خوش گوار ہوا کا جھونکا کیا ہاکی کی ماند پڑی چمک دمک کو بحال کر پائے گا؟

Hockey

Hockey

تحریر : رشید احمد نعیم
کھیلوں کو انسانی زندگی میں بہت اہمیت حاصل ہے کھیل سے جسمانی صحت بہتر ہوتی ہے یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ کھلاڑی عام لوگوں کی نسبت جسمانی اعتبار سے زیادہ مضبوط اور توانا ہوتے ہیں جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ کھیل اَخلاقی تر بیت کا بھی ایک موثرذریعہ ہیں کھلاڑی کو کھیل کے اصول وقواعدکی پابندی کرنا سکھائی جاتی ہے ایک کھلاڑی کھیلتا تو جیت کے لیے ہے مگر جب وہ ہار جاتا ہے تو اپنی ناکامی کو خوش دِلی سے قبول کرتا ہے اپنی کمزوریوں پر قابو پا کر اگلے مقابلے کے لیے تیا ر ہو جا تاہے یوں کھیل کی وجہ سے ایک کھلاڑی میں فراخ دلی بلند حوصلگی اور جہد مسلسل کی صلاحیتیں پیدا ہوتی ہیں پاکستان میں بہت سے کھیل نہایت دل چسپی اور شوق سے کھیلے جاتے ہیں ان میں ایک ہاکی ایسا کھیل ہے جسے پاکستان کا قومی کھیل کہا جاتاہے اِس کھیل کی تاریخ کا مطالعہ کر یں توپتہ چلتا ہے کہ یہ ایک قدیم کھیل ہے جس کا آغاز ایران سے ہوا۔

ایران سے یورپ میں پہنچا۔یورپ میں یہ کھیل سب سے پہلے فرانس میں شروع ہوا،وہاںسے انگلستان پہنچا،اٹھارویںصدی عیسوی کے آغاز میں انگریزوں نے بر صیغر پاک وہند میں اِسے متعارف کرایا دیکھتے ہی دیکھتے قلیل عرصے میں یہ کھیل پورے ملک میں کھیلا جانے لگا ۔ہاکی کا کھیل 1908ء میں پہلی بار اولمپکس میں شامل کیا گیا ۔جس ملک نے سب سے پہلے اولمپکس میں طلائی تمغہ جیتا ،وہ بر طانیہ تھا 1928 ء میں ہند وستان کی ٹیم نے ہالینڈ کے شہرایمسٹرڈم میں کھیلے جانے والے اولمپکس میں پہلی مرتبہ حصہ لیا اور طلائی تمغا جیتا ۔1940 ء تک یہ اعز از ہندوستان کے پاس رہاپاکستان کی ہاکی ٹیم پہلی مرتبہ بین الاقوامی مقابلوں میں 1948 ء میں شریک ہوئی۔

Hockey Championship

Hockey Championship

اِس کے کپتان علی اقتدار دارا تھے جو قیام ِپاکستان سے پہلے متحدہ ہندوستان کی ہاکی ٹیم کے نامور کھلاڑی تھے ملک میں پہلی بار قومی ہاکی چمپئین شپ 1948 ء میں لاہور میں منعقد ہوئی پاکستان نے 1954 ء کے ہاکی کے اولمپک مقابلوں میں نہ صرف شرکت کی بلکہ نقرئی تمغہ بھی جیتا اس کے بعد پاکستان کی ہاکی ٹیم کا فتوحات حاصل کرنے اور اعزازات جیتنے کا ایک سلسلہ چل نکلا1958 ء کے ٹوکیو کے اپشیائی کھیلوں میں طلائی تمغہ 1960 ء میں ورم کے اولمپکس کھیلوں میں طلائی تمغہ 1962 ء کے ایشیائی کھیلوں میں طلائی تمغہ اور 1968 ء اور 1984 ء کے اولمپکس میں طلائی تمغے جیتنے کے اعزازات خاص طور قابل ذکر ہیں پاکستان ہاکی فیڈریشن کا قیام 1978 ء میں عمل میں آیا پاکستان نے ہاکی کے کئی ناموراورعظیم کھلاڑی پیدا کیے ہیں جن کی فہرست طویل ہے۔

مگر ان سے جن کھلاڑیوں کو بہت زیادہ شہرت اور مقبولت حاصل ہوئی اُن کے نام یہ ہیں نصیر بندہ، عاطف حمیدی ،منیرڈار،اصلاح الدین ،منورا لزمان ،منظور جونیئر ،رشید جونیئر ،سلیم شروانی ،سمیع اﷲ، شہناز شیخ ۔اختررسول اور حسن سردار ۔پاکستان کے ہاکی سٹائل کو ایشیائی سٹائل کہاجاتاتھا جس میں کھلاڑی ایک دوسرے کو چھوٹے چھوٹے پاس دے کر برق رفتاری سے مخالف ٹیم کے کھلاڑیوں کے درمیان سے گیند لے جا کر مخالف ٹیم کے گول پر حملہ آور ہوتے تھے قدرتی گھاس پر ہاکی کے اِس سٹائل کے سامنے یورپی ٹیمیں بے بس تھیںچنانچہ ایشیائی ہاکی سٹائل کو ناکام بنانے کے لیے یورپی ٹیموں نے قواعدوضوابط میں تبدیلیاں کرائیں میچ کھیلنے کے لیے قدرتی گھاس کی بجائے مصنوعی گھاس آسٹروٹرف پولی ٹرف وغیرہ کو رواج دیا اس وقت ہمارے کھلاڑی سخت محنت کرنے اور اچھا کھیل کھیلنے کے باوجود کامیابی کے وہ نتائج حاصل نہیں کرپارہے جو ماضی میں ان کا طرہ امتیاز رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ عالمی درجہ بندی میں اب ہماری ہاکی ٹیم سرفہرست نہیں ہمیں موجودہ صورت ِحال سے مایوس ہونے اکی نجائے سخت محنت کرنی چاہیے۔

Pakistan Hockey Team

Pakistan Hockey Team

توقع ہے کے اپنی محنت کے بل بوتے پر پاکستان کی ہاکی ٹیم جلد ہی دنیا کی صفِ اول کی ٹیموں میں شمار ہونے لگے گی ہاکی کا کھیل اب پوری دنیا میں مقبول ہے ملک عزیز پاکستان کے علاہ یہ کھیل بھارت ملائیشیا چین جنوبی کوریا جاپان آسٹریلیا نیوزی لینڈ جرمنی ہالینڈ انگلستان فرانس جنونی افریقہ اور ارجنٹائن وغیرہ میں ذوق وشوق سے کھیلا جاتا ہے ہاکی کے کھیلوں کے بڑے بڑے ٹورنامنٹ اولمپکس چیمپینز ٹرافی اور ورلڈ کپ ہیں جن میں تقریبا تمام اہم ٹیمیں حصہ لیتی ہیں ماضی کے ان مقابلوں میں پاکستانی ٹیم نے بہت اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔

مگر حکومتی عدم دلچسپی ،اقربا پروری ،سیاسی اثرورسوخ،ذاتی چپکلقش اور انا پرستی جیسے عناصر نے پاکستان ٹیم کی کارگردگی پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں جس کی وجہ سے آسمان کی بلندیوں کو چھوتا ہوا چمکتا دمکتا تارا آج اپنی چمک دمک سے محروم ہو چکا ہے وہ ٹیم جس کے میدان کھیل میں اترنے پر مخالف ٹیم کے کھلاڑیوں کے چہرے ز رد پڑھ جاتے اور پسینے چھوٹ جاتے تھے آج انتشار اور زوال کا شکار ہو چکی ہے مگر امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چائیے ایک عرصے کے بعد ایک بار بھرگوہاٹی کے میدان میں سیف گیمز کے فائنل میں پاکستانی ہاکی ٹیم کے پرعزم اور بہادر کھلاڑیوں نے ہمارے روایتی دشمن ہندو ستان کو شکست دیتے ہوئے گولڈ میڈل کا اعزاز سینے پر سجا کر کا میابی و کامرانی کے ذینے پر قدم رکھا ہے ہاکی کے کھیل میں یہ ہوا کا ایک خوشگوار جھونکا ہے جس سے ہر پاکستانی کو راحت و خوشی محسوس ہوئی ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اس سلسلے کو قائم رکھا جائے اور ماضی کی غلطیوں اور تلخیوں کو بھول کر نئے ولولے ،نئے عزم ، نئے جوش و جذبے اور نئی امنگ سے میدان کھیل میں اترا جائے تاکہ ماضی کا سنہری دور واپس آ سکے اگر آج بھی خلوص نیت سے ٹیم کی تشکیل نو میرٹ پر کی جائے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ پاکستان اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل نہ کر پائے حکومت سر پرستی کرئے اور توجہ دے تو جلد ہی پاکستانی ٹیم کا شمار ایک بار پھر صف اول کی ٹیموں میں ہونے لگے گااور پھر پاکستانی ٹیم مستقبل قریب میں اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرلے گی اور ماضی کی شان دار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی قابلِ رشک تاریخ کو ایک بار پھر دہرائے گی۔

Rashid Ahmed Naeem

Rashid Ahmed Naeem

تحریر : رشید احمد نعیم
موبائل نمبر…………….0301.4033622
ای میل…………………rasheed03014033622@gmail.com