تحریر: صاحبزادہ مفتی نعمان قادر مصطفائی یوں تو اس کائنات میں کروڑوں انسان آئے اور چلے گئے مگر بعض نفوسِ قُدسیہ ایسے ہوتے ہیں جن کے چلے جانے کے بعد ایسا خلا پیدا ہوتا ہے جس کا صدیوں تک پُر ہونا ممکن نظر نہیں آتا۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
انہی یگانہ روزگار ہستیوں میں ایک ہستی حضور پُرنور فیض ِگنجور پیر سید محمد علی شاہ جعفری سبزواری سرحمتہ اللہ علیہ تھے بلاشبہ آپ ان بزرگوں، ہادیوں اور راہبروں میں سے ہیں جن کی عقیدت کے پرچم آج بھی لوگوں کے سروں پر ہی نہیں بلکہ دلوں میں بھی لہرارہے ہیں۔
وئے صورتیں الٰہی کس دیس بستی ہیں اب جن کے دیکھنے کو آنکھیں ترستی ہیں
آپ روحانیت کے آفتاب، تقوی و پرہیز گاری کا جیتا جاگتا ثبوت، عجز و انکساری کا پیکر، لطف و کرم کا مجسمہ، علم و عمل کا روشن مینار تھے جو ہمیشہ کے لئے ہمیں داغِ مفارقت دے کر عالمِ فنا کو چھوڑ کر عالمِ بقا کی طرف نقل مکانی فرما گئے وہ کتنے پیارے محبوب تھے جو چلے گئے۔
وہ دکھا کے رخ جو چل دیئے دل ان کیساتھ رواں ہوا نہ وہ دل رہا نہ دل ربا رہی زندگی سو وبال ہے
قبلہ حضور پیر سید محمد علی شاہ جعفریاپنے زمانے کے عارف کامل اور شہبازِ ولایت تھے سلوک و معرفت کے میدان میں شاہسوار اور مملکت ِطریقت کے شہریار تھے آپ طریقت کے بلند مقام پر فائز تھے شاداب ہے جن کی برکت سے طریقت کا چمن آپ کی چھوٹوں پر شفقت، ہر کسی پر رافت اور غیروں پر محبت لٹانے کا عمل، دل کو موہ لینے کا اندازِ گفتگو، لہجے میں نرمی و مٹھاس، چہرے پر شفقت آمیز روشنی، رُخِ انور پر تلاوتِ قرآن کی بہار، وعظ و نصیحت پر شگفتہ بیانی اور معتدل ظرافت آپ کے اخلاقِ کریمانہ کے زندہ ثبوت ہیں،جب کلام فرماتے تو رنگا رنگ پھول جھڑتے۔
یوں مسکرائے جان سی کلیوں میں پڑ گئی یوں لب کشا ہوئے کہ گلستان بنا دیا
یہ بوریا نشین مردِ کامل کتنے کریم تھے، فیوض و برکات کے خزانے لٹاتے، عیب پوشی فرماتے ہم سیاہ کاروں کو گلے لگاتے ،کرم پہ کر م فرماتے، دُکھیوں کے دکھ دور فرماتے، مریدوں کی بگڑی بناتے، عقیدت مندوں کے کام سنوارتے، سلسلہ طریقت کا حُسن نِکھارتے اچانک ہماری نظروں سے اوجھل ہوگئے ،وہ چاند بدلیوں میں چھپ گیا جس کی پربہار چاندنی اور وہ سورج غروب ہوگیا جس کی پروقار روشنی آفاق ِعالم طریقت کو تابندہ اور درخشندہ کررہی تھی وہ محبوب جو زندگی کا قرار تھا روحوں کی غذا جس کا دیدار تھا اور ہم شکستہ دلوں کی بہار تھا اس محبوب نے ہم سے کیوں پردہ فرما لیا ہماری بے تاب نگاہوں سے کیوں منہ چھپالیا بقول پیر نصیر الدین نصیر گولڑوی رحمتہ اللہ علیہ۔۔
مطلب یہ ہے کہ اور ہو حیران چشم شوق پردے میں چھپ گیا ہے کوئی مسکراکے یوں
یادوں کے چراغ محبت کے حوالے سے ہی پہچانے جاتے ہیں جب کسی سے پیار ہوتا ہے اس کے اطوار و اخلاق کو محبت ہی سے جانچا جاتا ہے دل میں بٹھایا جاتا ہے پھر انس بڑھتا ہے پیار کی لگن ابھرتی ہے دل میں ایک مقام پیدا ہوتا ہے آہستہ آہستہ اسی کا ہوجاتا ہے۔ ”من احب شیأً اکثر ذکرہ” جس سے آدمی کو محبت ہوتی ہے اکثر اسی کا ذکر کرتا ہے ہم کو پسند یار کی بانکی ادا لگی وہ ہمارے کریم، شفیق اور مہربان تھے مونس و غم خوار تھے دیدار کراتے دل موہ لیتے بقول محسنِ اہلسنت قبلہ پیر محمد اسلم شہزاد قادری دامت بر کاتہم العالیہ ”جب بھی آپ کی خدمت عالیہ میں کسی کو بھی حاضری کا شرف نصیب ہوتا دلی سکون نصیب ہوتا عقیدت مند دور دراز سے سفر کرکے حاضر ہوتے تو قبلہ شاہ جی رحمتہ اللہ علیہ کا پوچھتے پوچھتے دیوانے بن جاتے جب تک دولت دیدار سے مالا مال نہ ہوتے طبیعت بے چین رہتی” پیرو مرشد کا نام مبارک لبوں پر جاری رہتا اور جب دیدار ہوتا، دل کو قرار ہوتا، تھکن دور ہوتی، روح مسرور ہوتی، جان کو جان ملتی اور ایمان کی چاشنی میسر آتی، ہر عقیدت مند یہی سمجھتا کہ سب سے زیادہ مجھ سے ہی پیار ہے، سب سے زیادہ مجھ ہی پر کرم ہے۔
حدیث شریف میں ہے کہ” ولی کی نشانی یہ ہے کہ جس کو دیکھنے سے اللہ یاد آجائے آپ کی زیارت باسعادت اس حدیث کی تفسیر بن جاتی۔ آپ کے حسن و جمال کی تجلیاں اب بھی نگاہوں میں تیر رہی ہیں انوارِ ربانی چہرہ انور میں چمکتے تھے بقول پیر نصیر الدین نصیر گولڑوی رحمتہ اللہ علیہ۔۔۔
جلوئوں نے تیرے دی ہے دل و جاں کو وہ رونق دیدار کی حسرت کا مزا یاد کریں گے
کہنے والے کہتے اور لکھنے والے لکھتے ہیں کہ وہ وقت یاد آتا ہے جب آپ قرآن کریم کی تلاوت شروع فرماتے تو دل معطر و معنبر ہوجاتے عجیب اتفاق ہوتا کہ لوگ آپ کی زیارت بھی کرتے اور تلاوت بھی سنتے۔۔۔
جی چاہتا ہے قدرت صانع پر ہوں نثار تجھ کو بٹھا کے سامنے یادِ خدا کروں اسی بات کو ایک اور مردِ درویش نے یوں بیان کیا ہے کہ میں نیواں میرا مرشد اُچا اُچیاں دے سنگ لائی صدقے جاواں اِنہاں اُچیاں توں جنہاں نیویاں نال نبھائی مرشد دا احسان میرے تے غم دور کرے محتاجاں ایتھے اوتھے دو ہیں جائیں سوہنے نوں لاجاں
آپ کا اصل وطن کاکڑہ شریف (پٹیالہ )بھارت ہے وہاں سے آپ ہجرت فر ما کر پاجیاں رایئونڈ روڈ لاہور تشریف لائے ،پاجیاں میں ایسی بیماری پھیلی کہ لوگوں کے جانور کثرت سے مر رہے تھے جب آپ تک یہ خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا کہ یہ پانی دم کیا ہوا ہے جا کر جانورو کو پلا دو انشا ء اللہ تعالی ٰ اپنے حبیب کریم ۖ کے صدقے کرم فرمائے گا پھر ایسا ہی ہوا کہ جونہی پانی پلایا گیا وہ بیماری دور ہو گئی اس طرح دور دور تک آپ کی کرامت کی یہ خبر پھیل گئی اور لوگ جوق در جوق حاضر ہو نے لگے اب ہر شخص سوا کلو گندم بطور نذرانہ پیش کرتا اور اس طرح ٹنوں کے حساب سے گندم اکٹھی ہو جاتی اور آپ وہ ساری گندم غریبوں میں تقسیم فر ما دیا کرتے تھے آپ نجیب الطرفین سید تھے یعنی حسنی حسینی سید تھے آپ کے بڑا مانانوالہ میں مُرید کثرت سے تھے اور وہاں کی کمبوہ برادری کی کثیر تعداد آپ کے حلقہ ارادت میں شامل تھی اس وجہ سے آپ کا مزار مبارک وہی پر بنایاگیا جب آپ کا جنازہ لے کر جا رہے تھے تو بادل مسلسل آپ پر سایہ کیے رہے ،سات سال کے بعد جب آپ کی قبر کشائی کی گئی اور آپ کا تابوت باہر رکھا گیا تو ہزاروں لوگوں نے یہ منظر دیکھا کہ کہ آپ کے تابوت کے ساتھ لگے کیل کو بھی ذرا بھر زنگ نہیں لگا ہوا تھا اور آپ کا چہرہ چمک رہا تھا اور عجیب بھینی بھینی خوشبو نے پورے ماحول کو معطر کیا ہوا تھا۔
عالمِ انسانیت کا سب سے بڑااورا ہم مسئلہ بلکہ فریضہ یہ ہے کہ اعلیٰ اقدار اور بہترین اخلاق وعادات کی زیادہ سے زیادہ ترویج اور نشرواشاعت کی جائے اس کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں انسانی اخلاق و اقدار کے بہترین عملی نمونے دنیا کے سامنے پیش کئے جائیںاس موضوع پر زیادہ سے زیادہ کتابیں لکھی اور شائع کی جائیں اور معلوم انسانی تاریخ میں اعلیٰ اخلاق و اوصاف کے حامل اوران کے پیامبروں کی مبارک زندگیوں کے حالات وواقعات کی نشرواشاعت کی جائے ،ابتدائے آفرینش سے دنیا ئے انسانیت دو عظیم مسئلوں سے دوچار ہے ہر چند حضرت انسان نے ہواؤں کو مسخر کرلیا چاند اس کا معمولی شکار قرار پاگیا ہے مگر یہ دو مسائل اپنی شدت اوراہمیت کے اعتبار سے گھٹنے کی بجائے برابر بڑھ رہے ہیں یہ مسائل ہیں بھوک اورافلاس سے عدم تحفظ اورامن وآشتی کی آرزو، ہردور کا انسان کبھی اپنے طورپر اور کبھی آسمانی ہدایت کی روشنی میں برابر ان مسائل کے حل کے لئے کوشاں رہا ہے پوری طرح مطمئن نہ ہو کر وہ مغرب کی سائنس اور ٹیکنالوجی کی طرف دیوانہ وار لپکا کہ شاید اسے اپنے درد کا شافی درماں یہیں سے مل سکے لیکن افسوس کہ اس کا یہ خواب بھی سراب ثابت ہوا ایک صدی کے تلخ تجربات نے اسے آج یہ سوچنے پرمجبور کر دیا ہے کہ انسانی جسم کی سہولت او روقتی فائدے کی خاطر سائنس نے بلاشبہ بہت مفید ایجادات اور اضافے کئے ہیں تاہم انسانیت کو اس کی حقیقی منزل جو یقینا امن و آشتی اور انسانی بنیادی ضروریات کے ساتھ ساتھ ایک ہمدرد ،غمگسار، خیرخواہ اورجنت نظیرمعاشرے سے کوسوں دور کر دیا ہے۔
Mazar Mubarak
آج کا انسان جہاں اخلاقی اور روحانی اعتبار سے وحشی دور کو بھی پیچھے چھوڑ گیاہے ٹھیک وہاں اس نے اپنے آپ کو مادی اعتبار سے بھی تباہی وبربادی کے نشانے پر لاکھڑا کیاہے ،اس دردناک صورتحال نے پوری دنیاکے مفکرین کوسوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ غالباً انسانی زندگی کے طوفان کے آگے بند باندھنے یااس کا رخ موڑنے کے لئے مذہب اور عقیدے سے زیادہ موثر ومفید اور کوئی ذریعہ نہیں ہے یہی وہ طاقت ہے کہ اسے رہنما بنا کرانسانی زندگی کی حقیقی منزل تک پیش رفت کی جاسکتی ہے اسکے سوا دوسرے تمام راستے نہ صرف یہ کہ اصل منزل تک پہنچنے کے لئے مسدود ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ دوسرے تمام راستے اصل منزل سے مزید دوری کا سبب ثابت ہوئے ہیں اور ہورہے ہیں ظاہر ہے کہ ان حالات میں وہی نظریہ تمام دکھوں کاعلا ج ثابت ہوسکتا ہے جس میں ماؤ شما کی تمیز نہ ہو، کالے گورے اورعربی عجمی میں تفریق کاروادار نہ ہو جس میں شاہ وگدا ،ا میر وغریب برابر اور شانہ بشانہ کھڑے ہوںجو الخلق عیال اللّٰہ (ساری مخلوق اللہ کاکنبہ ہے )کاعالمگیر نظریہ پیش کر کے دنیائے انسانیت کو ایک ہی گھرانے اور کنبے کے افراد قرار دیتاہو ، جہاں ایک فرد کے پاؤں میں کانٹا چبھے تو اس کی کسک سارا خاندان محسوس کرتاہو گویا۔۔۔۔
خنجر چلے کسی پے تڑپتے ہیں ہم امیر سارے جہاں کا در د ہمارے جگر میں ہے حضرت سعدی کے الفاظ میں صورت حال کچھ یوں ہے بنی آدم اعضائے یکدیگر اند کہ در آفرینش زیک جوہر اند چوں عضو بدرد آورد روزگار دگر عضوہا را نماند قرار
یہ آفاقی نظریہ اسلام نے پیش کیاسرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا معاشرہ قائم فرمایا جسے چودہ سوسالہ تاریخ اسلام میں ہر دور کے صوفیاء اور فقراء نے اپنے عمل وکردار سے اسے زندہ تابندہ رکھا ،حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمة اللہ علیہ کے یہ الفاظ ہمارے اسی مثالی طرزِ حیات کاتعارف کراتے ہیں آپ نے فرمایا: یکے خار نہد تو ہم خار نہی ایں دنیا خار خار باشد … میان مردماں ہم چنین است کہ بانغزاں نغزای باکوزاں کوزای اما میان درویشاں ہم چنین نیست کہ با نغزاں نغزیٰ باکوزاں ہم نغزی ١ ”اگر کوئی کانٹا رکھے اور تو بھی اس کے بدلے میں کانٹا رکھے تو کانٹے ہی کانٹے ہو جائیں گے عام لوگوں کا دستور تو یہ ہے کہ اچھے کے ساتھ اچھا اور برے کے ساتھ برا پیش آتے ہیں مگر درویشوں کا دستوریہ نہیں ہے یہاں نیک و بد دونوں کے ساتھ نیک ہونا چاہیے۔” مشائخ کرام کے د ستور العمل کا سرمایہ یہ رہا ہے ہر کہ مارا رنجہ داد راحتش بسیار باد ہر کہ مارا یار نبود ایزد اورا یار باد ہر کہ خارمے افگند در راہ مااز دشمنی ہر گلے کز باغ عمرش بشگفد بے خار با
حضرت قبلہ پیر سید محمد علی شاہ جعفری سبز واری رحمة اللہ علیہ نے ایک دفعہ لنگر عالیہ سے متعلق اپنے ایک مرید سے انتہائی درد مندی اور گلو گیر آواز میں فرمایا کہ ”میرے بھائی! بعض اوقات مجھے بھوک ستاتی ہے سب کچھ آپ لوگوں کا ہے اگر میرے پاس کچھ ہو تو میں کچھ چنے لے کر کسی برتن میں رکھ دوں تاکہ بھوک کی صورت میں خود بھی کھائوں اور سفر پر جانے والے درویشوں کو بھی اس میں سے دے دیا کروں ” قبیلہ اولیاء کے سر خیل اور آبروئے مسند تصوف حضرت پیر سید محمد علی شاہ جعفری رحمة اللہ علیہ ایک بے لوث اور بے ریا مردِ درویش تھے آج تک کسی کو بھی آپ کے در سے خالی ہاتھ جاتے نہیں دیکھا گیا آپ نے ہمیشہ بھوک میں مبتلا انسانیت کو پیٹ بھر کر کھانا کھلایا ہے اور آپ کسی بھوکے انسان کو کھانا کھلا کر سکون محسوس کرتے تھے آج بھی آپ کے آستانے پر حاضر ہونے والا لنگر کھائے بغیر نہیں جا سکتا حضرت خواجہ نظام الدین محبوب الٰہی رحمة اللہ علیہ کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ آپ اکثر روزہ سے ہوتے بعض دفعہ سحری کے وقت خواجہ عبد الرحیم (خادم) کھانا لے کر جاتے اور عرض کرتے حضور ! آپ نے افطاری کے وقت بہت ہی کم کھایا تھا سحری کے وقت کچھ تناول نہ فرمائیں تو ضعف بڑھ جائے گا۔ یہ سن کر آپ زارو قطار رونے لگے اور فرمایا۔۔۔۔
”چند یں مسکیناں و درویشاں در کنج ہائے مساجد و گرسنہ و فاقہ زدہ اند ایں طعام در حلق چگونہ فرو رود”
”کتنے مسکین اور درویش مساجد کے کونوں اور بازاروں میں بھوکے پڑے ہوئے ہیں بھلایہ کھانا میرے حلق سے کیوں کر اُتر سکتا ہے” ایک انسان کو بہتر انسان بنانا، اسے تمام اخلاقی صفات سے آراستہ کرنا، اسے خدمت گزار ، ہمدرد ، رضا کار، خدا ترس، جفا کش ، بردبار ، ایثارپیشہ ، نرم دل اور نرم خو بنانا ایسا آسان کام نہیں جو چٹکیوں میں کر لیا جائے قارئین سے مخفی نہیں کہ انسان کو سکھانا اور سدھانے سانپ کا سکھلانے سدھانے سے کہیں مشکل ہے، اس لئے ضروت تھی کہ بڑے بڑے ادارے ہوں جہاں انسان کو انسان بنانے کی عملی تربیت گاہیں قائم ہوں کیونکہ آدمی کو بھی میسر نہیں انسان ہونا” یہ اسلام کا اعجاز ہے کہ جب تک اس کی حکومتیں مثالی (خلافت راشدہ) رہیں تو یہ حکومتیں اس عظیم الشان کام کے خود بڑے ذمہ دار ادارے کی حیثیت رکھتی تھیں مگر جونہی یہ مثالی حکومتیں ختم ہوئیں اور بادشاہوں کے پاس منتقل ہو گئیں تو اسلام کے ان اعلیٰ اخلاقی اور روحانی اداروں کی سنبھال اور دیکھ بھال کے لئے ہزاروں کی تعداد میں صوفیاء اور مشائخ میدانِ عمل میں نکل آئے انہوں نے دنیا کے گوشے گوشے میں اپنی خانقاہیں قائم کر لیں، اپنی بے نفسی، منکسر مزاجی اور فکر و عمل کی پاکیزگی کے ذریعے انسانیت کی خدمت میں مصروف ہو گئے، اگر ہمارے پاس تصوف اور روحانیت کا یہ عظیم الشان ادراہ نہ ہوتا تو جہاں اسلام (معاذ اللہ) اپنی کشش کھو چکا ہوتا، وہاں دنیا بھی کب کی نفسانیت ہوا و حرص، چھینا جھپٹی اور زر پرستی کے اندھیروں میں مبتلا ہوکر اپنی حقیقی منزل کا نشان گم کر چکی ہوتی اور کچھ عجب نہیں کہ بے شمار علاقوں سے اقتدار کے خاتمے کے بعد مسلمان اپنا بستر بوریا لپیٹ چکے ہوتے تصوف کیا ہے؟
اسلام کے عمل پہلو تزکیہ نفس اور تصفیہ اخلاق کا نام تصوف ہے۔ سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بعثت مبارکہ کا مقصد یہ بیان فرمایاہے ارشاد ہوا۔
بعثت لاتمم مکارم الاخلاق میں اخلاقی محاسن کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہوں۔
اخلاقی زندگی کے دورخ ہیں۔ ایک انسان کا دوسرے انسان سے بہتر رشتہ ،اور دوسرے انسان کا اپنے خالقِ حقیقی سے بہتر رشتہ ، ان دونوں رشتہ کے حقوق کی بہتر ادائیگی کا نام تصوف ہے۔حضرت اما م غزالی رحمة اللہ علیہ نے مختلف علوم و فنون میں کمال حاصل کرنے اور انہیں چھاننے کھنگالنے کے بعد فرمایا”صوفیا ئے کرام با لخصوص اللہ تعا لیٰ کے راستے پر چلنے والے ہیں ان کی سیرت سب سے اچھی، ان کا راستہ سب سے سیدھا، ان کے اخلاق بہترین اخلاق ہیں، اگر سارے دانشمندوں کی عقل، فلسفیوں کا فلسفہ اور شریعت کے رموز جاننے والے علماء کا علم جمع کر لیا جائے تا کہ ان کی سیرت یا اخلاق میں کچھ تبدیلی کر دیں یا اسے بہتر چیز سے بدل دیں تو انہیں اس کی گنجائش نہیں ملے گی، اس لئے کہ ان کے تمام حرکات و سکنات ظاہر وباطن میں نورِ نبوت کے چراغ سے ماخوذ ہیں اور روئے زمین پر نبوت کے سوا کوئی نور نہیں ہے جس سے روشنی حاصل کی جا سکتی ہو” ابو الحسین نوری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
التصوف ترک کل حظ للنفس۔ ”تصوف نفس کی تمام خواہشات چھوڑنے کا نام ہے۔” ہمیں حیرت ہے کہ ہمارے بعض جدید قسم کے مفکرین، صوفیاء کے اندازِ تبلیغ پر نکتہ چینی کرتے نہیں تھکتے آخر وہ کیوں نہیں سوچتے کہ با لفرض بقول آپ کے صوفیاء کی یہ اپاہج تبلیغ بھی نہ ہوتی تو برِ صیغر میں آپ کی پوزیشن کیا ہوتی؟ اور کیا برابری کی بیناد پر کسی قسم کی گفتگو کرنے کے آپ اہل بھی ہوتے؟ ہمیں یہ بات تسلیم ہے کہ تصوف کے راستے کچھ خرابیاں آئیں مگر ہمارے پاس اساطین صوفیاء کی مدون کردہ اصول و فروع پر بے شمار بنیادی کتابیں موجود ہیں جن کی روشنی میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کیا جا سکتا ہے۔
آج قبلہ شاہ جی رحمة اللہ علیہ کے سالانہ عرس پر حاضری کی سعادت حاصل کرنے والے عقیدتمندوں سے گزارش ہے کہ وہ اُن تعلیمات کو ورد ِ زبان اور حرزِ جاں بنالیں جو صاحب ِ مزار نے ہمارے لیے چھوڑی ہیں عرس مبارک میں ملک بھر سے اہل اسلام تشریف لاتے ہیں جن میں ملک کے قریہ قریہ سے معروف مشائخ عظام ، نامور علماء کرام ، دانشور ، کالم نگار ، ادیب ،پروفیسرز ، ڈاکٹرز انجنیئرز شامل ہیں عرس مبارک کے پر نور لمحوں اور با برکت ساعتوں کو اپنے دامن میں سمیٹتے ہوئے اپنے اپنے انداز ِ عقیدت میں حضورقبلہ شاہ جی رحمة اللہ علیہ کی خوبصورت اور نیک سیرت شخصیت کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں ، پر نور اور با وقار تقریب ِ سعید میں سکالرز اور دانشور حضرات پر مغز گفتگو بھی فرماتے ہیں اور طلبہ میں حصول علم کا جذبہ پیدا کرنے پر بھی زور دیتے ہیں ہہجری سال کا چھٹا مہینہ جما دی الثانی میں ہند ،سندھ،پنجاب تے ماڑ اور سُنج ،بر تے شہر ،بازار سے سارے کارواں ،سب قافلے ،سب راستے بڑا مانانوالہ کی عظیم درگاہ کی طرف جاتے ہوئے نظر آرہے ہوتے ہیں ہر پیرو جواںاور مردو زناں کی زبان پرایک ہی آفاقی نعرہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کاورد ہوتا ہے اور محبانِ اولیاء اپنے کریم مُرشد کی محبت اپنے من میں سجائے کشاں کشاں چلے آتے ہیں ان سب کی نگاہوں کا مرکزاور محور درگاہ شریف ہوتی ہے جہاں پر صبح و مسا ء انوار و تجلیات کی بارش کانزول ہوتاہے قبلہ پیر سید محمد علی شاہ جعفری سبزواری رحمة اللہ علیہ کا سالانہ عرس مبارک پر تو روحانی و نورانی مناظر قابل ِدید ہوتے ہیں درگاہ شریف ہزاروں زائرین سے چھلک رہی ہوتی ہے ،مہانوںکا استقبال کرنے ،پارکنگ، راہنمائی، معاونت اور خدمت کے لیے درگا ہ شریف کے خادمین جو دن رات 24گھنٹے ہمہ وقت چوکس نظر آرہے ہوتے ہیں۔
امورروابط عمومی،امور ِکفشداری(جوتوں کی نگہداشت )،امورِ اتظامی و آگہی،امورِامانات ونگہداری اشیائے گمشدہ ،ادارہ امدادزائر ین داخلی ،ادارہ مہمان سرائے وغیرہ شامل ہیں جو زائرین کی خدمت کو فرض کے درجہ پر رکھتے ہیںدرگاہ عالیہ سے متعلق مختلف قسم کی خدمات اور زائرین کی ضروریات کے انتظام کی ہمہ گیری اور وسعت کا اندازہ درج بالا شعبوں سے ہی ہو جاتا ہے جب زائرین کی تعداد ہزاروں میں ہو اور ان میں سندھی ، سرائیکی ، پنجابی ، بلوچی ، پشتون مردو زن اور ہر عمر اور پیشے کے لوگ ہوں تو ان کو کیسی ضرورتیں اور کتنی مشکلات پیش آتی ہیں۔۔۔۔۔؟مگر درگاہ شریف کا حُسن انتظام دیکھ کر دل باغ باغ ہوگیا۔۔۔۔۔۔ درگاہشریف کا حُسنِ انتظام دیکھ کر قبلہ پیر سید کاظم حسین شاہ قادری سبزواری دامت بر کاتہم العالیہ (سجادہ نشین )کی علم دوستی کی جھلک نظر آتی ہے۔
Mazar Mubarak
تحریر: صاحبزادہ مفتی نعمان قادر مصطفائی بانی و مرکزی امیر تحریک منہاج الرسول ۖ پاکستان ، مرکزی خطیب جامع مسجد مدینہ شریف ، اعوان ٹائون لاہور