مرزا صاحب کا شمار، خاندانی منصوبہ بندی سے پرہیز کرنے والے ان پاکستانیوں میں ہوتا ہے جو اپنی شادی شدہ زندگی سے انصاف کے چکروں میں اپنے وسائل کی چادر دیکھے بغیرآ بادی کے پھیلائو کا ذمہ اپنے ناتواں اور مقروض کندھوں پر اٹھائے، بندے مار مہنگائی کے باوجود اس محاذ پر اس قدر مستقل مزاجی سے ڈٹے نظر آتے جیسے بنی نوع انسان کی افزائش نسل کا سارا ذمہ اپنے سر لینے کی قسم کھا رکھی ہو۔ ان کے بوم بوم اور جارحانہ رن ریٹ کی بدولت، خلق خدا میں اندھا دھند اضافے کابے قابور وجحان، ڈنکے کی چوٹ پر یہ نوعید سنا رہا ہے کہ وہ دن دور نہیں جب ہم بچے پیدا کرنے کی ڈور میں پوری دنیا کو پیچھے چھوڑ کر عالمی نمبر ون کا سہرا ماتھے پر سجائے پرانے وقتوں کے کسی دلہا کی طرح منہ چھپاتے نظر آئیں گے۔
ہمارے مسائل کے مقابلے دن بادن سکڑتے، سمٹتے اور ہماری بنیادی ضرورتوں کے سامنے حکومتوں کوشرمندہ اور عوام کو رنجیدہ کرتے ہوئے ہمارے توانائی کے وسائل اور لٹا پٹا معاشی نظام اس جیت کا صدمہ کس منہ سے بردا شت کرسکیں گے یا اس سے پہلے ہی اللہ کو پیارے ہو جائیں گے اس تکلیف دہ سوال پر غور کریں ہمارے دشمن یا ہمسائے، ایسی بے ہودہ فکروں اور غیر ضروری خدشوں سے ہمیں کیا لینا دینا۔ جب صرف دو کروڑ کی آبادی کے انفراسڑکچر پہ انیس بیس کروڑوں لوگو ں کا ،بنیادی ضرورتوں کی کمیابی، قرضوں، مرضوں، بحرانوں اور خساروں کے باوجو دبھی زبردستی، زبردست گرزبسر ہورہا ہے، تو پھرقبل ازوقت یہ سوچ سوچ کر اپناجی ہلکان کیوں کیا جائے کہ جب خیر سے یہی تعداد پچیس تیس کروڑسے زائد ہوگی تو کس گلی یا کس راستے سے اور کیسے گزر کر گھر جائیں گے؟۔
رہی بات ہمیں خبردار کرتے اعدادشمار اور ہمارے گمبھیر مسائل کی جو ہمارے آگے ہاتھ جوڑے ، چیخ چیخ کر ہم سے ضبط ولادت جیسی نعمت سے عملی سنجیدگی سے مستفیض ہونے کی التجائیں کررہے ہیں کہ”خدارا انسانی پیداوار میں ہتھ ہولا رکھو” تو کرتے رہیں ہمارا کیا جاتاہے ۔ ہر قسم کے تفکرات سے آزاد شرح پیدائش کی بدولت کونسا سا پہاڑ ٹوٹ پڑے گا؟ زیادہ سے زیادہ یہی ہوگانا کہ ہر گلی محلے میںبھو کے ننگے بچوںکی ٹولیاں اپنے بڑوں کی دور اندیشیوں کا جلوس نکالے اس قسم کے نعرے لگا کر اپنا غم غلط کرتے نظر ا ئیں گی۔ ” جب کھلا نہیں سکتے تو پیدا کرنے کا تکلف کیوں”؟؟؟”جب پڑھا نہیں سکتے تو پیدا کرنے کا تکلف کیوں”؟؟؟ ”جب عزت سے دفنا نہیں سکتے تو پیدا کیوں کرنے کا تکلف کیوں”؟؟؟ ”جب مفید اور کارآمد شہری بنا نہیں سکتے تو پیدا کرنے کا تکلف کیوں”؟؟؟ ”ظالمو حساب دو۔۔۔۔۔۔ مقدر میں جولکھا تھا رزق ہمارے، کھا گیا وہ کون اس کا بھی جواب دو۔
Debt
ایسے خدشوں کے باوجود جو لوگ اپنی چادر اور ملکی وسائل سے بے نیاز ہو کر اپنی اور دوسروں کی معاشرتی اور اخلاقی زندگی اجیرن بنانے کا عہد کئے بیٹھے ہیں ان کے لیے بطور عبرت ملالحظہ ہو ایک نا سمجھ باپ کی یہ کہانی؛ نام مرزا ہجوم بیگ، ماضی اور مستقبل: دونوں ہی بھیانک اور ہولناک۔ مقام: اپنے ہی گھر میں بہت ہی گرا ہوا، وجہ انیس بھوکے ننگے ان پڑھ بچے، دو دائمی بیمار اور قریب المرگ بیویاں اور کبھی نہ اترنے والا گردشی قرض، سابقہ پیشہ: نان سٹاپ بچے پیدا کرنا، پارٹ ٹائم، بطور نجومی ہلاشیری دینے کے لیے صرف انہی خواتین وحضرات کا ہاتھ دیکھ کرپیشین گوئی فرماتے تھے جن کو محکمہ خاندانی منصونہ بندی نے مقررہ تعداد سے زائد بچے پیدا کرنے کی کاوشوں میں اشتہاری قرار دے رکھا ہو، خود موصوف کا اپنا نام اس فہرست میں سب سے اوپر، سنہری حروف میں لکھا ہوا۔
خاندانی منصوبہ بندی کے علاوہ ہر معاملے میں منصوبہ بندی کے قائل، یہی وجہ تھی کہ خود کو اسم بامسمی ثابت کرنے کے لئے شادی کے پہلے سال ہی اپنے آبائی نام مرزا محدود بیگ کو بدل کر”مرزا ہجوم بیگ نان سٹاپ” رکھ لیا ۔ اور باقاعدہ کسی سستے اخبار میں تبدیلی نام کا دھمکی آمیز اشتہار چھپوایا، جس کی عبارت تھی کہ” اس نام پر کسی قسم کے اعتراض کو نہ صرف ان کے ازواجی معاملات میں عملی دخل اندازی سمجھا جائے گے بلکہ وہ ایسی کسی بھی نامعقول اور نازیبا حرکت کا اسی صورت میں منہ توڑ جواب دینے کے جملہ حقوق محفوظ رکھتے ہیں۔ لہذا کسی بھی شریف آدمی کو زیب نہیں دیتا کہ وہ ان کی ازواجی زندگی کا مزا کرکرا کرنے جیسا شیطانی خیال بھی دل میں لائے اور اپنی اور اشتہار دہندہ دونوں کی دنیا و آخرت کو خراب کرنے کا سزا وار ٹھہرے۔” ا س اشتہار کی فوٹو کاپیاں کروا کر احتیاطا، نہ صرف باربار تمام محلے داروں اور رشتہ داروں میں فی سبیل اللہ تقیسم کی گئیں بلکہ علاقے کے اہم چوکوں اور مساجد کے باہر بھی چسپاں کروا ئی گئیں۔
اس نیک کام پر اٹھنے والے تمام اخراجات مرزا صاحب کے ایک دیرنیہ رفیق کی بھینس کو گروی رکھ کر پورے کئے گئے۔مرزا صاحب کے پیداواری جذبے کی تشہیر ی مہم میں کام آنے والی بھینس عرصہ ہوا انتقال کر گئی البتہ گروی کی رقم آج بھی ان کے اس محروم دوست پر بعداز وفات سود سمیت واجب الادا ہے ۔ جبکہ شدید غربت اور بدحالی کے باوجود انیس سال تک نان سٹاپ بچے پیداکرکے اپنی شادی شدہ زندگی کا حق ایمانداری سے ادا کرنے والے مرزا صاحب نہ صر ف ہر دوسرے رشتہ دار اور ہر چوتھے محلے دار کے سر تا پاوں مقروض ہیں بلکہ اپنے سابقہ حلقہ احباب میں اچھی خاصی ذلت کی نگاہ سے بھی دیکھے جاتے ہیں۔ خاندانی منصوبہ بندی کو انسداد نکاح سمجھنے والے مرزا جو کبھی کثرت اطفلال کو اپنا معرکہ عظیم قرار کر لوگوں سے زبردستی داد وصول کرتے تھکتے ہیں نہیں تھے۔ انہی بچوں اور قرضوں خواہوںکے ہاتھوں نشانے عبرت بنتے ہی چلے گئے۔وہ مرزا جن کا ایمان تھا” کہ ڈیڑھ مرلہ مکان میں کم ازکم اٹھ دس بچے نہ ہوں تو گھر سونا سونا لگتاہے” پھر اسی مکان کو اپنے اور بچوں سمیت نیلام کرنے کے شدید آرزو مند رہے مگر کوئی ستم گر مفت میں بھی یہ سپایا مول لینے کو تیارنہ ہوا۔
مناسب تعلیم و تربیت نہ ہونے کے باعث ناخواندگی اور جہالت کا شکار بچے اپنی بھوک مٹانے کے لیے ادھر ادھر سے چھوٹی موٹی چورویوں ، چھینا جپٹیوں اور جیب تراشیوں جیسی گوریلا کاروائیاں کرکے باپ کا نام خوب روشن کرتے۔ جبکہ ان وارداتوںکا گناہ ہمیشہ مرزا کے روح اور بدن کو جھیلنا پڑتا کبھی ناقابل اشاعت گالیوں سے تو کبھی ہر زاویے سے زدو کوپ ہونے کی صورت میں۔آخرایک دن اپنی سابقہ محبوبہ جسے وہ کبھی اپنے خون سے خط لکھا کرتے تھے اس کی منجھلی بیٹی کی گرماگرم اور چھٹ پٹی گالیوں سے اس قدردل برداشت ہوئے کہ بطور سزا خود ساختہ محلہ بدر ی اور روپوشی اختیارکرلی۔ آج کل اپنی گمنام زندگی کی معیشت کو چلانے کے لیے توبہ واستغفار والی عمر میں ہیجڑوں کی مالش کرتے ہیں اور زیادہ مندے کی صورت میںنہ صرف ڈھولک بھی بجالیتے ہیں بلکہ خود پر زنانہ حلیہ اورکیفیت طاری کرکے بے شرم قسم کے گانوں پرڈھمکے لگانے جیسے انتہائی قدم سے بھی گریز نہیں کرتے اور اس لذت آوارگی کو دل سے رزق حلال کا زریعہ سمجھ بیٹھے ہیں۔
فرماتے ہیں قرض کی ذلالت سے ہیجڑوں کی عریاں غلامی اچھی۔۔۔ وہی مرزا جس کی خاندانی منصوبہ بندی سے دشمنی کا کبھی یہ عالم تھا کہ نہ صرف اپنی بیگمات پر خاندانی منصوبہ بندی کے اشتہا ر تک دیکھنے پر سخت پابندی عائد کررکھی تھی بلکہ اپنے دروازے پر باقاعدہ لکھوا رکھا تھا کہ”یہ شریفوں کا گھر ہے لہذا لیڈیزہیلتھ وزڑز کا داخل ممنوع ہے۔”جب زیادہ بھڑک جاتے تو فرماتے” وہ لیڈیزہیلتھ وزڑز جن کے اپنے مرغی خانوں میں آٹھ آٹھ بچے دندناتے پھرتے ہیں وہ کس منہ سے دوسروں کو کنبہ چھوٹارکھنے کی تبلیغ کرتی ہیں۔” آج اسی مرزا کے خاندانی منصوبہ بندی پر ایمان کا یہ عالم کہ بقعول ان کے ہیجڑوں کو بھی خاندانی منصبوبہ کرنی چاہیے۔بطور کفارہ اپنی دونوں بیویوں کو بعداز مرگ بھی طلاق دینے کو پھیرتے ہیں کہ اس وقت ان دونوں نے موصوف کو ہوش کے ناخن لینے کا مشورہ کیوں نہ دیا۔۔۔اب مرزا صاحب کون سمجھائے کہ حضورکہ اپنی حماقتوں کو دوسروں کے گلے ڈالنا مردانگی نہیں ۔۔۔۔ بلکہ پرلے درجے کی کمینگی اور کم ظرفی ہے۔