تحریر : شاہد شکیل بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ منفی سوچ کے نتائج عام طور پر منفی ہی ثابت ہوتے ہیں دیکھا جائے تو مکافاتِ عمل کا دوسرا نام منفی سوچ کا رد عمل اور نتیجہ ہوتا ہے آج ہم اگر کسی انسان کے ساتھ محض اپنے مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے برا سلوک یا برتاؤ کریں گے تو ہماری زندگی میں ہی کبھی نہ کبھی کسی بھی روپ میں ہمیں خود یا ہمارے پیاروں کو نتائج بھگتنا پڑیں گے ہم ہر پہلو پر لاکھ سوچیں، ماضی کی غلطیوں کو یاد کریں کہ کہاں اور کب کسی کو نقصان پہنچایا گیا اور جاننے کے باوجود یہ کہہ کر جان چھڑائیں کہ جو کچھ ہوا اللہ کی مرضی تھی تو سراسر غلط فہمی ہے ہم سب کچھ جانتے ہوئے بھی انجان بن جاتے ہیں اپنے گریبان میں جھانکنے کی بجائے دوسروں کی غلطیاں نکالتے ہوئے انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔
گزشتہ کالم میں تحریر کیا تھا کہ انسان کا ضمیر اسے تاحیات کچوکے لگاتا رہتا ہے اور اندر ہی اندر مکڑی کا ایسا جالا بنتا ہے کہ بیماری سے ابتداء ہوتی ہے اور چین سے موت بھی نہیں آتی کیونکہ محض دکھاوے اور نمائشی عمل سے کسی انسان کی امداد سے پلس یا مائنس کے اعداد وشمار میں جمع تفریق نہیں ہو سکتی جب تک انسان کا دل ،روح اور ضمیر اس بات کی گواہی نہ دے کہ وہ مطمئن ہے ،چار لوگوں کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے چار پیسوں سے ہم انسانوں کو تو وقتی طور پر خوش کر سکتے ہیں لیکن جب تک ہم ذاتی طور پر مطمئن اور خوش نہیں اللہ بھی خوش نہیں ہوتا اور ویسے بھی ہمارے پلس اور مائنس اعمال کا ایک دن حساب تو ہونا ہی ہے اور یہ معاملہ انسان اور اللہ کا ہے،اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم کیسے اپنے اندر پوزیٹو احساس اور جذبات پیدا کریں ،کالم کو گھسیٹ کر طویل کرنے کی بجائے ٹو دی پوائنٹ بات لازمی ہے اپنے منفی خیالات سے فرار کیلئے دنیا کا کوئی انسان ہماری مدد نہیں کر سکتا ہم خود اپنی مدد آپ کے تحت اس سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔
دماغی محقیقین کے مطابق کسی حد تک یہ بات درست ہے کہ انسانی جذبات ہر اچھی اور بری بات کے علاوہ پلس اور مائنس عوامل کا مرکز ہیں جذبات سے ہی انسان اپنی تربیت اور اصلاح کر سکتا ہے جذبات کا تعلق کسی حد تک نفس سے بھی ہے کیونکہ جب تک انسان اپنے نفس اور خواہشات پر قابو نہیں پا سکتا کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا ،نفس کا انسانی زندگی میں بہت اہم کردار ہے مثلاً اگر کسی کا موبائل فون فنکشن کر رہا ہے تو اسے نئے سمارٹ فون کی خواہش کو رد کر دینا ہی بھلائی ہے دیکھا اور سوچا جائے تو دنیا ترقی کر رہی ہے اور اس ترقی کے ساتھ ساتھ منفی اور مثبت اثرات بھی شمار کئے جا رہے ہیں۔
اب فیصلہ انسان کے اپنے ہاتھوں میں ہے کہ اپنی بے مقصد اور بے معنی خواہش کو کچھ عرصے کیلئے دبا دے یا مکمل طور پر رد کرے ۔نفسیات ،جذبات ،خواہشات ،منفی سوچ ،تعمیر اور دیگر عوامل پر دنیا بھر کے ماہرین نے ریسرچ کرنے کے بعد اپنے تجربات کو لائیبریریوں میں بند نہیں کیا اور نہ کوڑے دان میں پھینکا ہے ہم اگر مطالعے میں دلچسپی رکھتے ہیں تو آج بھی لائبریری سے انمول کتب کی تلاش کے بعد مطالعہ کر سکتے ہیں لیکن افسوس تو اس بات کا ہے کہ کسی کے پاس وقت نہیں کہ نایاب اور انمول کتب کے بارے میں سوچا جائے جبکہ دوسری طرف اگر کسی فلم ایکٹر کی بایو گرافی کی تلاش کی جائے تو دنیا بھر کے تمام ویب سائٹ میں صبح وشام جھک مارتے رہیں گے۔
Depression
ماہرین کا کہنا ہے منفی سوچ سے فرار کے کئی طریقے ہیں بشرطیکہ ان پر عمل بھی کیا جائے ،سائیکل چلانے اور واکنگ کرنے سے انسان کا دماغ ہر منفی سوچ سے آزاد ہو جاتا ہے اور کشیدگی میں کمی آتی ہے ،کورین ماہرین کا کہنا ہے جنگل میں چہل قدمی سے دل ودماغ میں پوزیٹو ایفیکٹ پیدا ہوتا ہے جس سے ہارٹ فریکیونسی اور ہائی بلڈ پریشر کا توازن برقرار رہتا ہے یا نمایاں طور پر بیماریوں میں کمی واقع ہوتی ہے ،کئی معالجین بھی مشورہ دیتے ہیں کہ اگر واکنگ سے مثبت نتائج حاصل نہ ہوں تو اینٹی ڈپریشن ادویہ سے علاج ممکن ہے تاکہ انسان کے اندر جنون اور خواہش پر قابو پایا جا سکے ،خوف ،موڈ اور دماغ پر سکون رہیں۔ انسانی دماغ ایک شاندار عضو ہے جس میں صلاحیتوں کے علاوہ کئی نیگیٹو خیالات کا انبار لگا رہتا ہے اور مسلسل کسی روکاوٹ کے بغیر سوچتا ہے کہ کون سا حربہ یا طریقہ استعمال کیا جائے جس سے کامیابی حاصل ہو یہ ضروری نہیں کہ تمام اطوار یا منفی سوچ سے ہر کام کی تکمیل ہو دماغی خلیات میں پلس پوائنٹ کا بھی ایک خانہ موجود ہے اور وہ ہمیشہ منفی وائرس پر بھاری رہتا ہے تاکہ مائنس فارمولے کو اسی کے خانے میں دفن رکھے لیکن اس عمل کیلئے خود اعتمادی ،نفس پر قابو اور ہمت کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔
مطالعے میں بتایا گیا کہ جو انسان منفی خیالات رکھتا ہے بہت جلد ڈپریشن کا شکار ہوجاتا ہے اور انہی خیالات کے شیطانی شکنجے میں جکڑ لیا جاتا ہے جبکہ مثبت سوچ والے انسان ہمیشہ کامیاب رہتے ہیں۔ مائنس مائنڈ سے کیسے فرار ممکن ہے؟ہر انسان کی زندگی اور سمت محدود ہے وہ حقائق سے واقفیت رکھتا ہے اور اسی وجہ سے اپنی زندگی کے معاملات اپنے تئیں اورگنائز کرتا ہے وہ جانتا ہے کہ کن عوامل سے اسے نقصان یا فائدہ ہوگا لیکن یہ بھول جاتا ہے کہ اپنے فائدے کیلئے وہ کسی انسان کی زندگی کو بھی داؤ پر لگا رہا ہے اور اس چال کو مائنس مائنڈ کہا جاتا ہے۔
راہ فرار کیلئے انسان کا پرسکون رہنا بہت اہم ہے ،تعلیم وتربیت بھی انسان کی زندگی میں اہم کردار ادا کرتی ہے کیونکہ تعلیم منفی سوچ کے راستے میں ایک آہنی دیوار اور پلس پوائنٹ ہے ،تجربات انسان کو بہت کچھ سکھاتے ہیں اور ہر نئے تجربے کے بعد انسان نیا سیکھنے اور سمجھنے کے بعد پلس کو ہی ترجیح دیتا ہے ماضی کی غلطیوں کو دہرانے کی بجائے مثبت خیالات کی بدولت زندگی کی راہیں ہموار کرتا ہے۔سوچ کی بات ہے سوچ پر پابندی نہیں لیکن منفی سوچ انسان کی تباہی ہے۔