تحریر : نجم الثاقب ڈ بلیو۔ ایچ۔ او (ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن ) نے برائے اعظم ایشیا کے تین صنعتی ممالک انڈیا، پاکستان اور منگولیا کو ماحولیاتی پالویشن میں خطرناک قرار دیا ہے۔ خطہ ارض پر بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظرضرورت زندگی میں تیزی سے اضافہ ہو تا چلا جار ہا ہے۔ روز مرہ اشیائے خورد نوش کی قمیتیں اور ان کی طلب بڑھتی جا رہی ہے۔ انسان نے جدت پسندی وفراوانی کے ساتھ ہزار ہا نت نئے آسانیاں اور وسائل تلاش کئے ہیں سائنس کی ترقی و خوشحالی کی ایک مثال پلا سٹک سے تیار شدہ مصنوعات کا بے پناہ استعمال ہے جو آج ہمارری روز مرہ زندگی کا اہم جزو بن چکا ہے۔ پلاسٹک پولیمر ہے جو کئی کیمیائی عناصر و اجزاء سے مل کر بنتا ہے ۔ ماہرین کے مطابق پلاسٹک اور کیمیائی دھات سے انسانی صحت کو بہت خطرات لاحق ہو رہے ہیں۔ پلاسٹک سے بنائی گئی مصنوعات و اشیاء ایک صدی کے بعد بھی جینیاتی طور پر( ٹوٹ پھوٹ کے بعدختم نہیں ہوتی) میلٹ نہیں ہوتیں۔ تجربات کے بعد ماہرین کا مننا ہے کہ پلاسٹک کو لمبے عرصے تک اگر زمین میں دفن بھی رکھا جائے تب بھی اس کی حالت میں خاطر خواہ تبدیلی واقع نہیں ہوتی ۔اس کا حل صرف حرارت ، ہیٹ یا کیمیائی محلول ہیں جن کے ذریعے سے ہی پلاسٹک کو با سانی ختم کیا سکتا ہے او ر اس کے ساتھ ری سائیکل کے لئے نئے کیمیائی عناصر کے ملاپ سے نئے رنگوں اور اشکال میں ڈھالا جا سکتا ہے۔
پلاسٹک کی ری سائیکل کے دوران ہیٹ پروسیس سے کئئ خطرناک اقسام کی گیسیں اور کیمیکل کا اخراج وجود میں آتا ہے ۔ یہ گیسیسں اور کیمیکل ہوا میں شامل ہو کر آب و ہوا (گلوبل وارمنگ ) میں درجہ حرارت میں اضافہ کے ساتھ انسانوں و حیوانوں کے لئے بے پناہ مضر صحت امراض جن میں گلہ ، سانس اورکینسر سمیت دیگرموذی و جان لیوا بیماریاں کے پھیلائو کا باعث بنتی ہیں۔ پلاسٹک مصنوعات کے کارخانوں اور فیکڑیوں سے خارج ہونے والا آلودہ پانی سے زرعی زمینوں (اناج ، سبزیوں اور پھلوں)کو سیراب کیا جارہا ہے یہی وجہ ہے کہ انسانی جانوں میں قوت مدافعت کی کمزوری اور جان لیوا امراض میں اضافہ دن بد ن بڑھتا جا رہا ہے۔
روز مرہ کے رہن سہن میں تیزی کے ساتھ تبدیلیاں دیکھنے میں مل رہیں ہیں، ہر فرد کی کوشش ہے کہ وہ لباس ، وضع قطع میں دوسرے سے منفرد نظر آئےاسلئے ریشمی دھاتوں اور پولیسٹر سے تیار شدہ ملبوسات کابہت زیادہ استعمال عام ہو گیا ۔ شادی و بیاہ اور دیگر تقریبات میں خواتین کی تیاری ا ن ملبوسات کے بغیر ناممکن تصور ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے ملبوسات کے بہت زیادہ استعمال سے خواتین و بچوں میں جلدی امراض کا اضافہ بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔
گھروں کے اندر پلاسٹک کے برتنوں کا استعمال عام ہو چکا ۔بازاروں ، مارکیٹوں شاپنگ مال کے اندر پلاسٹک انڈسٹری و مصنوعات کی بھرمار ہے ۔ ملکی و غیر ملکی ہر قسم کے فورڈ زسیٹ، ٹی سیٹ، کراکری میں پلاسٹک کی بے پناہ ورائٹی موجود ہے ۔ ان برتنوں کے استعمال سے پلاسٹک کے اجزاء ہمارے جسم میں کھانے کا حصہ بن کر معدہ ، خوراک کی نالی اور دیگربیماریوں کا موجد بن رہیں ہیں۔
روز مرہ کی خریداری کے اندر پلاسٹک و شاپنگ بیگ کا استعمال بازاروں، مارکیٹوں، دوکانوں میں عام ہے ۔ ماہرین نے پلاسٹک بیگ و لفافے کی تیاری کے دو طریقے واضح کئے ہیں ، پہلاطریقہ قدرتی ہے جس میں جانووروں اور بناتاتی اجزاء سے لفافے بنائے جاتے ہیں اور دوسرا طریقہ تجرباتی ہے جس میں فیکٹریوں و کارخانوں کے اندر پلاسٹک اور دیگر کیمیلز کے استعمال سے شاپنگ بیگ بنانےجا رہے ہیں۔ پولی تھین کے یہ لفافے نکاسی آب کی لائنوں اور نقاصی آب کی املاک کو مکمل طور پر روک دیتے ہیں ہمارے ملک میں ری سائیکل اور ویسٹ مینجمنٹ کا نظام نہ ہونے کےبرابر ہے اس لئے پلاسٹک کے لفافے و بیگ سیوریج سسٹم کی تباہ و بربادی کا سامان پیدا کر رہیں ہیں۔ پائپ لائنز بلاک ہونے پر پانی سڑکوں اور گلیوں میں تالاب کا منظر پیش کرتا ہے جن پر مکھیاں اور مچھر کا بسیرا رہتا ہے اور وبائی امراض کے جراثیم بہت تیزی کے ساتھ افزائش نسل پاتے ہیں۔ پائپ لائنز پھٹ جانے سے بہت سے حادثات بھی رپورٹ ہوئے ہیں۔ سالانہ ترقیاتی کاموں کی مد میں بھاری فنڈ نالوں، کسیوں اور ویسٹ لائنوں کی صفائی وستھرائی اور مرمت پر خرچ ہو تے ہیں ۔ عوام کی ویلیفئر کا پیسہ جو صحت ، تعلیم اور دیگر فلاح و بہبود پر خر چ ہو نا چاہئے وہ ہر سال ان ترقیاتی کاموں کی نظر میں ضائع ہو جاتا ہے۔
یورپ میں ہر سال اوسطاً فی شہری دو سو پلاسٹک بیگ استعمال کرتے ہیں جن میں وقت کے ساتھ روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔آٹھ بلین سے زائد شاپنگ بیگز کوڑے میں پھینک دیا جاتا ہے ، جوماحولیاتی آلودگی کا سبب بنتا ہے ۔ یورپی کمیشن نے ارد گرد کے ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کے لئےکئی تجاویز پیش پر عمل درآمد شروع کیا ہے جن میں 50 مائیکرونز یا 0.05 ملی میٹر سے کم موٹائی والے شاپنگ بیگ ، کیریئر بیگز کے استعمال کو کم سے کم کرنا، انتہائی پتلے پلاسٹک بیگ ری سائیکل نہ کرنا تاکہ پلاسٹک کے زیادہ موٹے شاپنگ بیگز کے مقابلے میں یہ کوڑے کرکٹ کے ڈرموں ، باسکٹوں میں زیادہ استعمال ہوسکے جیسے موثر اقدامات شامل ہیں ۔ کسمٹرز اور صارفین سے پلاسٹک کے ان ڈسپوزایبل شاپنگ کی فراہمی پر معمولی سے قیمت بھی چارج کی جائے گی۔ آئندہ برسوں میں یورپی یونین نے پلاسٹک کے شاپنگ بیگز کے استعمال کی کمی اور مجموعی حجم میں اوسطاﹰ 80 فیصد کمی کا ٹارگٹ طے کیا ہے۔
تمام شہریوں کو چاہیے کہ اپنے زندگیوں میں قوت مدافعت کو بڑھانے کے اور بیماریوں سے لڑنے کے لئے پلاسٹک کے استعمال کو اپنی روز مزرہ زندگی سے کم سے کم کر دیں ۔ بازار میں خریداری کے دوران کپڑے کا تھیلے کی عادات ڈالیں۔ اشیاء خورد و نوش ، پھل اور سبزی کی خریداری کے لئے لکڑی ، کین ٹوکری کا استعمال کریں ۔ پلاسٹک کے لفافوں میں روٹیاں، سالن اور دیگر اشیاء کی پیکنگ نہ کروائیں۔ گھروں ، دفاتر میں پلاسٹک کے برتن کی بجائے مٹی، چینی اورکانچ کے برتنوں کے پرانے رواج کو اپنائے۔ گھروں میں فریج میں رکھے ہوئے سالن اور دیگر اشیاء کو چولہے پر گرم کریں۔ اوون میں گرم کرنے پر پلاسٹک کی بجائے شیشے ، مٹی یا چینی کے برتن کا استعمال کریں اور گرم کرتے وقت برتن کو ڈھانپ کر رکھیں۔ خواتین کپڑوں کی تیاری کے دوران سوتی اور کاٹن کا استعمال زیادہ کریں تاکہ جلدی امراض سے بچا جا سکیں۔
گورنمنٹ کی ذمہ داری ہے کہ وہ پلاسٹک کے متبادل استعمال کو فروغ دینے کے لئے آگہی مہم کو باقاعدگی سے شیڈول کا حصہ بنائیں۔ کاروبای اور صنعتی طور پر پلاسٹک کی عدم پذیرائی کے لئے حکومت سخت قوانین اور اضافی محصول عائد کر ے۔ کاروباری و تجارتی تنظمیں اور اداروں کو ماحول دوست متبادل اختیار کرنے پر خصوصی مراعات سے نوازا جائے تاکہ وہ اس تبدیلی کی محنت کو بار محسوس نہ کریں۔پرنٹ وسوشل میڈیا ، ذرائع ابلاغ ایسےپروگرام کا شروع کریں جس سےشہریوں میں پلاسٹک کےمضحت صحت اثرات سے آگہی مل سکیں۔ سکولوں اور کالجوں میں ایسے پروگرام کا آغاز کیا جائے جہاں نئی نسل کو دور حاضر کے ان چیلنجز سے نمنٹے کے طریقے بتائے جائیں۔