کراچی (اصل میڈیا ڈیسک) کورونا وائرس سے صحت یاب ہونے والے بعض افراد اپنے خون سے حاصل ہونے والا پلازما فروخت کر رہے ہیں جسے مبینہ طور پر کووڈ انیس کے علاج میں مؤثر سمجھا جا رہا ہے۔
کراچی سے تعلق رکھنے والے دانش شمسی حال ہی میں ایک مقامی ہسپتال میں پلازما تھراپی کے بعد کووڈ انیس سے صحتیاب ہوئے ہیں۔ اپنی صحتیابی کے لیے نہ صرف وہ ڈاکٹرز بلکہ اس شخص کے بھی خاصے مشکور ہیں جس سے ان کے خاندان نے تقریباً ڈیڑھ لاکھ میں پلازما خریدا تھا۔ دانش شمسی نے بتایا، ”ابتدائی طور پر میرے دوستوں اور احباب نے کئی جگہ سے پلازما حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہو سکے جس کے بعد انہوں نے سوشل میڈیا پر پلازما عطیہ کرنے والوں سے اپیل پوسٹ کی۔ چند دن بعد ان کا ایک شخص سے رابطہ ہوا جس کے ساتھ ڈیڑھ لاکھ میں معاملہ طے ہوا اور آج میں اس ہی کی بدولت صحتیاب ہوکے گھر واپس لوٹا ہوں۔ اینٹی باڈی ٹیسٹ کروایا ہے جس کے نتائج آنے کے بعد میں فیصلہ کروں گا کہ میں اپنا پلازما کتنے میں بیچوں گا تاکہ علاج پر آنے والے اخراجات کا کچھ حصہ دوستوں کو لوٹا سکوں۔‘‘
یہ صرف دانش شمسی کی کہانی نہیں۔ پاکستانی سوشل میڈیا پر ان دنوں اس طرح کی پوسٹ کافی تعداد میں دیکھی جا سکتی ہیں جن میں لوگ کووڈ انیس میں مبتلا ہونے والے اپنے والدین یا بزرگ رشتہ داروں کے لیے پلازما کا عطیہ حاصل کرنے کی اپیل کرتے نظر آتے ہیں۔ بعض لوگوں کی طرف سے کووڈ انیس سے صحت یاب ہونے والے افراد کو رقم کی پیشکش بھی کی جاتی ہے جو مطلوبہ خون کے گروپ کا پلازما عطیہ کرنے کو تیار ہوں۔ دوسری طرف سوشل میڈیا پر ہی ایسی پوسٹس بھی شیئر کی جا رہی ہیں جن میں واٹس ایپ وغیرہ پر ہونے والی بات چیت پڑھی جا سکتی ہے۔ ان میں پلازما دینے کے عوض رقم کا تقاضہ کیا گیا ہے۔ بعض صورتوں میں یہ رقم پانچ لاکھ یا اس سے بھی زائد ہے۔
ایسے لوگوں کا اکثر استدلال یہ ہے کہ کووڈ انیس کے بیماری کے دوران ان کے علاج پر اتنا ہی خرچہ آیا ہے تو اب وہ اپنا پلازما دے کر وہ رقم حاصل کرنے میں حق بجانب ہیں۔
طبی حکام کی طرف سے حکومت سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ پلازما کی خرید و فروخت کے اس عمل کا فی الفور تدارک کرے۔ پاکستان نیشنل انسٹیٹیوٹ آف بلڈ ڈیزیز کے چیئرمین نے تو میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اسے ‘بطور قوم ہمارے لیے ایک شرمناک لمحہ‘ قرار دیا۔
ہمارا خون جو بظاہر سرخ رنگ کا سیال ہے، بنیادی طور پر دو اجزا سے مل کر بنا ہوتا ہے، پلازما اور سیلز یا خلیے۔ پلازما ہمارے خون کا 55 فیصد حصہ ہوتا ہے جبکہ 45 فیصد حصہ سیلز ہوتے ہیں جن میں ریڈ بلڈ سیل، وائٹ بلڈ سیل اور پلیٹلیٹس شامل ہیں۔ کراچی کے معصومین ہسپتال میں خدمات انجام دینے والی ڈاکٹر سائرہ نیازی نے ڈی ڈبلیو گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ خون سے پلازما حاصل کرنے کے لیے کسی ڈونر سے حاصل شدہ خون کو سینٹری فیوج میں رکھا جاتا ہے جو بہت تیز رفتاری سے گھومتا ہے،” اس خاص طریقہ کار کے ذریعے خون میں سے تینوں طرح کے خلیے الگ ہو جاتے ہیں اور اس طرح باقی رہ جانے والا سیال پلازما ہوتا ہے جو دیکھنے میں ہلکا پیلے رنگ کا ہوتا ہے۔”
ڈاکٹرسائرہ نیازی کے مطابق، ” پلازما میں بہت سے منرل، پروٹینز اور اینٹی باڈیز پائی جاتی ہیں۔ جب کوئی اینٹیجن یعنی کسی بیماری کے جراثیم یا وائرس وغیرہ ہمارے جس پر حملہ آور ہوتے ہیں تو ہمارا مدافعتی نظام یا امیون سسٹم اس کے خلاف اینٹی باڈیز تیار کر لیتا ہے جو اس وائرس یا جراثیم کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ اینٹی باڈیز دراصل ہمارے پلازما میں ہی پیدا ہوتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ اہم اینٹی باڈیز آئی جی این اور آئی جی جی ہوتی ہیں۔”
پلازما تھیراپی کے کووڈ انیس کے علاج میں مؤثر ہونے پر دنیا میں تحقیق جاری ہے۔ کراچی میں کووڈ انیس میں مبتلا ہونے والے مریضوں کا علاج کرنے والی ڈاکٹر سائرہ نیازی کے مطابق جب کوئی اینٹیجن ہمارے جسم پر حملہ کرتا ہے تو اس وقت سے دو یا تین ہفتے کے وقت میں ہمارا جسم اس کے خلاف مکمل طور پر یا سو فیصد اینٹی باڈیز تیار کر لیتا ہے۔ تاہم یہ صورتحال ایک نوجوان اور مکمل طور پر صحت مند جسم کے حوالے سے ہے جس کا مدافعتی نظام یا امیون سسٹم بہت مضبوط ہوتا ہے۔ بزرگ افراد یا ایسے افراد جن کو دیگر بیماریاں لاحق ہوں ان کا مدافعتی نظام بھی کمزور ہوتا ہے اور اسی باعث ان میں اینٹی باڈیز تیار کرنے کی صلاحیت بھی کم ہوتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ کورونا وائرس ساٹھ ستر سال کی عمر کے افراد یا ایسے افراد کے خلاف زیادہ خطرناک ثابت ہو رہا ہے جنہیں پہلے ہی دیگر خطرناک بیماریاں لاحق ہوں۔ ڈاکٹر سائرہ کے مطابق، ”ایسے افراد میں پلازما تھیراپی کافی مؤثر ثابت ہو رہی ہے۔‘‘ اس مقصد کے لیے ایسے نوجوان افراد سے پلازما لیا جاتا ہے جو کووڈ انیس سے صحت یاب ہو چکے ہوتے ہیں اور یہ بیماری شروع ہونے کے دو سے تین ہفتوں کے دوران ان کے جسم میں اس کے خلاف اینٹی باڈیز بن چکی ہوتی ہیں۔ اس کی تصدیق کے لیے پہلے ایسے شخص کے خون کا ٹیسٹ کیا جاتا ہے اور دیکھا جاتا ہے کہ خاص طور پر اس کے خون میں آئی جی جی اینٹی باڈیز مناسب مقدار میں موجود ہیں۔ جب یہ پلازما کسی متاثرہ اور کمزور قوت مدافعت کے حامل مریض کو لگایا جاتا ہے تو اس میں موجود اینٹی باڈیز بیماری کے خلاف لڑتی ہیں اور یوں اس مریض کے صحتیاب ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ ڈاکٹرسائرہ کہتی ہیں، ”اس تھراپی سے کافی مریض صحت یاب ہوئے ہیں اور انہیں اس سے فائدہ پہنچا ہے۔ یہ خاص طور پر اس وقت زیادہ مؤثر ثابت ہو رہا ہے جب عمر رسیدہ مریضوں کو کووڈ انیس لاحق ہونے کی صورت میں ابتدا میں ہی پلازما کی صورت میں یہ اینٹی باڈیز ٹرانسفر کر دی جائیں تاکہ ان میں یہ بیماری خطرناک صورت اختیار نہ کر سکے۔‘‘
طبی طور پر کمزور اور کم قوت مدافعت رکھنے والے لوگوں پر کوئی بھی وائرس حملہ آور ہو سکتا ہے۔ وٹامن سی قوت مدافعت بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس مقصد کے لیے لیموں اور دیگر پھلوں کا استعمال اہم ہے۔
پلازما عطیہ کرنے والے کو اس صورت میں کسی طرح کا نہ تو کوئی خطرہ ہوتا ہے اور نہ ہی اسے کسی طرح کی کوئی کمزوری ہوتی ہے۔ ڈاکٹر سائرہ کے مطابق اب ایسی ٹیکنیکس آ گئی ہیں کہ ڈونر کے جسم سے براہ راست صرف پلازما ہی حاصل کیا جاتا ہے۔ یا دوسری صورت میں اس کے خون سے پلازما حاصل کر کے ریڈ، وائٹ بلڈ سیل اور پلیٹلیٹس دوبارہ اس کے جسم میں منتقل کر دیے جاتے ہیں۔ کیونکہ خاص طور ریڈ بلڈ سیل اہم ہوتے ہیں جو ہمارے جسم میں آکسیجن پہنچانے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ تو پلازما عطیہ کرنے والوں کو کسی قسم کا نہ تو کوئی مسئلہ ہوتا ہے اور ناہی اس کا کوئی سائیڈ ایفکٹ۔
واضع رہے کہ پاکستان میں مئی کے وسط میں نیشنل انسٹیٹیوٹ برائے بلڈ ڈیزیزنے تصدیق کی تھی پلازما تھراپی کروانے والا کووڈ انیس کا پہلا مریض مکمل صحتیاب ہوا ہے جس کے بعد ملک میں پلازما کی مانگ میں اچانک اضافہ دیکھنے میں آیا۔