تحریر : ماجد امجد ثمر نابالغ بچوں کا روذی کے حصول کیلئے کام کرنا چائلڈ لیبر کہلاتا ہے۔ بچوں کے کام کرنے کی جو سب سے بڑی وجہ دیکھنے میں آئی ہے وہ غربت ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری کے اس دور میں ان مزدوری کرنے والے بچوں کے والدین کے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے کہ وہ اپنے بچوں کو باآسانی تعلیم دلا سکیں۔بچوں سے ان کی بچپن کی خوشیاں چھین کر ان سے مشقت والا کام لینا ان کی ذات کے لئے ذہنی، جسمانی، سماجی اور اخلاقی طور پر انتہائی خطرناک اور نقصان دہ ہے۔
کیونکہ جس عمر میں بچوں کے ہاتھ میں کتابیں اور کھلونے ہونے چاہیئے اس عمر میں ان معصوم ہاتھوں میں بھاری اوزار اور ہوٹل کے برتن تھما دیئے جاتے ہیں ۔یا اس کے علاوہ کئی دیگر محنت مشقت والے کاموں میں مصروف کر دیا جاتا ہے۔
انہی کے بارے میں کسی نے کہا ہے کہ’ ‘ افلاس کی بستی میں جا کر تو دیکھو ۔۔وہاں بچے تو ہوتے ہیں مگر بچپن نہیں ہوتا”۔ افراطِ زر بھی بچوں کو مزدوری کرنے تک لانے کی ایک اہم وجہ ہے کیونکہ طوفانی مہنگائی کے اس دور میں جب بچوں کے یا گھریلو اخراجات پورے نہیں ہوتے تو مجبوراََ والدین کو بچوںکو کام کاج پر بھیجنا پڑتا ہے اس کا بڑا مقصد یہ ہوتاہے کہ چاہے یہ بچے گھریلو اخراجات میں ان کی کوئی سپورٹ نہ کر سکیں لیکن کم ازکم اپنی ذات کا خرچہ تو خود بردشت کر لیں ۔سکول اور معیاری تعلیم کی عدم دستیابی بھی ایک اور اہم عنصر ہے جو بچوں کی مزدوری کا سبب بنتاہے اور حتی کہ بعض اوقات سکول دستیاب بھی ہوں لیکن وہ گھروں سے اتنا دور ہوتے ہیں کہ بچوں کی وہاں تک رسائی بہت مشکل ہو جاتی ہے ۔اوریوں یہ چیز بھی انہیں تعلیم سے دور کر دیتی ہے ۔اور مجبوراََ انہیںکہیں کام وغیرہ کرنا پڑتاہے کیونکہ ان کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی بہتر ذریعہ بھی نہیں ہوتا۔
چائلڈ لیبر کے خلاف عالمی دن ہر سال 12 جون کو پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں منایا جاتاہے جس کا مقصد بچوں کو کام کرنے سے روکنا ہے ۔ International Labour Organization :آئی ایل او نے چائلڈ لیبر ڈے یعنی مزدور بچوں کا عالمی دن پہلی مرتبہ 2002ء میں منایا۔ ILO نے بچوں کے ملازمت کرنے کی عمر کم از کم 15 سال تعین کی ہے ۔پوری دنیا میں صرف 49 ممالک ایسے ہیں جنہوں نے آئی ایل او کے اس کنونشن کی حمایت اور توثیق کی اور جن ممالک نے ان کی اس بات سے اتفاق نہیں کیا افسوس کے ساتھ بیان کرنا پر رہا ہے کہ اس میں پاکستان بھی شامل ہے۔Unicef نے بچے کی تعریف کچھ یوں کی ہے کہ کوئی بھی شخص جس کی عمر 18 سال سے کم ہے وہ ‘بچے ‘ کی کیٹگری میں آتا ہے۔
Child Labour in Pakistan
جو 18 سال سے کم عمر میں مزدوری کرتا ہے وہ چائلڈ لیبر کے زمرے میں آتا ہے ۔1990ء کی دہائی میں چائلڈ لیبر کا تصور بڑی توجہ کا باعث بنا ۔کیونکہ جب یورپین ممالک نے کم ترقی یافتہ ممالک کی پیدا کردہ اشیا ء پر بین کا اعلان کیاجس کی وجہ صرف یہ تھی کہ ان اشیاء کی تیاری میں بچوں سے مزدوری کروائی جاتی ہے ۔The Human Rights Commission of Pakistan کے 1990ء میں لگائے گئے ایک تخمینے کے مطابق اپنے ملک میں ایک کڑوڑ دس لاکھ بچے ایسے تھے جو کام کر رہے تھے اور جن کی عمریں 10 سال سے بھی کم تھی۔آج پاکستان میں 5-14 سال کی عمر کے بچوں کی تعداد تقریباََ 40 ملین یعنی چار کڑوڑ ہے جن میں سے اس عمر کے 38 لاکھ بچے ایسے جو کام کاج کر رہے ہیں ۔دنیا بھر میں زراعت کا شعبہ چائلڈ لیبر کا سب سے بڑا آجر ہے ۔پاکستان کے دیہی علاقوں میں آج بھی کام کرنے والے بچوں کی تعداد 60سے70 فیصد ہے۔جبکہ شہری علاقوں میں یہ تعداد 35 سے 40 فیصد ہے۔میرے دفتر میں قریبی ہوٹل سے دوپہر کا کھانا لانے والے تیرہ سالہ وسیم سے جب اس کے کام کی وجہ پوچھی تو اس نے بھی والدین کی طرف سے فیس ادا نہ کرنے کی وجہ بتائی اس نے بتایا کہ شہر میں آنے سے قبل وہ بھی کھیتوں میں کام کرتا تھا اور مزید اس نے یہ کہا کہ اس کے بڑے بھائی بھی سکول نہیں گئے یہ کہہ کر وہ خاموش ہو گیا۔ ایک اور بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کام کرنے والے ان بچوں کو معا شرے میں اس طرح عزت نہیں دی جاتی جس کے وہ حق دار ہوتے ہیں ۔انہیں طنزیہ لہجوں میں اوئے ،چھوٹے،کاکے وغیرہ جیسے لفظوں سے پکارا جاتا ہے۔
بعض اوقات چھوٹی موٹی غلطیوں پر مالکان کا ان پر گالم گلوچ اور تشدد وغیرہ تو بڑی ہی عام سی بات ہے۔حالانکہ اس عمر میں خاص کر بچوں کو پیار،عزت اور حوصلہ افزائی کی خاص ضرورت ہوتی ہے۔ان بچوں سے بعض جگہوں پر ان کی طاقت سے ذیادہ کام لیا جاتاہے لیکن اس کے بدلے میں جو اجرت انہیں دی جاتی ہے اس میں تو شائد آج کے زمانے میں ایک کلو دودھ بھی نہ آسکے۔پاکستان میں متوسط طبقے کا ایک شخص ایک دن میں اوسطاً 5 ڈالر کماتا ہے لیکن اس کو اپنی اس کمائی میں 8 سے دس لوگوں کا پیٹ پالنا ہے۔اگر انسان اپنے گردونواح کا جائزہ لے تو بہت سے بچے کئی ایسے سخت کام کرتے دکھائی دیتے ہیں جو ان کی اس عمر میں کرنے والے نہیں ہوتے۔یعنی وہ بالغ حضرات کا کام کر رہے ہوتے ہیں اس سے یہ ہوتاہے کہ کئی بالغ حضرات بے روزگار رہ جاتے ہیں ۔ ایک مستند رپورٹ کے مطابق پوری دنیا میں تقریباًٍ800 ملین افراد بے روزگار ہیںاور جبکہ مزدوری کرنے والے نابالغ بچوںکی تعداد پوری دنیا میں 300 ملین کے قریب ہے اگر ان بچوں کو ہٹا کر ان کی جگہ پر بالغوں کو کام پر لگایا جائے تو تین سو ملین افراد کو تو روزگار ملے گا۔
آج تعلیم سے محروم رہنے والے بچے مستقبل میں معاشرے کے ناخواندہ افراد بن کر ابھریں گے۔اور ملک میں معاشی ترقی لانے کے لئے اس میں افراد کا خواندہ ہونا بہت ضروری ہے۔اگر یہ چند اقدامات بھی کر لیے جائیں تو امید ہے کہ چائلڈ لیبر یا بچوں کے کام کرنے پر کافی حد تک کنٹرول کیا جا سکتا ہے جیسے کہ عام مشاہدہ میں آیا ہے کہ بچوں کے کام کرنے کی سب سے بڑی وجہ غربت ہی ہے ۔اور اتنی کم آمدنیوں میں بچوں کے کھانے پینے کے اخراجات ہی پورے ہو جایئں تو بڑی غنیمت ہے تعلیمی اخراجات تو ناممکن ہی ہو جاتاہے۔مزدوروں کی تنخواؤں میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے۔موجودہ بجٹ میں س10% تنخواہ بڑھانے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا جب تک مہنگائی یا اشیاء کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر قابو نہ پایا جائے۔اگر چیزیں سستی ہوںتو کم آمدنیوں میں بھی اچھا گزارا ہو جاتا ہے۔
ان کام کرنے والے بچوں کے لیے کم از کم بنیادی تعلیم کا بندوبست تو کیا جائے کہ لکھنا پڑھنا تو جان جائیں ۔پرائمری کلاسوں میں ہی فنی تعلیم کو نصاب میں شامل کیا جائے۔بڑھتی ہوئی آبادی بھی اس کی ایک اہم وجہ ہے اس پر بھی کنٹرول کرنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ ذیادہ بچے جب والدین پر بوجھ بن جاتے ہیں تو وہ ان کے اخراجات ا ٹھانے کی سکت نہیں رکھتے اور یوں بچوں کو بھی ملازمت کرواتے ہیں۔ مزدوری کرنے والے یہ بچے جو صرف دوسرے بچوں کو سکول جاتا دیکھتے ہیں ان کے اندر بھی ایک تعلیم حاصل کرنے کی ایک شدید خواہش ہوتی ہے اور ان کا بھی دل چاہتاہے کہ وہ بھی دوسرے بچوں کی طرح اپنے بچپن کی خوشیوں سے لطف اندوز ہو سکیں اور کاش کہ ایسا جلد ممکن ہو جائے۔