اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) پاکستانی پائلٹس نے مطالبہ کیا ہے کہ طیارے کے حادثے کی بین الاقوامی ماہرین کے زیرنگرانی تحقیقات کرائی جائیں۔
پاکستان ائیر لائنز پائلٹس ایسوسی ایشن (پالپا) نے کراچی میں ہوئے طیارے کے حادثے کی بین الاقوامی ماہرین کی زیر نگرانی منصفانہ اورغیر جانب دارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ اس تحقیقاتی کمیشن میں پائلٹس کے نمائندوں کو بھی شامل کیا جائے۔
ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پالپا کے سیکرٹری جنرل کیپٹن عمران ناریجو کا کہنا تھا کہ بڑھتے ہوئے طیارہ حادثات پائلٹس اور مسافروں کی جانوں کے لیے خطرات کا باعث ہیں، اس لیے ان حادثات کی وجوہات تک پہنچنا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا، ”یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ پی آئی اے سیفٹی سٹیندرڈز پر عمل کرنے کے پائلٹس کے مطالبے کو ہمیشہ نظر انداز کرتی رہی ہے اور ہمیں سیفٹی کوڈز پر عملدرآمد کے مطالبوں پر انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے ۔ ہم جب بھی فضائی سفر کے تقاضوں کو پورا کرنے پر اصرار کرتے ہیں تو ہمیں پریشر گروپ قرار دے کر چپ کرا نے کی کوشش کی جاتی ہے۔ محض پیسہ کمانے کے چکر میں ضروری حفاظتی اقدامات کے بغیر فلائٹس کی روانگی تشویش ناک ہے۔‘‘
کیپٹن عمران ناریجو نے بتایا کہ کراچی میں حادثے کے شکار ہونے والے جہاز کوایک ایسا پائلٹ چلا رہا تھا جس کے پاس اٹھارہ ہزار گھنٹوں تک جہاز اڑانے کا شاندار تجربہ تھا، جس کا شمار پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائنز کے سب سے سینئر اور بہترین پائلٹس میں ہوتا تھا اور اس نے جہاز اڑانے کی پروفیشنل اور جدید ترین تربیت حاصل کر رکھی تھی۔
کیپٹن ناریجو کے مطابق اس حادثے کی فوٹیج اور تصویروں میں دیکھا جا سکتا ہے کہ جہاز کے لینڈنگ گئیرز کا نہ کھلنا اور دونوں انجنوں کا فیل ہو جانا واضح طور پر تکنیکی خرابی اور مینٹیننس کی کوتاہیوں کو ظاہر کر رہا ہے۔ ”ہمیں ڈر ہے کہ اپنے من پسند لوگوں کے ذریعے کروائی جانے والی انکوائری کے نتائج درست نہیں نکلیں گے اور اس کی رپورٹ کو بھی پچھلے حادثوں کی رپورٹ کی طرح سرد خانوں میں ڈال دیا جائے گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس تحقیقاتی عمل میں کسی پائلٹ کو شامل کیا جائے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ”پاکستان میں مسائل کے حل کے لیے ہونا تو یہ چاہیے کہ پی آئی اے اور سول ایوی ایشن جیسے اداروں میں ایسے پروفیشنلز کو تعینات کیا جائے جو ان اداروں کے معاملات کو سمھجتے ہوں۔ ان اداروں کو کبھی کسی بزنس مین کے حوالے کر دیا جانا یا کسی ٹیکنوکریٹ کو دے دیا جانا مناسب نہیں ۔آج کل سارے معاملات پر ایک مخصوص ادارے کے لوگ فائز کیے جا رہے ہیں، جس سے ادارے میں مسائل بڑھتے جا رہے ہیں۔ ‘‘
ایک سوال کے جواب میں پالپا کے سیکریٹری جنرل کا کہنا تھا کہ سول نیوی گیشن آرڈر کو پچھلے کئی سالوں سے عملا معطل کیا ہوا ہے، پائلٹس اور عملے کے کام کے اوقات کی پابندی نہیں کی جاتی اور لوگ ہراسانی کے ماحول میں کام کر رہے ہیں۔ ”دو ہفتے پہلے غیر قانونی طور پر پالپا، جو کہ آئینی طور پر رجسٹرڈ ادارہ ہے اور پاکستان کے پائلٹس کاایک غیر سیاسی فورم ہے، کو بھی ڈی نوٹیفائی کرکے کام سے روک دیا گیا ہے۔ یہ سب اس لیے کیا جا رہا ہے تاکہ سیفٹی کوڈز کی پابندی کے حوالے سے ہماری آواز کو دبایا جا سکے۔ کوئی پائلٹ اپنی اور مسافروں کی جان خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتا، اس لیے ہم سیفٹی کے نظام پر سمجھوتہ نہ کرنے اور جہازوں کی دیکھ بھال کے عمل کو بہتر بنانے کی بات زور دے کر کہتے ہیں۔‘‘
آرمی ایوی ایشن میں طویل عرصہ خدمات سرانجام دینے والے برگیڈئیر(ر) فارووق حمید نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ کراچی کے حادثے پر رائے دینے سے پہلے بلیک باکس سے ملنے والی معلومات کا انتظار کرنا چاہیے۔ ان کے بقول اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہو گا کہ اگر جہاز میں کوئی تکنیکی خرابی تھی تو اس کو فلائٹ کی اجازت کیسے مل گئی۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ دنیا کی متعدد ائیرلائنز بنانے میں مدد کرنے والی پی آئی اے کے زوال کی کہانی کافی طویل ہے، اور اس کی بربادی میں بہت سوں نے حصہ ڈالا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ اس حادثے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے پی آئی اے کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ائیر مارشل ارشد ملک کو مستعفی ہو جانا چاہیے۔
دوسری طرف پی آئی اے کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ایئر مارشل ارشد ملک نے کہا ہے کہ جہاز ٹیک آف کرنے سے پہلے انجینئرز سے کلیئر کرایا جاتا ہے، جہاز ٹیکنیکل طور پر پوری طرح محفوظ تھا۔ انہوں نے کہا کہ شفاف انکوائری میں پی آئی اے اور سی اے اے کا کوئی کردار نہیں ہوگا، انکوائری میں فیکٹس اینڈ فیگرز سامنے آئیں گے۔
وفاقی حکومت نے کراچی میں پی آئی اے کے طیارے کے حادثے کی تحقیقات کے لیے 4 رکنی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی ہے۔کیبنیٹ سیکریٹریٹ ایوی ایشن ڈویژن کی جانب سے جاری کیے جانے والے نوٹیفکیشن کے مطابق تحقیقاتی ٹیم کی سربراہی ایئر کموڈور محمد عثمان غنی کریں گے، جبکہ ونگ کمانڈر ملک محمد عمران، گروپ کیپٹن توقیر اور ناصر مجید تحقیقاتی ٹیم کے ممبرز ہیں۔ نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ تحقیقات کمیٹی کی تشکیل کے ایک ماہ کے اندر ابتدائی تحقیقات مکمل کی جائیں گی۔
پی آئی اے کے بدقسمت طیارے کو پیش آنے والے حادثے پر ملکی اور بین الاقوامی سطح پر افسوس کا اظہار کیا جا رہا ہے۔اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اپنے بیان میں حادثے پر انتہائی دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ‘عیدالفطر کی چھٹیوں کے آغاز پر ہی ہولناک حادثے کے پیش آنے پر حکومت پاکستان سے تعزیت کرتے ہیں‘۔
امریکا، چین، جرمنی، کینیڈا ، بھارت ، افغانستان سمیت کئی ملکوں کی طرف سے کراچی میں طیارہ حادثے پر دکھ کا اظہار کیا گیا اور اس حادثے میں اپنے پیاروں کو کھونے والے افراد سے تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے اس وقت میں پاکستان کے ساتھ کھڑے ہونے کے عزم کا اظہار کیا گیا۔
ادھر پاکستان میں طیارہ گرنے پر وزیراعظم عمران خان، مسلح افواج کے سربراہان، چیف جسٹس پاکستان، اوراپوزیشن جماعتوں کے قائدین سمیت مختلف سیاسی و سماجی رہنماؤں کی طرف سے افسوس اور دکھ کا اظہار کیا گیا۔ سابق وریز اعظم میاں نواز شریف، سابق صدر آصف علی زرداری، امیر جماعت اسلامی سراج الحق اور جمیعت علما اسلام کے مولانا فضل الرحمن نے بھی اس سانحے پرافسوس کا اظہار کرتے ہوئے متاثرہ خاندانوں سے دلی تعزیت و ہمدردی کی۔
سوشل میڈیا پر حادثے کا شکار ہونے والے پائلٹ کے بارے میں بھی اظہار خیال جاری ہے۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان اور کرکٹ تبصرہ نگار رمیز راجہ نے حادثے کا شکار ہونے والے پی آئی اے کے طیارے کے پائلٹ کیپٹن سجاد گل کی آخری آڈیو ریلیز گفتگو پر کہا ہے کہ یہ ناقابل یقین ہے۔ اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں ماضی کے اوپننگ بیٹسمین نے کہا کہ بدنصیب طیارے کے پائلٹ کیپٹن سجاد گل کے کنٹرول ٹاور سے گفتگو کے دوران ان کی آواز پرسکون اور مکمل قابو میں تھی۔انہوں نے مزید کہا، ”یہ تمام بات چیت کریش سے چند لمحے پہلے کی گئی تھی، جس، میں کہیں گھبراہٹ نہ تھی۔ یہ بڑی جواں مردی پر مبنی موت ہے، جسے انہوں نے باوقار انداز میں گلے لگایا۔‘‘
حادثے کا شکار ہونے والے طیارے کی اس خوش قسمت ائیر ہوسٹس بھی سامنے آگئی ہیں جنہیں پرواز سے کچھ دیر پہلے ڈیوٹی روسٹر تبدیل کر کے حادثے کے شکار ہونے والے جہاز پر سوار ہونے سے روک دیا گیا تھا اور ان کی جگہ ائیر ہوسٹس انعم مقصود کو طیارے میں بھیجا گیا تھا۔
واضح رہے کہ لاہور سے کراچی جانے والی قومی فضائی ادارے پی آئی اے کی پرواز کراچی میں لینڈنگ سے 30 سیکنڈ قبل حادثے کا شکار ہوگئی تھی۔ پی آئی اے کی پرواز پی کے 8303 نے جمعے کے روز دوپہر 2 بجکر 40 منٹ پر جناح انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر لینڈ کرنا تھا۔
طیارہ لینڈنگ اپروچ پر تھا کہ کراچی ایئر پورٹ کے جناح ٹرمینل سے محض چند کلومیٹر پہلے ملیر ماڈل کالونی کے قریب جناح گارڈن کی آبادی پر گر گیا۔ کراچی میں طیارے کے حادثے میں ہلاکتوں کی تعداد ستانوے ہو چکی ہے، جبکہ دو افراد معجزانہ طور پر محفوظ رہے ہیں۔
ان میں ایک نوجوان محمد زبیر اور دوسرے بنک آف پنجاب کے سربراہ ظفر مسعود شامل ہیں۔ جائے حادثہ پر ملبہ اٹھانے کا کام اب بھی جاری ہے۔ جبکہ اس حادثے میں ہلاک ہونے والے انیس افراد کی شناخت ہو چکی ہے۔ میتوں کو ان کے لواحقین کے سپرد کیا جا رہا ہے۔ متاثرہ علاقے میں اس حادثے کی زد میں آنے والے دو درجن سے زائد مکانوں کو بھی کلئیر کیا جا چکا ہے۔