تحریک انصاف کے 30 نومبر کے جلسے کو لے کر میڈیا، سیاسی حلقوں اور عوامی حلقوں میں مختلف قیاس آرائیاں کی جارہی تھیں۔ تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان جاری الفاظ کی جنگ اور ان کی طرف سے اپنائے گئے جار حانہ رویے نے بھی ان حلقوں کے اندر بے چینی پیدا کر رکھی تھی۔ کئی سوال ذہنوں میں جنم لے رہے تھے کہ کیا عمران خان صاحب واقعہ ہی حکومت کے خلاف کوئی فیصلہ کن تحریک کا آغاز کرنے جا رہے ہیں ؟کیا حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان کوئی تصادم ہو نے جا رہا ہے ؟یا پھر خان صاحب آگے کی طرح صرف جارحانہ رویہ اپنا کہ اسلام آباد میں بڑے جلسے کا ماحول بنا رہے ہیں؟وجہ خواہ کچھ بھی ہو 30 نو مبر سے پہلے حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان تلخی اپنے عروج پر تھی۔
بہر حال 30نومبر کا دن بخیرو عافیت گذر گیا ،تحریک انصاف کی طرف سے اسلام آباد میں بھر پور سیاسی قوت کا مظاہرہ کیا گیا۔اس جلسے کی خاص بات تحریک انصاف کا پلان (سی)تھاجس کا اعلان عمران خان صاحب نے اپنی تقریر میں کرنا تھا،اس لئے ہر کسی کو عمران خان صاحب کی تقریر کا شدت سے انتظار تھا ۔عمران خان صاحب کی تقریر میں کوئی نئی بات تو نہ تھی انہوں نے وہی باتیں دہرائی جو وہ پچھلے کچھ عرصے سے کررہے ہیں ۔ البتہ اگر کچھ نیا تھا تو وہ ان کا متوقع پلان(سی) تھا۔متوقع اس لئے کہہ رہا ہوں کیونکہ 30نومبر سے پہلے ہی اس طرح کی خبریں آ رہی تھیں کہ وہ حکومت کے خلاف پہیہ جام اور شٹرڈاون ہڑتال کی کال دے سکتے ہیں۔
پلان(سی) کا اعلان کرتے ہوئے عمران خان صاحب کا کہنا تھا کہ ہم پہلے مرحلے میں لاہور،فیصل آباد اور کراچی کوبند کریں گے اور بعد میں پورے ملک کو بند کردیں گے ۔جو تاریخیں انہوں نے اس احتجاج کے حوالے سے اس دن دی تھیں اگلے دن ان میں کچھ ردوبدل کردیا گیا ،کیونکہ 4دسمبر سے لاہور میں جماعت الدعوہ کا اجتماع مینارپاکستان میںشروع ہو رہا ہے ، اور 16 دسمبر 1971ء کو چونکہ سقوط ڈھاکہ کاسانحہ پیش آیا تھا اس لئے ا س تاریخ کا انتخاب کرنے پر تحریک انصاف کو مختلف سیاسی اور عوامی حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا تھا۔ اب یہ احتجاج فیصل آباد میں 8 دسمبر کراچی میں 12دسمبر لاہور میں15دسمبر اور پورے ملک میں 18دسمبر کو ہو گا۔
Shah Mehmood Qureshi
تحریک انصاف کے وائس چیرمین شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ شٹر ڈاون نہیں ہو گا صرف شاہراہوں پر احتجاج کیا جائے گا ۔حالانکہ شہر اور ملک بند کرنے سے مطلب تو یہ ہی لیا جارہا تھا کہ پہیہ جام اور شٹر ڈاون ہڑتال ہو گی ۔لیکن لگتا ہے کہ شٹرڈاون کے حوالے سے تحریک انصاف کے موقف میں تبدیلی آئی ہے ،اس کی ایک وجہ تاجر تنظیموں کی اس کال سے لاتعلقی ہو سکتی ہے ۔ کیونکہ اس کال پر تاجر تنظیموں اور ٹرانسپورٹرز تنظیموں کی جانب سے سخت ردعمل آیا ہے اور انہوں نے اس کال کی سخت الفاظ میں مخالفت کی ہے۔ اب تحریک انصاف کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ وہ افرادی قوت کے ساتھ اہم شاہراہوں کو بند کرے، اور اگر زبردستی شاہراہوں کو بند کرانے کہ کوشش کی گئی تو پھر حکومت اور تحریک انصاف کے کارکنوں میں تصادم کا خطرہ بھی مو جود رہے گا ۔ا س وقت اگر تمام صورت حال کو سامنے رکھا جائے تو یہ بات واضع نظر آتی ہے کہ تحریک انصاف کیلئے لاہور اور فیصل آباد کو بند کرنا اتنا آسان نہیں ہو گا ۔بادی النظر میں کراچی میں یہ کال کارگر ثابت ہو سکتی ہے کیو نکہ کراچی میں ہڑتالیں اور سڑکوں کو بند کیا جانا کوئی نئی بات نہیں ،وہاں پر توکوئی ٹریفک حادثہ بھی ہوجائے ،یا کسی جماعت کا کوئی کارکن بھی قتل ہو جائے تو اس پر بھی پہیہ جام اور شٹر ڈاون ہڑتال کی کال دے جاتی ہے۔
دراصل کراچی میں احتجاج کو جواز بنا کر لوٹ مار ،توڑ پھوڑاور جلائو گھیرئو کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ،اس لئے لوگ جانی ومالی نقصان سے بچنے کیلئے گھروں میں ہی رہنا بہتر سمجھتے ہیں ۔اس کے علاوہ ایم کیو ایم کی حمایت سے بھی تحریک انصاف اس کال کو کامیاب بنا سکتی ہے ۔اگر ایم کیو ایم در پردہ یا پس پردہ اس کال کی حمایت کرتی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ کراچی میں تحریک انصاف کی یہ کال کامیاب نہ ہو ۔اور ایسا ہوتا ممکن بھی نظر آرہا ہے کیونکہ شیخ رشید صاحب پچھلے کچھ عرصے سے ایم کیو ایم کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں۔اور ویسے بھی 14اگست کے بعد اسمبلی میں موجود تمام جماعتوں میں سے ایم کیو ایم ہی وہ واحد جماعت ہے جو عمران خان صاحب کے تندوتیز جملوں اور ان کے عتاب سے بچی ہو ئی ہے۔ لاہور اور فیصل آباد میں صور ت حال کراچی کی نسبت یکسر مختلف ہے ، کیونکہ یہاں پر کراچی جیسے حالات نہیں اور نہ ہی ان شہروں کو بند کروانا تحریک انصاف کیلئے اتنا آسان ہو گا ۔ اسی طرح پورے ملک میں تحریک انصاف کی یہ کال جزوی طور پر تو کامیاب ہو سکتی ہے لیکن مکمل کامیاب ہونے کا چانس انتہائی کم ہیں۔
قارئین اگر میں یہ کہوں تو بے جانہ ہوگا کہ تحریک انصاف کا پلان (سی) تو اتنا کامیاب ہوتا دیکھائی نہیں دیتا ، شائد خان صاحب کو کوخود بھی اس کا بات کا خدشہ تھاکیونکہ عمران خان صا حب نے 30 نومبر کو اپنی تقریر میں بھی کہا تھا کہ اگر پلان (سی) کامیاب نہ ہوا تو میرے پاس پلان ڈی بھی ہے ۔پلان (سی) کا وار تو حکومت پہ چلتا دیکھائی نہیں دیتا شائد اسی لئے پلان (ڈی)کی باتیں ابھی سے ہو نا شروع ہو گئی ہیں ، کہ پلان ڈی کیا ہوگا ؟۔ عمران خان صاحب کا کہنا ہے کہ حکومت کو معلوم ہی نہیں کہ میرے پاس اور کتنے پلان ہیں مگر حقیقت یہ کہ اب دن بدن تحریک انصاف کے پاس آپشن کم ہوتے دیکھائی دے رہے ہیں اور جیسے جیسے تحریک انصاف کہ پاس آپشن کم ہوتے جائیں گے ویسے ویسے یہ معاملہ تصادم کی جانب بڑھتا چلا جائے گا۔(یار لوگوں) کا کہنا ہے چاہے جتنے مرضی پلان متعارف کروا لئے جائیں، مگر اس سیاسی بحران کو حل کرنے کا پلان صرف ایک ہی ہے اور وہ ہے دونوں فریقوں کے مابین نتیجہ خیز اور بامقصد مذکرات کا آغاز۔