تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی میری آنکھیں حیرت سے پھیلیں ‘منہ کھلا اور سانسیں جام ہونے لگیں ‘میں نے بے یقینی کے عالم میں سامنے بیٹھی بوڑھی ماں کو دیکھا ‘میرے سوالیہ انداز پر اس نے پھر اپنا سوال دہرایا کہ کسی قاتل اور خودکشی کرنے والے کو معافی مل سکتی ہے ‘خودکشی واقعی حر ام ہے ‘میرے اعصاب جو بوڑھی عورت کے سوال پر بکھر گئے تھے ‘اب آہستہ آہستہ نارمل ہونا شروع ہو گئے تھے لیکن میرے چہرے اور آنکھوں میں ابھی بھی حیران کن سوالیہ تاثرات تیر رہے تھے ‘بوڑھی ماں کی آنکھوں میں نمی واضح نظر آرہی تھی و ہ کسی بہت بڑے کرب سے گزر رہی تھی ‘دکھ درد کرب اس کی روح کو گھائل کر رہا تھا کرب کی شدت نے اس کے چہرے پر موت کی زردی طاری ہوئی تھی وہ کسی بہت ہی جان لیوا حادثے یا غم سے گزری تھی وہ سکون اور سہارے کی تلاش میں دربدر ٹھوکریں کھاتی میرے پاس آگئی تھی وہ پل پل موت کی اذیت سے گزر رہی تھی وہ امید کی کرن کی تلاش میں تھی ‘میں شفیق نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا ‘میرے سوال کرنے پر اس نے اپنا غم میرے سامنے ہلکا کیا۔
میں اپنے خاوند بیوی بچوں کے ساتھ نہایت خوشگوار زندگی گزار رہی تھی اللہ تعالی نے مجھے چاند سی دو بیٹیاں عطا کی تھیں میں اور میرا خاوند اپنی بیٹیوں سے بے پناہ محبت کرتے تھے ہمیں کبھی بھی بیٹے کی کمی کا احساس نہ ہوا ‘میرے میاں سرکاری جاب کرتے تھے ہم نے اپنی بیٹیوں کی خوب اچھے طریقے پرورش کی ان کو اعلیٰ تعلیم دلوائی جب بڑی بیٹی تعلیم سے فارغ ہوئی تو اس کے رشتے کی بھاگ دوڑ شروع کر دی ،دو چار رشتے دیکھنے کے بعد ہمیں ایک لڑکا پسند آیا ہم بات پکی کرنے والے تھے کہ ہمیں کسی نے لڑکے کے کردار کے بارے میں ٹھوس ثبوت دیئے کہ وہ شرابی زانی ہے لہٰذا ہم نے رشتے سے انکار کر دیا ‘ہم سے غلطی یہ ہوئی کہ ہم نے لڑکے والوں کو بتا دیا کہ آپ کے لڑکے کے بارے میں اچھی اطلاعات نہیں ہیں ‘اس کے برے کردار کی وجہ سے ہم یہ رشتہ نہیں کر سکتے اس بات کا پتہ جب لڑکے کو چلا تو وہ بہت آگ بگولہ ہوا ہمارے گھر آکر خوب اونچی آواز میں بولا کہ کس نے آپ کو میرے بارے میں غلط خبریں دیں ‘اس کی بدتمیزی کے باوجود ہم نے اس کو شائستگی سے واپس بھیج دیا لیکن لڑکے نے اس کو اپنی توہین سمجھا۔
سازشوں کے تحت چند دن بعد ہی بھیگی بلی بنا شریف لڑکوں کی طرح نظریں جھکائے اپنے والدین کے ساتھ ہمارے دروازے پر تھا ‘اب لڑکے اوراس کے ماں باپ نے ہاتھ جوڑ کر رو رو کر ہم سے معافی مانگی کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے کچھ لوگ ہمیں رشتہ دینا چاہتے تھے جب ہم نے نہیں لیا تو وہ ہمارے خلاف باتیں کر رہے ہیں۔انہوں نے ہم سے خوب معافیاں مانگیں ‘اچھے رویئے کا یقین دلایا ہر قسم کی گارنٹی دینے کی کوشش کی ‘ہم نے انہیں ٹال دیا لیکن انہوں نے بار بار ہمارے گھر آنا شروع کر دیا،مختلف لوگوں کو ضمانتی اور سفارشی بنا کر لائے گئے کہ آخر ہم نے ان کی شرافت پر یقین کر لیا اور ہاں کر دی ‘یہی ہماری زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی کیونکہ لڑکا سازش کر رہا تھا اس لئے بہت محبت کا اظہار کر دیا تھا ‘آخر شادی ہو گئی اور ہمار ی بیٹی اس ظالم کے گھر دلہن بن کر چلی گئی ‘داماد انتہائی شاطر اور چالاک تھا اس وقت کا انتظار کرتا رہا جب تک ہماری بیٹی حاملہ نہیں ہوگئی ‘اب آہستہ آہستہ وہ اپنے اصل روپ میں سامنے آیا اور گاڑی کی ڈیمانڈ کر دی ‘ہم نے قرض اٹھا کر بیٹی کو گاڑی لے دی چند دن بعد ہی اس کا دوسرا مطالبہ سامنے یہ آیا کہ اس نے بنک سے قرضہ لینا ہے ا س لئے ہم اپنا مکان اس کے نام کر دیں ‘ہم نے جب انکار کیا تو شیطان اپنے اصل روپ کھل کر سامنے آگیااب اس نے سرعام ہماری بیٹی کے سامنے شراب نوشی شروع کر دی، شراب نوشی کے بعد گالی گلوچ کرنا ‘جب بیٹی نے احتجاج کیا تو بے دردی سے مارنا شروع کر دیا ‘ہم میاں بیوی نے دبے لفظوں میں جب اعتراض کیا تو ہماری بھی بے عزتی شروع کر دی کہ یہ ہمارا میاں بیوی کا معاملہ ہے کسی کو اس میں دخل اندازی کی ضرورت نہیں ہے ‘اب ہم نے ظالم کی خوشامد شروع کر دی ‘اس کی ضرورتیں پوری کرنے لگے ‘اب اس نے بیٹی پر ظلم کے پہاڑ توڑنا شروع کر دیئے ‘رات کو شراب پی کر پستول نکال کر گولیاں بھر کر بیٹی سے کہتاہاتھ اٹھا کر کھڑی ہو جائو کبھی کہتا سکول میں طالب علموں کی طرح کان پکڑ کر جھک جائو اگر بیٹی شکوہ کرتی تو پستول اس کی کنپٹی پر رکھ کر گولی چلانے کی دھمکی دیتا ‘ساتھ ساتھ بیٹی سے کہتا کہ میری شکایت اگر کسی کو لگائی تو تمہارے ماں باپ اور بہن کو گولی ماردوں گا ‘اس کے اس ظلم میں اس کی ماں بھی شامل ہوگئی ‘جانوروں کی طرح سارے گھر کے کام کاج کرواتی،واش روم میں گندگی پھیلا کر جان بوجھ کر صفائی پر مجبور کرتی ‘بیٹی مسلسل ان کے ظلم برداشت کرتی جا رہی تھی ‘تنگ آکر جب اس نے ہمیں بتایا تو ہم میاں بیوی ان کے گھر گئے ‘جا کر دبے لفظوں میں احتجاج کرنا چاہا تو انہوں نے الٹا ہماری بے عزتی اور ذلیل کرنا شروع کر دیا۔
ہم میاں بیوی نے ان کے گھر کی عدالت میں ہاتھ جوڑ دیئے ‘اس کی ماں کے پائوں پکڑ لے کہ ہماری بیٹی پر ظلم نہ کرے لیکن وہ الٹا ہماری ہی بیٹی کا قصورنکال رہے تھے ہم تھک کر گھر آگئے ‘ہماری بیٹی کو وہ مسلسل بلیک میل کرتا جا رہا تھا کہ اگر تم روٹھ کر گئی یا طلاق لینے کی کوشش کی تو تمہیں اور تمہارے ماں باپ کو مار دوںگا۔سرعام بیٹی کے سامنے اپنی دوست لڑکیوں سے گپیں مارتا’اگر بیٹی اعتراض کرتی تو اس کو جانوروں کی طرح بے دردی سے مارنا شروع کر دیتا اب بیٹی اس سے اتنا ڈر گئی تھی کہ چپ چاپ اس کے ظلم سہتی رہی کہ کہیں میرے ماں باپ کو مارنہ دے اب پھر وہ مکان کا تقاضہ کر رہا تھا جب ہم نے انکار کیا تو وہ زبردستی ہمارے گھر آکر رہنا شروع ہوگیا اس طرح وہ اپنا قبضہ کرنا چاہتا تھا ‘اب نیچے ہم تھے اوپر والے فلور پر وہ رہتا تھا ہم اس ظالم کے قیدی بن چکے تھے ‘ہم بے بس پرندوں کی طرح اس کے ظلم اور خوف کے پنجرے میں بند زندگی گزارنے پر مجبور تھے ‘پھر اس نے اپنی شیطانی حرکت کی شیطان بھی کانپ اٹھے ایک دن ہم میاں بیوی ڈاکٹر پاس گئے ہوئے تھے اس نے ہماری چھوٹی بیٹی کو کمرے میں بلایا اس کے ساتھ دست درازی شروع کر دی ‘چھوٹی بیٹی نے مدد کیلئے چیخ وپکار کی تو بڑی بیٹی نے آکر چھوٹی بیٹی کو چھڑانے کی کوشش کی ،ظالم نے اسے مارنا شروع کر دیا اور کہا مجھے اپنی بہن کی عزت سے کھیلنے دو تم دونوں بہنیں میری ہو’ میں جس سے مرضی اپنی خواہش پوری کروں ‘جب بیٹی نے روکنا چاہا تو پستول نکال لیا کہ تم کو مار دوں گا پھر پستول رکھ کر چھوٹی بیٹی پر حملہ آور ہوا تو بڑی بیٹی نے اس کا پستول اٹھایا اور گولیاں اس کے سینے میں اتارنے کے بعد اپنی کنپٹی پر بھی گولی چلا دی اور خودکشی کر لی۔محترم قارئین میں بوڑھی ماں تو داستان غم سنا کرچلی گئی لیکن میرے لئے سوچ کی کھڑکی کھول گئی اس لڑکی نے پستول کیوں اٹھایا اس لئے کہ وہ ملکی عدالتی نظام سے مایوس تھی ہر شخص انصاف سے مایوس ہو چکا ہے۔
جب پولیس عدالت اس کی بات نہیں سنے گی تووہ پستول اٹھانے پر مجبور ہو جاتا ہے جب ظالم کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہوگا وہ ظلم کے بعد سرعام پھرے گا تو ہر شخص دو تین ہزار کا پستول خرید کر اپنی عدالت لگا لیتا ہے یہ ہمارے تھانہ کلچر اور عدالتی نظام کی کمزوری ہے کہ جن پر بھی ظلم ہوتا ہے جس کو انصاف نہیں ملتا وہ پستول ہاتھ میں پکڑ لیتا ہے اور خود انصاف کرنے کی کوشش کرتا ہے لوگوں نے پستول کو ہی ہر ظلم زیادتی کاحل سمجھ لیا ہے اگر بیٹی کو پتہ ہوتا کہ مجھے انصاف ملے گا یا ریاست میری اور میرے خاندان کی حفاظت کرے گی تو وہ کبھی بھی پستول نہ اٹھاتی لیکن وہ جانتی تھی کہ ساری عمر لگا کر بھی وہ انصاف نہیں لے پائے گی اسے پتہ تھا پولیس عدالت کے انصاف میں وہ بوڑھی ہو جائے گی انصاف پھر بھی نہیں ملے گا تو اس نے مجبور ہوکر اپنی عدالت لگائی پستول پکڑا مجرم کو گولی ماری ‘شرمندگی اور سزا کے خوف سے بچنے کیلئے خود کو بھی بانجھ معاشرے اور زندگی سے آزاد کر لیا جب تک تمہارا عدالتی نظام انصاف پر مبنی نہیں ہوگا لوگ اپنی عدالت اور پستول سے انصاف سے کرتے رہیں گے۔