اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستانی وزير اعظم عمران خان نے پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کا اعلان کیا ہے، جس سے کئی حلقوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی لیکن ملک کی موجودہ معاشی حالت کے پیشِ نظر کئی ماہرین اس منصوبے کو ’غیر حقیقت پسندانہ‘ قرار دے رہے ہیں۔
اس منصوبے کا مقصد کم آمدنی والے افراد کو مکان کی سہولت مہیا کرنا ہے۔ پہلے مرحلے میں ملک کے چند بڑے شہروں میں اس منصوبے کا اعلان کیا گیا ہے، جس کے ليے فارم بھی جاری کيے جا رہے ہیں۔ گریڈ ایک سے سولہ تک کے لاکھوں ملازمین اس اسکیم سے فائدہ اٹھانے کے ليے تیار نظر آتے ہیں لیکن ناقدین کے خیال میں پانچ سال میں اتنی بڑی تعداد میں گھر تعمیر کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ نہ ممکن ہے۔
معروف صنعت کار اور تعمیراتی شعبے میں شہرت رکھنے والے احمد چنائے کا کہنا ہے کہ پچاس لاکھ کیا، اگر حکومت ایک لاکھ گھر بھی پانچ برسوں میں تعمیر کر لے تو بہت بڑی بات ہوگی۔ انہوں نے کہا، ’’حکومت ساٹھ سال میں صرف انچاس لاکھ سے کچھ زیادہ ہی گھر تعمیر کر پائی ہے تو پانچ برسوں میں پچاس لاکھ کیسے تعمیر ہو جائیں گے؟ پھر صرف گھر ہی تو تعمیر نہیں کرنے ہوتے، ان کو گیس، پانی، بجلی اور دوسری ضروریاتِ زندگی بھی فراہم کرنی ہوتی ہیں۔ ہزاروں ایسی ہاوسنگ کالونیاں اور اسکیمیں ہیں، جو صرف اس وجہ سے مکمل نہیں ہو پا رہيں کہ حکومت انہیں گیس، بجلی، پانی اور دوسری ضروریات زندگی فراہم نہیں کر پا رہی۔ تو ایک ایسے موقع پر جب ملک میں پانی کی قلت اور گیس کی کمی پہلے ہی ہے، حکومت کہاں سے یہ ضروریات پوری کرے گی؟ پھر ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ہمارے پاس انفراسٹرکچر، سیمنٹ اور دیگر مشینیں کتنی تعداد میں موجود ہیں۔ جوابات حوصلہ افزاء نہیں ہوں گے۔ تو میرے خیال میں یہ پروجیکٹ انتہائی غیر حقیقت پسندانہ ہے۔‘‘
ایک اندازے کے مطابق ملک کو پچاسی لاکھ گھروں کی کمی کا سامنا ہے، جس میں ہر سال دو لاکھ کا اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان میں ماضی میں بھی کئی حکومتوں نے اس طر ح کے منصوبے شروع کيے لیکن وہ کامیاب نہیں ہو سکے۔ سابق سیکريٹری برائے پلاننگ کمیشن نے اس مسئلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے کہا، ’’محمد خان جونیجو کی حکومت نے بھی پانچ اور چھے مرلے کے گھر تعمیر کرانے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن وہ کامیاب نہیں ہوا۔ آج مسئلہ یہ ہے کہ شہروں میں حکومتی زمین دستیاب نہیں ہے۔ شہر سے باہر اس طرح کے پروجیکٹس کو مکمل کرنا بہت مشکل ہے۔ ہم نے سندھ میں ایک سال میں ایک ہزار یا پندرہ سو گھر تعمیر کيے۔ وہ بھی اس صورت میں کہ لوگوں کے پاس زمین اپنی ہو۔ یہاں تو ابھی تک نہ زمین کا پتہ ہے اور نہ پروجیکٹ کے خدوخال واضح ہیں۔ اگر یہ شہر میں پروجیکٹ بناتے ہیں تو شہر میں تو اتنی سستی زمین ہی میسر نہیں تو پھر یہ عام آدمی کے ليے کیسے ارزاں قیمتوں پر گھر بنا سکتے ہیں؟ اگر اس کو نجی سیکٹر تعمیر کرتا ہے، تو مالی لحاظ سے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ اتنی کم قیمت پر گھر تعمیر کيے جائیں۔ تو میرے خیال میں تو یہ پروجیکٹ غیر حقیقت پسندانہ ہے۔ اگر حکومت اپنے سارے وسائل بھی استعمال کر لے، جب بھی پانچ برسوں میں پانچ لاکھ گھر تعمیر نہیں کر سکتی۔ پچاس لاکھ تو بہت بڑی تعداد ہے۔‘‘
کئی ماہرین ترقیاتی کاموں پر ہونے والے اخراجات کی روشنی میں بھی اس پر تنقید کر رہے ہیں۔ اس پروجیکٹ کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ یہ ایک سو اسی بلین ڈالرز کا پروجیکٹ ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنی بڑی رقم آئے گی کہاں سے؟ ڈی ایچ اے سے منسلک ایک ماہر نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’کيپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی ایک کینال کے پلا ٹ کو ڈیولپ کرنے کے ليے اٹھارہ لاکھ روپے لیتی ہے۔ ڈی ایچ اے اور بحریہ تقریباً پندرہ پندرہ لاکھ لیتے ہیں۔ تو پچاس لاکھ گھروں کے ليے جو زمین لی جائے گی، اس میں انفراسٹرکچر بچھانے کے ليے آپ اندازہ کر لیں کہ کتنا پیسہ لگے گا۔ اس کے علاوہ اتنے بڑے پروجیکٹ کے ليے زمین کا حصول بھی ایک مسئلہ ہوگا کیونکہ اگر آپ سو کنال زمین کسی ہاوسنگ پروجیکٹ کے ليے لیتے ہیں، تو یہ سکڑ کر ساٹھ کنال ہو جاتی ہے۔
آپ کو روڈ، مساجد، پارک اور دوسری چیزوں کے ليے بھی زمین مختص کرنی پڑتی ہے۔ تین فیصد اس میں کمرشل ایریا ہوتا ہے۔ تو اتنی بڑی تعداد میں زمین کا رقبہ کہاں سے ملے گا۔ پھر اگر یہ زمین آپ عام لوگوں سے لیتے ہیں تو خالی زمین کے حصول میں ہی کئی برس لگ جاتے ہیں۔ اب سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ آیا ہے جس میں زمین اگر کسی شہری کی ہے اور اگر حکومت یا کوئی پرائیوٹ بلڈر اس کو لینا چاہ رہا ہے، تو نئی گائیڈ لائن کی روشنی میں اس کو بہت پیسے ادا کرنے پڑیں گے۔ تو ان سارے حقائق کی روشنی میں یہ پروجیکٹ مجھے غیر حقیقی لگتا ہے۔‘‘