تحریک انصاف کی حکومت کا اقتدار سنبھالتے ہی یہ موقف رہا ہے کہ سابقہ حکومتوں نے پاکستان کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے اور ہمیں بے شمار مشکلات وراثت میں ملی ہیں، تعجب کی بات تو یہ ہے حکومت کا ایک سال پورا ہونے کو جا رہا ہے، ایک مالی سال کے بجٹ سمیت چند منی بجٹ بھی پیش کئے جاچکے ہیں، ۔ مہنگائی کا طوفان رُکنے کانام نہیں لے رہا، گیس، پٹرول، بجلی ، ادویات سمیت روزمرہ کی خردونوش کی قیمتوں میں ہوشروبا اضافے نے غریب عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے ۔ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر مسلسل گر رہی ہے ۔مگر حکومت تمام تر خرابیوں کی ذمہ داریاں سابقہ حکومتوں کے سر ڈال کر اپنا وقت گزار رہی ہے۔
ایک سے بڑھ کر ایک منطق سامنے آتا رہا ہے ۔ جیسے پٹرول کی قیمتوں کی ذمہ دار حکومت نہیں بلکہ اوگرا قیمتوں کا تعین کرتی ہے ، دالوں اور سبزی کی قیمتوں کی اضافے کی وجہ موسی تبدیلیاں ہیں، ادویات کی قیمتوں کا فیصلہ سابقہ حکومت میں کیا گیاہم نے عدالتی فیصلے کا احترام کیا، ریلوے کے کرایوں میں اضافہ ڈالر کے بڑھنے سے ہوا،بجلی ،گیس کے ریٹس کا تعین نیپرا کرتی ہے،ڈالر کی اونچی اُڑان سابقہ حکومتوں کی دس سالہ ناقص کارکردگی کا حاصل ہے ، مصنوعی طریقہ سے ڈالر کو کنٹرول کیاگیا وغیر ہ وغیرہ۔جبکہ کچھ حکومتی فیصلوں نے بھی براہ راست عام عوام کی زندگی کو مشکل بنادیا ہے ،بغیر کسی حکمت عملی کے تحت غیر قانونی تجاوزات کے خلاف آپریشن میں کئی غریب کی چھت بھی گئی ، بہتر ہوتا کہ غریبوں کو متبادل جگہ فراہم کی جاتی،ادھر ”نہیں چھوڑوں گا”کی پالیسی کے تحت حکومتی اداروں کی احتساب عمل کو جاری رکھنے سے کیلئے کاروائیوں نے سرمایہ کاروں میں خوف کی فضا قائم کر دی ہے ،کئی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کے خواہشمند ہونے کے باوجود ادھر کا رُخ نہیں کر رہے ، اور پاکستان میں پہلے سے موجود صنعتکار اور سرمایہ کاروں کی کاروباری سرگرمیاں میں محدود سی ہو کر رہ گئی ہیں۔
نئے ٹیکسز کی زد میں آئے ایکسپورٹرز بھی تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں جبکہ ایمپورٹس کو رُکنے کے چکر میں ایسے سخت اقدامات کئے جارہے ہیں جو براہ راست ایکسپورٹ پر بھی اثرانداز ہورہے ہیں، دلچسپ بات تو یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا دیکھنے کو مل رہا ہے کہ تمام ریاستی اداروں کا حکومت کو مکمل تعاون حاصل ہے مگر پھر بھی اضطرابی کے چھائے بادل چھٹنے کا نام نہیں لے رہے ۔ اِدھر ٹیکسوں کے نئے نظام کے خلاف جہاں سیمنٹ اور شوگر انڈسٹری سراپا احتجاج ہیں وہاں پاکستان کی سب سے بڑی انڈسٹری ٹیکسائل کابھی یہ عالم ہے کہ ٹیکسوں کے اس نئے نظام کے خلاف پاکستان ٹیکسٹائل پروسیسنگ انڈسٹری نے ہڑتال پر ہیں۔دوسری جانب ایمبرائیڈری مشین ایسوسی ایشن کی بھی تین روز سے ہڑتال جاری ہے، جبکہ گوجرانوالہ میں بھی 17 فیصد ٹیکس لگانے کے خلاف 35 ہزار سے زائد پاور لومز نے ہڑتال کردی ہے جبکہ پاور لومز بند ہونے سے ڈیڑھ لاکھ سے زائد مزدور بے روز گار ہو گئے۔
ایسوسی ایشن کے مطابق بجٹ اقدامات، گیس ٹیرف میں اضافے اور ڈالر کی قدر میں ہونے والی نمایاں کمی کے باعث مقامی ڈائنگ اور پرنٹنگ انڈسٹری کی کاروباری لاگت 40فیصد بڑھ گئی ہے جبکہ اس شعبے میں استعمال ہونیوالا خام مال بھی 30فیصد مہنگا ہوچکاہے۔دوسری جانب اربوں روپے کا ریونیو دینے والی پاکستان کی دوسری بڑی انڈسٹری ”پلاسٹک”بھی اپنے مشکل ترین وقت سے گزر رہی ہے ۔ حکومت کی جانب سے سلسلہ وار پلاسٹک کے لفافوں پر پابندی کا آغاز اسلام آباد سے کیا جارہا ہے ، جس کے باعث پاکستان پلاسٹک ایسوسی ایشن بھی پریشان حال ہے ، دوروز قبل اس حکومتی اقدام کے خلاف لاہور میں تقریباً پچھترفیکٹریز مالکان سر جوڑ کر بیٹھنے پر مجبور ہوگئے جنکا موقف تھا کہ یہ ڈیڑھ سو ارب کی انڈسٹری ہے جس سے بلاواسطہ اور بلواسطہ سولہ لاکھ افراد کا روزگار وابستہ ہے ،پوری دنیا میں پلاسٹک بیگز کا استعمال جاری ہے مگر پاکستان میں چند نام نہاد این جی اوز کے منفی پروپیگنڈے میں آ کر حکومت غلط فیصلہ کر رہی ہے۔
فیکٹریز مالکان کا کہنا تھا کہ اس وقت حکومت کیلئے سب سے اہم کام معیشت کو سنبھالنا ، انڈسٹریز کو سپورٹ کرنا اور ریونیو اکٹھا کرنا ہے مگر ایسے اقدام سے انڈسٹری بھی تباہ ہو جائے گی اور ریونیو کی مد میں اربوں روپے کی کمی بھی واقع ہو جائے گی جب کہ بے روزگاری میں اضافے کے قوی امکانات ہیں ۔ یہاں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان کی انڈسٹریز پر آنے والے کڑے وقت کا ذمہ دار بھی سابقہ حکومتوں کو ٹھہرایا جائیگا؟ نہیں۔حکومت معاشی و اقتصادی بحران کی موجودہ صورتحال کی کچھ ذمہ داری اپنے اوپر بھی عائد کرے ۔حکومت کو سمجھنا ہوگا کہ ان کی جانب سے کچھ فیصلے صنعتکاروں ،سرمایہ کاروں کی کاروباری سرگرمیوں پر کاری ضرب کے مترادف ہے جس کے منفی اثرات براہ راست ہماری معیشت پر بھی اثرانداز ہو رہے ہیں۔
ماحولیاتی آلودگی کی سب سے بڑی وجہ پلاسٹک کو قرار دے کر اس انڈسٹری کو تباہ کردینا کوئی دانش مندانہ فیصلہ نہیں کیونکہ بہتر ویسٹ مینجمنٹ کی سہولیات بھی حکومت کی ہی ذمہ داری ہے اور اُس پر عملدرآمد کروانا بھی جبکہ بہتر آگاہی مہم سے عوام الناس کو بھی پلاسٹک بیگز کے غلط استعمال سے رُوکا جاسکتا ہے ۔حکومت کو چاہیے پلاسٹک انڈسٹری کے حوالے سے اپنے فیصلوں پر نظرثانی کرے اور اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے کوئی قابل قبول جامع اور موثر حکمت عملی طے کرے تاکہ پاکستان میں 700 کے قریب چلنے والے بڑے یونٹس اور ہزاروں چھوٹے کارخانوں کو مزید سہولیات سے آراستہ کیا جاسکے،بلکہ ان کے لئے اسپیشل انڈسٹری زونزبنا کر اس انڈسٹری کو برآمدات کا بڑا حصہ بنانے کیلئے بھی اقدامات ہونے چاہیے۔