مہر تاباں شد بمیغ دیدہ گریاں ،سینہ بریاںاز فراق خون ِدل چوں آب شد در اشتیاق الغیاث از دور، گردوں الغیاث الغیاث از مہر ایدوں الغیاث سید والاجناب خوش خطاب سیدن ِشاہ ،بامراد وکامیاب چوںبقرب ایزدخود قرب دید در دہانِ مہر شاہ لب خود مکید از زبان ِدرفشاں خویش نیز چند کلمات دعا کردہ فرید چشمہء فیض الٰہی بود او رحمت باری تعالیٰ جود او عالم ناسوت را بگذاشتہ عالم ملکوت خانہ ساختہ ارجعی چوں از ملائک حق شنید راضیةًمرضیةًسوتش دوید صبح پنجشنبہ چوں برعالم دمید لیل ہجراں بر اقارب میرسید از تہجد چوں فراغت یافتند شاد شاداں جانب حق تاختند ربنا ادخلہ ُفی دار السلام از طفیل سید خیر الانام شد حرارت بدن باعث الخلال مرض نیکش میرساندش در وصال طائر قدسش بہ پنجشنبہ پرید صرصر ہجراں بر عالم وزید باطہارت یکم شعباںشد وصال گفت اغفر لہ ُسردشس غیب سال ربنا اتمم لنا برکاتہم ربنا فضل لنا حسناتہم 1316ھ فی اولادہ ِ فبارک ربنا احصن لہم من حادثات ٍ والبلا از تراوش سینہء عبدالمجید چند ابیات تاریخی شد مفید چو آں سید شاہ سیدن علی شد از دار دنیابدار القرار بوقت سحر بعدخواندن صلوٰة بیوم الخمیس ،شعباں شمار 1316ھ بگو قطب الدیں مصرعہ تاریخ او بدو رحمت پاک پروردگار قطب الدین بیکنانوالہ چو سیدن شاہ آں پیر عالی تبار مرید جناب ولایت شعار جناب خدا بخش جُھلی فقیر سبرحملہ برخاک اوبرقرار چو در روز پنجشنبہ کرد انتقال شب جمعہ در مرقداو گزار یکم بو داز ماہِ شعباں شریف ختم شد باوعدہء کردگار نہ چنداں مریض وتبہ حال شد فقط دو سہ روز شدرآمد بخار بتسبیح وتہلیل ذکر خدا زدار الفنا شد بدار القرار تولد چوں در بادشاہ پور شدند درآںشہر آخر شد او را مزار نوشتہ بمن دراں قطب الدیں کہ تاریخ وصلش شریفش نگار بشیخ آمدہ مصرعہء دلپذیر بدو رحمت ِپاک پروردگار 1316ھ فقیر شیخ عبداللہ ،موضع چک عمر، 18شعبان در ماہ خدائی شاہ سیدن رفت از جہاں چو جان از تن تاریخ وفات جستم از غیب از چشم جہاں گشت شدغیب1316ھ مولوی محمد ابراہیم ،مقام سبھّل باول ماہ شعبان وزویرے شدہ بیروں مبارک جان پیرے بوقت نیم شب آں پاک جانے نہادہ شد ازیں دنیائے فانی شدہ افزوں زہجری سیزدہ صد 1300 بہ بالا رفت سالے شانزدہ حد16 بادشاہ پور دیاں کراں تعریفاں ،ہر پل شام سویرے باغ بہشتی وانگ اساں نوں،جتھے تیرے ڈیرے ہجر تیرے دے نال حبیبا گلیاں دے ککھ روندے درد حیواناں دے دل جاگے ،ہنجوں ہار پروندے شملے نالوں افضل تیری ککھاں دی اک کلّی لیف ،رضائیاں نالوں بہتر شہر تیرے دی جُلّی جیوں رانجھے نوں جھنگ دسیندا جتھے ہیر پیاری اینویں شہر تساڈا ڈٹھیاں جاوے لکھ بیماری واہ سید قربان تیرے توں ،ہیں محبوب الٰہی دنیا تے محبوب اساں نوں ،تیرے بعد نہ کائی برسے نور مزار تیرے تے ،ہر دم رحمت سایہ جنت اندر ملے ٹھکانہ ،دم دم رحم سوایہ فیض تیرے دادنیا اتے اوہ سمندر جاری تاقیامت ایس دے اتے ،رحمت نظر غفاری صاحبزادیاں تائیں بخشیں ربا عمر لمبیری خانہ رہوے آباد ہمیشہ، جاوے غم اندھیری سیدن پیر بخاری دا ایہہ باغ سدا رہے ہریا ہر کوئی کھاوے لذت پاوے ،دوہیں جہانیں تریا منگ حلیم ہمیش دعائیں ،صدقہ پیر بخاری کلمہ طیب پڑھاں زبانوں آخر جاندی واری حلیم مہروی شاعر دربار پیر سید مہر علی شاہ بخاری نقشبندی ،بادشاہپور شریف ، یا کریم ،کرم کر صدقہ ،سیدن پیر بخاری دا صفتاں لائق ذات نرالی ،حضرت قادر مطلق عالی اوہا دوجگ اندر والی ،خاکی نوری ناری دا یا کریم ،کرم کر صدقہ ،سیدن پیر بخاری دا لکھ صلوٰةسلام ہزاراںاوپر حضرت زاہ ابراراں نام اللہ دے سنن پکاراں ،صدقہ سر سرداری دا یا کریم ،کرم کر صدقہ ،سیدن پیر بخاری دا حضرت جعفر صادق پیرا،میں ہک عاجزبندہ کیرا عرض کراںنِت ہو دلگیرا،خدمت گار بہاری دا یا کریم ،کرم کر صدقہ ،سیدن پیر بخاری دا بایزید سخی بسطامی ،تیرے چودہ طبق سلامی ایتھے اوتھے دوہیں مقامی ،غوغا شان تمہاری دا یا کریم ،کرم کر صدقہ ،سیدن پیر بخاری دا پیواں وحدت پریم پیالہ ،حضرت سخی امیر کلالہ وسدارہی میخانہ شالہ ،بھردے جام خماری دا یا کریم ،کرم کر صدقہ ،سیدن پیر بخاری دا بہاء الدین نقشبند پیارا،دوجگ وچہ تیرا چمکارا بخش جنابوں پاک نظارہ ،صدقہ ذات پیاری دا یا کریم ،کرم کر صدقہ ،سیدن پیر بخاری دا محمد زاہد مرد حضوری ،تیری ولیاں وچہ مشہوری پاک جمال دکھائو نوری ،تن من تیں تھوں واری یا کریم ،کرم کر صدقہ ،سیدن پیر بخاری دا پیر امکنکی در یگانہ ،دردمنداں دا کر خصمانہ تو داتاوچہ دوہاںجہاناں،دیہہ دارو بیماری دا یا کریم ،کرم کر صدقہ ،سیدن پیر بخاری دا حضرت خواجہ باقی باللہ ،کر امداد میری بس للہ لکھ واری کر کے بسم اللہ،تیرا نا م پکاری دا یا کریم ،کرم کر صدقہ ،سیدن پیر بخاری دا خواجہ محمد نقشبند ثانی ،الا اللہ دی لایو کانی قلب سیاہ ہووے نورانی ،جیوں سورج چمکاری دا یا کریم ،کرم کر صدقہ ،سیدن پیر بخاری دا حضرت خواجہ شاہ عبداللہ ،شان تیری جانے خلق اللہ اللہ ہو اللہ ہوا للہ ،توں صاحب دستاری دا یا کریم ،کرم کر صدقہ ،سیدن پیر بخاری دا خواجہ حضرت شاہ محمد ،کریو پاک نگاہ محمد چاہیے وچہ درگاہ محمد،میرا نام شماری دا یا کریم ،کرم کر صدقہ ،سیدن پیر بخاری دا حضرت شیخ عبداللہ صاحب،تو ہیں پاک نبی ۖدا نائب کریو حضرت دور مصائب ،اس اپنے بکھیاری دا یا کریم ،کرم کر صدقہ ،سیدن پیر بخاری دا ہادی فضل احمد سچیارا،چاہاں ہر دم فضل تمہارا ورت حضوروں پاک بھنڈارا،نوری خلعت بھاری دا یا کریم ،کرم کر صدقہ ،سیدن پیر بخاری دا خدا بخش دیسی تقصیراں ،صدقہ پیر خواجہ سر پیراں انشاء اللہ دامنگیراں،کجسی کرم غفاری دا یا کریم ،کرم کر صدقہ ،سیدن پیر بخاری دا دوجگ اندر عین وسیلہ ،میرا سیدن پاک رنگیلہ حاصل جس نوں شرف جمیلہ ،ولیاں وچہ مختاری دا یا کریم ،کرم کر صدقہ ،سیدن پیر بخاری دا مہر علی شاہ قبلہ عالی،عرض کرے مسکین سوالی پایو خیر نہ ٹوروخالی ،سگ اپنی جد ساری دا یا کریم ،کرم کر صدقہ ،سیدن پیر بخاری دا میں درویش غریب نماناں،عاجز ہو کے آکُرلانا لطفوں خیر کرم دا پانا ،دردمنداں دی یاری دا یا کریم ،کرم کر صدقہ ،سیدن پیر بخاری دا سن کے میریاں کوک دہائیاں ،مہر کریں مہراں دیاسائیاں جلے ہمیش کرن بھلیائیاں ،پھر مندیاں نوں تاری دا یا کریم ،کرم کر صدقہ ،سیدن پیر بخاری دا زیور بخشو نورایماں دا،صدقہ غوث قطب نبیاں دا صدقہ خواجہ نقشبنداں دا،دان ملے دلداری دا یا کریم ،کرم کر صدقہ ،سیدن پیر بخاری دا کرے آزاد ملنگ دعائیں ،یارب ہر اک مومن تائیں وقت نزع دے یاد کرائیں ،کلمہ آخر واری دا یا کریم ،کرم کر صدقہ ،سیدن پیر بخاری دا اقتباسات گلزار بخاری مطبوعہ جنور ی ١٩٣٥ از مداح ِآل ِیاسین ،سائیں آزاد علی بھیروی،محلہ نمدے گراں ضلع شاہ پور
Allama Ata Muhammad
تحریر: شیخ عوام علامہ عطا محمد قادری غفاری چیئرمین پاکستان علما کائونسل، اسلام آباد