تحریر : سید انور محمود کہتے ہیں جو پودے آپ نے آج لگائے ہیں ضروری نہیں کہ جب وہ مکمل درخت بن جایں تواس کے پھل آپ کو کھانے کو ملیں یا اس میں سے نکلنے والے کانٹے آپ کو چبھیں ، لیکن ایسا ضرور ہوگا کہ آپ کے پھل اور کانٹے دینے والے پودوں کو لگانے کا فائدہ یا نقصان کسی نہ کسی کو ضرور ہوگا۔ ماضی کے حکمرانوں نے اپنے دور اقتدار میں مختلف منصوبے شروع کیے اس مضمون کی حد تک ہم ان منصوبوں کو پودوں سے تشبیہ دئے لیتے تاکہ مضمون کو بہتر انداز میں سمجھا جاسکے۔ نواز شریف 25 دسمبر 1949 کو پیدا ہوئے تھے اور جب بھٹو نے ایٹمی صلاحیت کے حصول کا پودا لگایا تو اس وقت وہ صرف 22 سال ایک ماہ کے تھے۔24جنوری1972 کا دن پاکستان کی تاریخ کا وہ اہم دن ہے کہ اس روز ملک کے وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو نے ایک خفیہ اجلاس میں عسکری مقاصد کےلیے ایٹمی طاقت کے حصول کےلیے جدوجہدشروع کرنے کا فیصلہ کیا۔
اس دن پاکستان نے دنیا کی ایک ایٹمی طاقت بننے کےسفر کاآغاز کیا تھا۔18مئی 1974 کو بھارت نے ایٹمی تجربے کیےتوبھارت کے ساتھ عسکری توازن کے مقابلے کےلیے پاکستان کے ایٹمی پروگرام میں بھی تیزی آگئی۔13مئی 1998 کو بھارت نے یکے بعد دیگرے 3 ایٹمی دھماکے کیے۔اس وقت نواز شریف دوسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم تھے، 28 مئی 1998 کوتین بجےکے بعد چاغی کے سیاہ پہاڑ لرز اٹھے، بھارت کے 3 ایٹمی دھماکوں کے جواب میں پاکستان نے 5 کامیاب ایٹمی دھماکےکردیئے تھے۔ذوالفقارعلی بھٹو کا لگایا ہوا ایٹمی پودا جو اب ایک مضبوط درخت بن چکا ہےاس کا پھل جب ملا تو ہرپاکستانی خوش تھا، نواز شریف اپنی خوش قسمتی پر نازاں ہورہے تھے، ایٹمی دھماکوں کے بعد انکی شہرت کا گراف بلند ترین سطع پر تھا۔
گوادر کی بندرگاہ کی تعمیر کا منصوبہ 2002 میں سابق صدر (ر) جنرل پرویز مشرف نے شروع کیا اوران ہی کے دور میں 24 کروڑ ڈالر کی لاگت سے یہ منصوبہ 2007 میں مکمل ہو گیا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کے آخری دنوں میں پاکستان میں بڑے پیمانے پر چینی سرمایہ کاری کی باتیں سامنے آنے لگیں تھیں۔ 2013 میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نےاعلان کیا کہ چینی حکومت نے پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔اس منصوبے کو ‘‘چین پاکستان اقتصادی راہداری’’ کا نام دیا گیا جو بنیادی طور پر خنجراب کے راستے چین کو گوادر کی بندرگاہ سے ملانے کا منصوبہ ہے۔46 ارب ڈالر کےاس معاہدے پر 2015 میں دستخط ہوئے، اس منصوبے میں سڑکیں، ریلوے لائن، بجلی کے منصوبوں کے علاوہ متعدد ترقیاتی منصوبے بھی شامل ہیں۔13 نومبر 2016 کووزیراعظم نواز شریف نے گوادر بندرگاہ کا باضابطہ افتتاح کرکے اسے فعال کردیا ہےاور پاک چین اقتصادی راہدری منصوبے کے تحت چین کا پہلا تجارتی جہاز گوادر بندر گاہ سے روانہ ہو گیا۔ سابق صدرپرویزمشرف کے 2002 میں لگائے ہوئے گوادر بندرگاہ کاپودا جو اب ایک تناور درخت بن چکا ہے، نواز شریف اسکا پھل کھارہے ہیں اوربھرپور سیاسی فائدہ اٹھارہے ، بقول نواز شریف پاک چین اقتصادی راہدری منصوبے سے پورئے پاکستان کوفائدہ ہوگا۔
Zia ul Haq
جنرل ضیاء الحق نے 1979 میں بھٹو کو پھانسی دی تھی، بھٹو کی پھانسی کے بعد پوری دنیا میں ضیاءالحق کی حکومت کی حمایت کرنے والا کوئی نہ تھا ۔ 1979 میں ہی روس افغانستان میں داخل ہوا تو ضیاءالحق نے اپنی حکومت کو طول دینے کےلیےامریکی حکومت کے کہنےپر امریکی ڈالروُں کےعوض دہشتگردوں اور غیر ملکی فسادیوں کے ساتھ ملکر روس کے خلاف نام نہاد ڈالر جہاد کیا ، جسے کرائے کی جنگ بھی کہا جاتا ہے۔یہ ہی وہ وقت تھا جب ضیاءالحق نے جہاد کے نام پر دہشتگردی کا پودا لگایا تھا۔روس کے واپس جانے کے بعدامریکہ بھی واپس چلا گیا تو ڈالر جہادیوں کا راتب بند ہوگیا،تو وہ فسادی جو پہلے امریکہ کے پالتو تھے اب وہ ہی امریکہ کو آنکھیں دیکھارہے تھے۔ امریکہ میں 9/11 کا واقعہ ہوا تو وہ سیدھا دوڑا افغانستان چلا آیا کیونکہ اسے 9/11 کے واقعے میں اسامہ بن لادن مطلوب تھا، پھر جب پاکستان کی افواج اور عوام اس جنگ میں اپنی سرزمین کو بچانے کےلیےحرکت میں آئے تو کل کے ڈالرجہادی یا فسادی پاکستان کی افواج اور پاکستانی عوام کے خلاف طالبان کے نام سے دہشتگردی پر اترآئے۔
اب تک 60 ہزار سے زیادہ پاکستانی جن میں پاک فوج اور پولیس کے جوان بھی شامل ہیں دہشتگردی کا شکار ہوچکے ہیں۔ جنرل پرویز اشفاق کیانی 2007 سے 2013 تک چھ سال آرمی چیف رہے اور آصف علی زرداری 2008 سے 2013 تک پانچ سال ملک کے صدر رہے،جنرل کیانی اورآصف زرداری دونوں کرپشن میں مصروف رہے ، جس کی وجہ سے طالبان اپنی دہشتگردی میں آزاد تھے۔جنرل راحیل شریف 29 نومبر 2013 کو آرمی چیف مقرر ہوئے اور اب 29 نومبر 2016 کو ریٹائر ہوجائیں گے۔ نواز شریف ابھی طالبان سے مذاکرات مذاکرات کھیل رہے تھے کہ 15 جون 2014 کو افواج پاکستان نے آپریشن “ضرب عضب” کے نام سے طالبان دہشتگردوں کے خلاف ایک بھرپور آپریشن کا آغاز کیا۔
جنرل راحیل شریف کی قیادت اور بھرپور شمولیت کی وجہ سے آپریشن ضرب عضب کے بعد پاکستان میں دہشتگردی میں بہت حد تک کمی آئی ہے اور یہ دعوی بھی کیا جارہا ہے کہ دہشتگردوں کی کمر توڑ دی ہے،لیکن اس سال پھر دہشتگردی میں اضافہ ہوا ہے جس میں سب سے زیادہ صوبہ بلوچستان متاثرہوا ہے۔ آخری دہشتگردی خضدار کے علاقے میں 12 نومبر 2016 کو درگاہ شاہ نورانی کے سالانہ میلہ ہوئی جب وہاں دھمال ڈالا جارہا تھا۔ 52 یا اس سے زیادہ لوگ جابحق ہوئے اور 100 سے زیادہ زخمی۔ جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں ضیاءالحق کا لگایا ہوا ڈالر جہاد یا دہشتگردی کا پودا تناور درخت بن چکا تھا۔
Pakistan Nuclear Weapon
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان تینوں پودوں کا آپس میں ایک دوسرئے سے کیا تعلق ہے تو عرض ہے کہ اگر آج ہم ایٹمی طاقت نہ ہوتے تو بھارت میں مودی جیسے وزیراعظم کے دور میں ہمارئے ساتھ کچھ بھی کیا جاسکتا تھا یہ ذوالفقارعلی بھٹو کا لگایا ہوا ایٹمی پودا ہی تھاجس کی وجہ سے بھارت نے پاکستان کے ایٹمی طاقت بننے کے بعد کبھی بھی پاک بھارت بین القوامی سرحد کو پار کرنے کی کوشش نہیں کی۔ سابق صدرپرویزمشرف کے 2002 میں لگائے ہوئے گوادر بندرگاہ کاپودا جو اب ایک تناور درخت بن چکا تو دوست ملک چین نے پاکستان کے ساتھ ایک منصوبہ جسکو ‘‘چین پاکستان اقتصادی راہداری’’ کا نام دیا گیا ہے پاکستان کے ساتھ شروع کیا۔ بھارت اس منصوبے کا سخت ترین مخالف ہے اور کسی بھی طرح اس منصوبے پر عملدرآمد کو روکنا چاہتا ہے۔
جنرل ضیاءالحق نے 1979 میں جودہشتگردی کا پودا لگایا تھا اب اس کا پورا پورا فائدہ بھارت اٹھارہا ہے اوردہشتگردوں کو راتب فراہم کرکے ان سے پاکستان میں مسلسل دہشتگردی کروارہا ہے۔ نواز شریف پہلے دو پودوں کا پورا پورا سیاسی فائدہ اٹھارہے ہیں لیکن دہشتگردی کے کانٹوں والے پودے کو ختم کرنے میں وہ ناکام ہیں۔ ہر دہشتگردی کے بعد نواز شریف کی طرف سے ایک مخصوص بیان سامنے آتا ہے جس میں کہا جاتا ہے کہ ‘وہ اس دہشتگردی کی شدید مذمت کرتے ہیں، انہیں جانی نقصان پر بہت افسوس ہوا ہے، مرنے والوں کو اتنے روپے دیئے جاینگے۔
ہماری عوام اور سیکیورٹی فورسز نے بڑی قربانیاں دے کر امن قائم کیا ہے، ہم کسی کو بھی امن وامان کی صورتحال کوخراب کرنے کی اجازت نہیں دیں گے’۔ وزیراعظم نواز شریف اور پاکستانی سیکورٹی کے ادارئے ایک بات سمجھ لیں کہ پاکستان کی ‘ایٹمی قوت’ اور ‘چین پاکستان اقتصادی راہداری’ دونوں پاکستان کےلیے بہت ضروری ہیں، ایٹمی قوت ہمارے ملک کی حفاظت کےلیے اور چین پاکستان اقتصادی راہداری ہماری معاشی ترقی کےلیے لہذاجب تک پاکستان سےدہشتگردوں اور انکے سہولت کاروں کو ختم نہیں کیا جاتا تب تک ہماری ’ایٹمی قوت‘ اور ‘چین پاکستان اقتصادی راہداری’ دونوں خطرئے میں ہیں۔ اس لیے نواز شریف کو چاہیے کہ وہ اپنے سیاسی مرشد ضیاءالحق کے لگائے ہوئے دہشتگردی کے پودے کو جو اب ایک تناور درخت ہےجڑسے اکھاڑ پھنکیں۔