سوچتا ہوں کیا مغربی ممالک میں بارشیں نہیں ہوتی ،کبھی اُس دنیا سے یہ خبر نہیں آتی کہ محض دو تین دن کی بارشوں سے سیلاب آئے اور لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے ہزاروں ایکڑ زمین پر کھڑی فصلیں تباہ ہو گئیں ،شاہراہیں بہہ گئی ،کتنے ہی لوگ ڈوب گئے وغیرہ ……مگر پاکستان میں توہر سال سیلاب آتا ہے اور پھر حکومتیں کشکول لئے امداد کی بھیک مانگتی پھرتی ہیں ،میڈیا پر بڑی بڑی شہ سرخیوں کی خبریں چھپتی ہیں ….مگر کبھی یہ نہیں کہا گیا کہ ہر سال پاکستان ہی میں سیلاب کیوں ؟امسال تین چار دن کی بارشوں سے سے ملک میں ہا ہا کار مچی ہے اگر آٹھ دس دن مسلسل بارشیں ہوں پھر تو طوفان نوح آجائے گا اور پھر ….سائنسی زمانہ ہے
دیکھناہے کہ سیلاب ہر سال پاکستان کا مقدر کیوں کیا نصف صدی پہلے اِس خطے میں جسے پنج آب کہتے ہیں بارشیں نہیں تھیں …..پنجآب پانچ دریاؤں کی سرزمین اور پانچوں دریا کشمیر سے نکلتے ہیں ،ستلج،بیاس،راوی،چناب اور جہلم ۔ستلج اور بیاس کے دریا تو اب نام ہیں کہیں پانی نہیں راوی ایک برساتی نالا بن کے رہ گیا صرف جہلم ہے جس میںسال بھر پانی بہتا دکھائی دیتا ہے اور چناب بھی اک بڑانام ہے مگر صرف نام اور اِس میں بھی بار ش ہی کا پانی ہوتا ہے ،دریائے سندھ بھی کشمیر ہی سے نکلتا ہے ہزارہ ڈوژن میں سے گزرتا ہوأ خیر آباد کنڈ کے مقام پر اِس میں دریائے کابل مل جاتا ہے
پھر یہ اٹک خورد کے مقام پر پنجآب میں داخل ہو جاتاہے ،پنج ند کے مقام پر یہ دریا اکٹھے ہوجاتے ہیں، اس سال تو جموں اور سرینگر میں بھی اں طوفانی بارشوں نے تباہی مچائی ہے ،حالانکہ پہاڑی علاقوں میں سیلاب کا سوال ہی نہیں وہاں تو پانی کہیں رکتا ہی نہیں ، لیکن امسال وہاں بھی سیلاب کی خبریں ہیں … مگر پاکستان میں ماہرین جو ملک کی تقدیر بنانے کے دعویدار ہیں اس خطے کی تاریخ دیکھیں اور پھر کوئی منصوبہ بنائیں کہ بارشوں کے پانی سے کیو نکر ملک و عوام کو بچایا جا سکتا ہے ،اِس پر فکر کی ضرورت ہے ناکہ ہر طرف سے یہ آوزیں بھارت کی آبی دشت گردی یا آبی جارحیت کہ بھارت نے پانی چھوڑ دیا ہے
اپنی کوتاہی چھپائی جاتی ہے ، ایک بزعم خویش دانشور نے لکھا کہ یہ سیلاب قدرتی آفت نہیں بلکہ بھارتی آبی جارحیت ہے کہ بھارت نے دریاؤں میں پانی چھوڑ دیا ہے ، سوال یہ نہیں کہ بھارت نے پانی چھوڑ جو پہلے روکے رکھا تھا ،جو ہر سال برسات کے دنوں میں چھوڑ دیا جاتا اور پاکستان کے ہزاروں دیہاتوں کو تباہ کرتا ہوأ گزر جاتا ہے اور ہم واویلا کرتے رہتے ہیں ،کبھی یہ کہتے ہیں بھارت نے تمام پانی روک کر اور کبھی پانی چھوڑ کر …… سوال تو یہ ہے کیا ملک میں ایسا کوئی منصوبہ ساز ادارا نہیں ، اگر ہے یقینا ہوگا ،مگر فائلوں میں کام کرتا ہے ، انہیں کیا خبر کہ اِس زائد پانی نے کیا تباہی مچائی ہے اس کا کوئی منصوبہ بنایا کہ ایسی آ بی جارحیت کا کیا اور کیسا جواب دیا جائے گا،ملک اور قوم کو ایسی تباہی سے کیسے اور کیوںکر بچایا جا سکتا ہے
ایک اور اہم سوال ہے کہ کیا مغرب ایسی بارشیں نہیں ہوتیں،اور اگر ہوتی ہیں تو وہاں سیلاب کیوں نہیںآتے، وہاں اس لئے نہیں آتے کہ منصوبہ سازوں نے پہلے ہی ایسی ناگہانی آفات سے محفوظ رہنے کی منصوبہ بندی کی ہوتی ہے امریکا میں گشتہ برسوں سینڈی سیلاب آیا صرف دو اموات ہوئیں اور دو دن کے بعد حالات معمول تھے بلکہ صدارتی الیکش بھی متاثر نہ ہوئے کیونکہ انہوں نے ایسے غیر معمولی واقعات سے پیدا شدہ صورت حال سے نپٹنے کی پہلے سے تیاری کی ہوتی ہے ورنہ تو جیسے وہاں زیر زمیں ریلوے تھی ہزاروں لوگ زندہ ہی دفن ہو جاتے ، اور یہاں لاہور تاریخی شہر ہے
Pakistan
وزیر اعلے دن رات خود پھرتے ہیں، مگر سڑکیں دریا بن جاتیں ہیں آج تک تو ہمارے یہ منصوبہ ساز ادارے لاہور میں سیورج کا نظام درست نہیں کرسکے یہ پاکستان میں ہر سال آنے والے سیلاب سے عوام کو بچانے اور فصلیں تباہ ہونے سے کیونکر بچا سکیں گے ،اب یہ تو عوام کا مقدر ….البتہ غیر سرکاری اور سرکاری فلاحی تنظیموں کا کام چل نکلتا ہے ، حکومت بھی امداد کی اپیلیں کرتی ہے اور ملک میں اور بیرون ملک خدا ترس لوگ فراخدلی سے سیلاب متاثرین کے لئے امداد دیتے ہیں اور یوں اگر پاکستان میں سیلابوں کا سلسلہ رک جائے اور ایسی منصوبہ بندی کی جائے کے بارش کا ایک قطرہ بھی کہیں نظر نہ تو ان تنظیموں کا کار بار ٹھپ ہو جائے گا ،اسی لئے ایسی کوئی منصوبہ بندی نہیں کی جاتی کہ عوام ایسے عذاب سے محفوظ ہو جائیں
جس میں سینکڑوں لوگ ڈوب کر لا پتہ ہو جاتے ہیں اور ہزاروں ایکڑ زمین پر کھڑی فصلیں بھی تباہ ہو جاتی ہیں سینکڑوں دیہات بہہ جاتے ہیں ،اور اربوں کا مالی نقصان ہوتا ہے جہاں ملک میں حکومتوںکی سیلاب کی روک تھام کے حوالے غفلت پائی جاتی ہے وہاں عوام الناس کو بھی بری الزمہ نہیں کیا جا سکتا ،جدید دور میں گھر بناتے وقت اِس امر کا خیال رکھا جانا چاہئے کہ نقصان کم سے کم ہو پائے پھر یہ پانی ایک دن میں تو نہیں پہنچتا ، جنوبی علاقوں کا زیادہ نقصان ہوتا ہے کہ وہاں تک پہنچتے پانی اور بپھر جاتا ہے ،اس دوران لوگ اپنے طور پر بھی بچنے کوشش کریں تو نقصان کم سے کم ہو سکتا ہے
اب حکومت نے شہروں کو بچانے کے لئے کئی دیہاتوں کو قربان کیا جس سے جانی اور مالی نقصان زیادہ ہوأ ……!! ہمارے منصوبہ سازوں کی عقل و فہم کا یہ عالم ہے کہ گیس کے نئے زرائع تلاش کرنے کی بجائے جو ہیں ا ن کے ضیاء کا منصوبہ بنایا اور چھوٹی بڑی ہر قسم کی ٹرانسپورٹ کو گیس پر منتقل کر دیا خصوصا پبلک ٹرانسپورٹر نے خوشی منائی کہ آج مہنگے ڈیزل کی جگہ سستی گیس استعمال کر کے ڈیزل کا کرایہ وصول کر رہے ہیں …جتنی گیس گھریلو چوہلوں میں اگلے سو برس میں جلنا تھی گزشتہ دس برسوں میں پھونک دی اور آج گھریلو صارفین کے لئے بھی گیس کی لوڈ شیڈنگ شروع ہے یہ ہیں منصوبہ سازوں کے کارناے، یہ بارشوں کے پانی کو کیوں کر روک کر ملک کو تباہی سے بچائیںاور اسے بہتر تصرف میں لانے کا منصوبہ بنا سکتے ہیں !!