ایڈن برگ: اگر آپ کو ایسی آئس کریم کھانے کا کہا جائے جس میں ذائقہ پلاسٹک فضلے کے مرہون منت ہو تو آپ کا کیا ردعمل ہوگا؟ سائنس دان جنیاتی انجینئرڈ بیکٹریا کے ساتھ پلاسٹک فضلے کو ونیلا فلیوز میں تبدیل کرنے میں کام یاب ہو گئے ہیں۔
تحقیقی سائنسی جریدے گرین کیمسٹری میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق کے بارےمیں سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ونیلا ذائقہ اور خوشبو ایک مرکب ’ وینیلائن‘ سےبنتا ہے جسے قدرتی طور پرونیلا کے بیجوں سے ایکسٹریکٹ (نکالا) کیا جاتا ہے، جب کہ یہ ذائقہ مصنوعی طور پر بھی بنایا جاتا ہے۔ 85 فیصد وینیلائن کو رکازی ایندھن( فوسلز فیول) سے حاصل ہونے والے کیمیکل سے بنایا جاتا ہے۔
کھانوں، کاسمیٹک، ادویہ سازی، جڑی بوٹی مار ادویات میں وینیلائن کے بڑھتے ہوئے استعمال سے اس کی طلب تیزی سے بڑھ رہی ہے، اور 2025 تک اس کی سالانہ طلب 65 ہزار ٹں تک پہنچنے کی توقع کی جا رہی ہے۔ وینیلائن کی اس طلب کو دیکھتے ہوئے سائنس دانوں نے پلاسٹک فضلے کو وینیلائن میں تبدیل کرنے کے لیے ایک انوکھا طریقہ استعمال کیا، جس سے اس کیمیکل کی طلب کو پوری کرنے کے ستھ ساتھ پلاسٹک سے ہونے والی آلودگی میں بھی کمی واقع ہوگی۔ اس نئے طریقے میں یونیورسٹی آف ایڈن برگ کے محققین نے جنیاتی طور پر تبدیل شدہ E. coli بیکٹریا کو ٹیراپیتھلک ایسڈ کو وینیلائن میں تبدیل کرنے کے لیے استعمال کیا۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ٹیراپیتھلک ایسڈ اور وینیلائن کی کیمیائی ترکیب بہت حد تک یکساں ہے اورانجینئرڈ بیکڑیا صرف ایک ہی کاربن بیک بون کے ساتھ جڑے ہائیڈروجن اور آکسیجن کے نمبروں میں معمولی تبدیلی کے لیے ضروری ہے۔
اس طریقے میں سائنس دانوں نے جنیاتی انجینئرڈ بیکٹریا کو ایک دن کے لیے ٹیراپیتھلک ایسڈ کے ساتھ 37 ڈگری درجہ حرارت پر رکھا، جس سے 79 فیصد ٹیراپیتھلک ایسڈ وینیلائن میں تبدیل ہوگیا۔
اب وہ دن دور نہیں جب آپ پلاسٹک کے فضلے سے بنی ونیلا آئس کریم اور دیگر اشیا کو مزے سے کھا کر دنیا بھر میں پلاسٹک فضلے میں کمی کے لیے اپنا کردارادا کریں گے۔
یاد رہے کہ پلاسٹک کا فضلہ ماہرین ماحولیات کے لیے ایک بڑا درد سر ہے، کیوں کہ یہ سینکڑوں سال بعد بھی تلف نہیں ہوپاتا، اس صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے سائنس دان پلاسٹک کے فضلے کو ری سائیکل کرنے کے لیے مختلف تجربات کر رہے ہیں۔