یہ ایک حقیقت ہے کہ آج کی تقریب کے مہمانِ خصوصی (سفیرِ پاکستان جمیل احمد خان) اور آج کے میزبان ( مجلسِ قلندرانِ اقبال) کے سارے ممبران کا تعلق مڈل کلاس گھرانوں سے ہے جو نہ تو لا ل و زرو جواہر کے مالک ہوتے ہیں اور نہ ہی انکے دل میں اسکی حوص، لالچ اور طمع ہوتی ہے جسطرح کی ہوص و طمع اہلِ ہشم طبقات میں پائی جاتی ہے۔ متوسط طبقے کے افراد محبت کے راہی ہوتے ہیں اور محبت کا اظہار اپنے انداز میں کرنا چاہتے ہیں اس لئے ا نہیں سطحی اور بناوٹی رویوں کے اظہار سے کوئی سرو کار نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ رکھ رکھائو اور تکلفات پر وقت ضائع کرتے ہیں۔
وہ اپنی محبت کی رو میں بہتے چلے جاتے ہیں اور ہر شہ سے بے نیاز اپنی وفائوں کے پھول کھلاتے چلے جاتے ہیں۔ میرے ان الفاظ کا مقصد اہلِ زر طبقے کی تحقیر کرنا یا انکی اہمیت کو کم کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ انھیں اس بات کا احساس دلا نا ہے کہ دولت بذاتِ خود کوئی خوبی اور قدر نہیں ہے بلکہ خوبیوں کا مرقع انسان کی ذات اور اسکے افعال و کرادر ہوا کرتے ہیں اور یہی افعال و کردار انسان کی عظمت اور بڑائی کی بنیاد بنتے ہیں۔ اہلِ ہشم طبقے کو یا دکھنا چائیے کہ دولت ایک دیوارہے حصار نہیں ہے اور دیواریں ہمیشہ گر جایا کرتی ہیں۔
کسی بھی مقبول عوامی شخصیت کیلئے حصار دولت نہیں ہوتی بلکہ ہمیشہ اسکے دوست ہوا کرتے ہیں، اصول ہوا کرتے ہیں، ضابطے ہوا کرتے ہیں، انسانی قدریں ہوا کرتی ہیں اور مذہبی قوت ہوا کرتی ہے اور جوو کوئی بھی ان حصاروں میں پناہ گزین ہو جاتا ہے وہ ہر بلا سے محفوظ ہو جاتا ہے لیکن دولت کے پجاری سیم و زر کی پناہ چاہتے ہیں۔ انھیں قدروں کے حصار سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی جسکی وجہ سے وہ ارتکازِ دولت کی ہوس اتنی بڑھا لیتے ہیں جو کبھی بھی بجھنے کا نام نہیں لیتی اور ایک دن وہ دولت کی اسی پیاس کی شدت سے دم توڑ جاتے ہیں۔
تو ان کے پیچھے ان کا نام لینے ولاا کوئی ایک فرد بھی باقی نہیں بچتا کیونکہ انھوں نے انسانوں سے نہیں بلکہ ایک ایسی شہ سے محبت کی ہوتی ہے جو اپنے اندر کوئی خو بی نہیں رکھتی۔ انسانوں کو دولت نہیں بلکہ انسان دوستی زندہ رکھتی ہے، موت کے ساتھ دولت پرست انسان کا نام بھی مٹی میں مل جاتا ہے کیونکہ دولت کے بچاریوں کا تاریخ میں یہی انجام ہوا کرتا ہے۔ سیانے کہتے ہیں دولت ہاتھ کے میل کی طرح ہوتی ہے جو سدا ہاتھوں کے ساتھ چمٹی نہیں رہ سکتی لیکن پھر بھی نہ جانے اہلِ زر اس میل سے اتنی محبت کیوں کرتے ہیں۔
Allama Iqbal
بہر حال یہ ایک کڑوا سچ ہے کہ مڈل کلاس کے افراد کے پاس دولت کی بجائے ایک ایسی چیز ہوتی ہے جو اہلِ ہشم کے ہاں مفقود ہوتی ہے اور جو صرف علم کے جوئیوں کی پہچان اور اثاثہ ہوتی ہے۔ محبتوں کے یہ جذبے ایسی لازوال متاع ہوتے ہیں جسے فنا ممکن نہیں ہوتا۔ اہلِ جہاں اس بیش قیمت اور بے مثل اثاثے کودل کے نام سے پکارتے ہیں لیکن اقبال جیسا عظیم فلسفی شاعر اسے متاعِ عشق سے تعبیر کرتا ہے۔یہ قوتِ عشق کا کمال ہوتا ہے جو پہاڑوں کو سر نگوں کر دیتا ہے، دریائوں کا رخ موڑ دیتا ہے، صحرائوں کی وسعت کو سمیٹ کر رکھ دیتا ہے۔
اور بلند و بالا چوٹیوں کو جھکا دیتا ہے۔ دنیا کی ساری دلکشی، خوبصورتی، رنگینی اور گہما گہمی اسی جذبہِ عشق کی مرہونِ منت ہوتی ہے جو صرف اسی خاص طبقے کا طرہِ امتیاز ہوتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس وصف کے حامل افراد سچے دل سے محبت بھی کرتے ہیں اور محبت کا قرض بھی اتارتے ہیں لیکن بعض اوقات دوسرے انسانوں کو یہ علم اور احساس بھی نہیں ہونے دیتے کہ ان میں سے محبت کون کر رہا ہے اور محبت کا قرض کون اتار رہا ہے۔
جھنیں میری بات کا یقین نہ آئے وہ عشق و محبت کی لوک داستانوں کے ساتھ ساتھ ذو لفقار علی بھٹو اور عوام کی باہمی محبت کی داستان کا بغور مطالعہ کر لیں تو ان پر یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جائیگی کیونکہ محبت کی اس لازوال داستان میں ابھی تک یہ طے نہیں ہو سکا کہ ذولفقار علی بھٹو نے عوام سے محبت کرنے یا عوامی محبت کا قرض اتا رنے کی خاطر سرِ دار کو چوما تھا یا پھر پاکستانی عوام نے ذولفقار علی بھٹو سے محبت کرنے یا اسکی محبت کا قرض اتارنے کی خاطر آہنی زنجیروں، بھاری بھر کم ہتھکڑیوں اور بلند و بالا زندانوں کی صعوبت انگیز ساعتوں کوا پنا مقدر بنایا تھا۔
یہ سر پھرے عشاق، جنونِ وفا میں اپنی محبت کی حقانیت، اسکی سر بلندی، وقار اور وفا کے گیت گاتے ہیں، عشق کو نئے افق عطا کرتے ہیں، ایک انوکھی، منفرد، دلکش اور رنگین دنیا آباد کرتے ہیں اور سرِدار یہ نعرے بلند کرتے ہیں اسی سوداگر پریم نگر دے دل دا سودا دل نل کردے کردے نئیں ادھار بیبا آئے دل کا کرن بیوپار بیبا۔ تحریکِ آزادی کے ایک نامور سپوت سید عطا اللہ شاہ بخاری کہا کرتے تھے کہ محفلِ عدومیں جائو تو اپنے جوتے لشکا پشکا کر جائو کیونکہ عدو نے سب سے پہلے تمھارے جوتے دیکھنے ہوتے ہیں اور اسی سے تمھاری حیثیت کا تعین کرنا ہوتا ہے۔
Quaid-e-Azam Mohammad Ali Jinnah
لیکن جب دوستوں کی محفل میں جائو تو اپنا منہ دھو دھا کر ہشاش بشاش اور خوش و خرم جائو کہ دوست نے رخِ یار پر رقصاں خوشی سے اپنے دل کو خوش کرنا ہوتا ہے۔ یار کے چہرے پر خوشی کو رقصاں دیکھ کر دوست کا دل بھی خوشی سے کھل اٹھتا ہے کیونکہ اس کیلئے دوست کی خوشی میں ہی اس کی خوشی پنہاں ہوتی ہے۔ اسی طرح کی خوشی کے حصول کی خاطر برصغیر ک پاک و ہند کے عظیم اور نامور راہنما قائدِ اعظم محمد علی جناح ایک درویش صفت دوست کے ہاں اس کے چہرے کی زیارت کیلئے تشریف لے گئے تھے اور اس زیارت سے وہ روشنی حاصل کی تھی۔
جس نے ان کیلئے کا میابیوں کی نئی راہیں کھول دیں تھیں۔ روشنی یوں ہی نہیں ملا کرتی کہیں پر لو لگانی پڑتی ہے تو تب کہیں جا کر یہ روشنی مقدر بنتی ہے۔ قائدِ اعظم محمد علی جناح کے اندازِ سیاست سے آگاہی رکھنے والے ہر شخص کو علم ہونا چائیے کہ قائدِ اعظم محمد علی جناح کو علا مہ اقبال سے بے پناہ عقیدت تھی کیونکہ انھوں نے متحدہ ہندوستان کے اپنے نظریے کو علامہ اقبال کے علیحدہ اسلامی ریاست کے نظریے کے سامنے خیر باد کہہ دیا تھا۔ اپنے نظریات کو کسی دوسرے کے نظریے کیلئے قربان کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہوتی۔
اور اگر قربانی دینے والی شخصیت قائدِ اعظم محمد علی جناح کی ہو تو اس سے علامہ اقبال کی عظمت کو سمجھنا چنداں دشوار نہیں رہتا۔ یہ اسی لذتِ آشنائی کا کمال تھا کہ وہ شاہینِ افلاکِ سیاست و تدبر بن کر سامنے آئے اور کامیابیوں نے ان کے قدم چومے یہ ١٩٣٦ کا واقعہ ہے کہ قائدِ اعظم محمد علی جناح ڈاکٹر علامہ اقبال کی دو کمروں پر مشتمل معمولی سی رہائش گاہ پر ان سے ملاقات کیلئے تشریف لے گئے۔ علامہ اقبال درویشانہ لباس میں ملبوس تھے جبکہ قائدِ اعظم محمد علی جناح سوٹ بوٹ میں ملبوس تھے۔ قائدِ اعظم کی سوانح عمری کے مصنف بتھیلو لکھتے ہیں۔
کہ قائدِ اعظم محمد علی جناح کے سوٹ کی کریز تلوار کی دھار کی طرح تیز اور اکڑی ہوئی تھی جب کہ علامہ اقبال معمولی قسم کا درویشانہ لباس زیبِ تن کئے ہوئے تھے لیکن دوست کے آنے کی خوشی ان کے چہرے پر رقصاں تھی اور ان کے دلی جذبات کی آ ئینہ دار تھی۔ یار کی اسی خوشی کو دیکھنے اور محسوس کرنے کیلئے ہی تو برِصغیر پاک و ہند کا عظیم راہنما درِ یار پر حاضر ہوا تھا۔ قائدِ اعظم محمد علی جناح اپنے پیارے دوست سے اہلِ پنجاب کی محبت کی درخواست کرتے ہیں جس کے جواب میں علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ اگر آپ یہ چاہتے ہیں۔
کہ میں پنجاب کے جاگیر داروں، نوابوں سرمایہ داروں اور صنعت کاروں کی حمائت کا آپ کو یقین دلائوں تو یہ بات ممکن نہیں ہے لیکن اگر آپ اس لئے آئے ہیں کہ میں اس خطے کے غریب اور مڈل کلاس طبقے کی حمائت آپ کی جھولی میں ڈال دوں تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اس اس طبقے کی حمائت سدا آپ کے ساتھ رہیگی اور یہ کبھی آپ کو مایوس نہیں کریں گئے۔
درویش دوست کی عطا کردہ یہ محبت سدا قائدِ اعظم محمد علی جناح کے ساتھ رہی اور انھوں نے اسی عطا کردہ محبت کی قوت سے تخلیقِ پاکستان کا معجزہ سر انجام دیا۔ بتھیلو لکھتا ہے کہ اپنے دوست کے منہ سے عطائے محبت کی یہ بات سن کر قائدِ اعظم محمد علی جناح اپنی کرسی سے اچھل پڑے اور بے ساختہ بول ا ٹھے کہ عوام کی اسی حمائت کیلئے تو میں آپ کے ہاں حاضر ہوا تھا۔