تحریر : آکاش بلوچ ایک زمانہ تھا جب پی ٹی وی اپنے فیملی تفریحی ڈراموں کی وجہ سے بڑا مشہور ہوا کرتا تھااور پی ٹی وی پہ ایک ڈرامہ سیریز اندھیرا اُجالانشر ہوا کرتی تھی جس سے ہر عمر اور ہرطبقے کے لوگ محظوظ ہوا کرتے تھے۔ اس وقت ہم بچے ہوا کرتے تھے تب یہ پتہ بھی نہیں ہوتا تھا کہ پولیس ہوتی کیا ہے اور اِس کا کام کاج کیا ہوتا ہے پر اس ڈرامے کے کردار اپنی جاندار اَداکاری سے حقیقت کا رنگ بھر دیتے تھے اور مزاح مزاح میں پولیس کے کام اور معاشرے میں ان کے کردار کو صحیح معنوں میں بیان کرتے تھے۔ اَب جب کبھی پولیس والوں کودیکھتے ہیں تو کرم داد جیسے معصوم پولیس والے بھی نظر آتے ہیں اور جعفر حسین جیسے تیز اور چالاک پولیس افسر بھی جو اگر کام کرنا چاہیں تو فوری کر دیتے تھے نہیں تو بہت خوبصورتی سے عوام کو ٹالتے تھے۔ چلو وہ تو ایک ڈرامہ تھاجس میں رنگ بھرنے کے لئے ایسا کیا جاتا ہوگا پر حقیقت اس سے مختلف بھی نہیں ہے اور یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔
آج پولیس کے بارے میں لکھنے کی ہمت کر رہاہوں جس کے حسن وسلوک اور کارکردگی کی وجہ سے عوام ان کی عزت کرنے پہ ”مجبور” ہو جاتے ہیںاور دل میں خوب داد دیتے ہیں(سمجھ تو آپ گئے ہوں گے)۔ پولیس والوں کے سامنے بڑے بڑے لوگ وائبریشن موڈ(کانپنے لگ جاتے ہیں) پہ چلے جاتے ہیں(ان کو اپنی اس صلاحیت پہ بڑا فخر ہے)میرا قلم تو تھر تھر کانپ رہا ہے حالانکہ اتنی سردی بھی نہیں ہے اس لئے مجبوراََ کمپیوٹر کی بورڈ سے ٹائپنگ کرنا پڑرہی ہے۔ ویسے لوگوں کے وائبریشن موڈ پہ لگنے میں ان بے چاروں کا کوئی قصور نہیں ہے یہ تو بس کچھ بزدل اور حاسد لوگوں نے ان کو بدنام کررکھا ہے پر اِس سے ان کو فرق بھی کوئی نہیں پڑتاکیوںکہ بدنام جو ہوں گے کیا نام نہ ہوگا والی ضرب المثل آخر کس لئے بنی ہے۔ نام سے یاد آیاکہ پولیس اچھا خاصا نام ہے پر کچھ لوگ اس کو ”پُلس” کہتے ہیں حالانکہ ایسے کہنے سے مطلب اور تعریف وہی بنتی ہے جو کہ لفظ پولیس کی ہے پرلوگ شاید چٹخارہ لینے کے لئے پُلس کہہ دیتے ہوں گے۔
پولیس کو پُلس کہنے کی کوئی خاص وجہ مجھے تو سمجھ میں نہیں آئی البتہ اتنا کہہ سکتا ہوں کہ پنجابی میں پولیس بگڑ کر پُلس ہو گئی(دوسری علاقائی اور صوبائی زبان بولنے والو ں کا نہیں پتہ انہوں ان کو کیا نِک نیم دیا ہوا)۔اور تو اور کچھ بے اَدب اور گستاخ لوگ بے اَدبی اورگستاخی کرتے ہوئے پولیس والو ں کو” پُلسئے” اور” سِپڑا”بھی کہہ دیتے ہیںجو کہ اخلاقی طور پہ غلط بات ہے۔لیکن ایسا کہنے والے بھی ایسا کہنے پہ مجبور ہوتے ہوں گے (یہ تو آپ جانتے ہوں گے کہ انسان ایک مجبور مخلوق ہے) کیونکہ وہ پُلس کی خوش خلقی سے مستفیذ ہوئے ہوں گے۔ کچھ لوگ جوش ِ محبت میں”چھلڑ”بھی کہہ جاتے ہیںایسا کہنے والے ایسا اس لئے کہتے ہیں کہ پُلس صفائی ستھرائی کی بڑی قائل ہے اور جو ہتھے چڑھ جاتے تو اس کا چھلڑ(چھلکا، کھال) تک اتار لیتی ہے۔ انڈیا میں پولیس والے کو ”ٹُھلا” کہا جاتا ہے اور پاکستان کی ایک علاقائی زبان میں ٹھلا موٹے انسان کو کہتے ہیں(کتنی بُری بات ہے یہ) شاید وہاں بھی اس کا مطلب یہی ہو اور اِن کی جسمانی صحت کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جاتا ہو۔
Pak Police
ویسے تو پُلس کا کام عوام کی حفاظت کرنا ہوتا ہے لیکن عوام کو ان کی حفاظت کرنا پڑجاتی ہے کہ کہیںان سے آمنا سامنا نہ ہو جائے نہیں تو لینے کے دینے پڑجائیں گے۔اکثر لوگ تو پُلس کو دیکھ کر یا تو کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرلیتے ہیں(کبوتر بچتاپھر بھی نہیں) کہ آمنا سامنا نہ ہو جائے ۔آمنا سامنا نہ کرنے کی ایک وجہ شاید یہ محاورہ ہے”دُوریوں سے محبت بڑھتی ہے” پُلس اور عوام دونوں نہیں چاہتے کہ ان کی آپس کی محبت کم ہواس لئے عوام تو عوام پُلس نے ببھی کبھی اس محبت کو کم نہیں ہونے دیا اور ہمیشہ دُوریوں تو مزید بڑھایا تاکہ محبت کم نہ ہو ۔یا تولوگ راستہ بدل لیتے ہیںتاکہ معصوم پُلس والوں کو تکلیف نہ ہو لیکن پُلس پھر بھی راستے میں ہی کھڑی ہوتی ہے بقول محسن نقوی مجھ کو بھی شوق تھا نئے چہروں کی دید کا راستہ بدل کے چلنے کی عادت اُسے بھی تھی
اگر پُلس نے آپ کو راستہ تبدیل کرتے ہوئے دیکھ لیاتو بس پھر سب سے بڑے مشکوک اور دہشت گرد آپ ہی ہوں گے کیونکہ راستہ بدلنا تو شریف لوگوں کا کام ہی نہیںحالانکہ شریف انسان ہی تُو تکرار میں نہیں پڑنا چاہتا۔یہ سوچ تو ہم سب کی ہے کہ غلط کام کرنے والے ہی ایسا کرتے ہیںپر شکی سوچ تو پُلس کا ہی خاصا ہے کیوںکہ بقول ان کے کہ ہر تفتیش کی بُنیاد شک سے شروع ہوتی ہے اور اب یہ پُلس کا کام ہے چاہے تو شک شکایت کرنے والے پہ ہی کرنا شروع کردے۔
کیونکہ قانون اور پُلس کی نظر میں سب برابر ہوتے ہیں چاہے شکایت کرنے والا ہو یا جس کے خلاف شکایت کی جارہی ہو۔ پُلس تو بڑی انصاف پسند ہوتی ہے سب کو ایک ہی نگاہ سے دیکھتی ہے جس کو شک کی نگاہ کہا جاتا ہے۔ہمارے معاشرے میں دو قسم کے لوگ شک کی نگاہ کا استعمال بہت زیادہ کرتے ہیں ایک پُلس اور دوسرا بیوی ۔ دونوں شک کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے بڑی قیامت کی نظر رکھتے ہیں اور شک بھی ایسا کہ خود ان کو ہی یقین ہوتا ہے کہ جس پہ شک کررہے ہیں وہ ورلڈٹریڈ سنٹر کی تباہی اور ٹرمپ کوالیکشن جتوانے میں ملوث ہیں۔
FIR
اگر آپ کبھی پُلس اسٹیشن چوری، ڈکیتی کی ایف آئی آر(F.I.R)یا کسی بھی قسم کی شکایت درج کرانے جاتے ہیں تو اندر قدم رکھتے ہیں آپ کی دنیا بدل جاتی ہے آپ خوف کے مارے بد حواس ہو جاتے ہیںاور سوچ میں پڑ جاتے ہیں کہ ”اے میں کتھے پھس گیا” اور سمجھ تو ایک طرف رہی یاد بھی نہیں آتا کہ ادھر آئے کس لئے تھے، پھر جب تھوڑی دیر بعد آپ کے ہوش ٹھکانے پہ واپس آتے ہیں تو یاد آنا شروع ہو جاتاہے کہ یہاں آنے کا بھی ایک مقصد تھااور اس مقصد کے حصول کے لئے جب کسی پُلس والے سے رابطہ کرتے ہیں تو پھر آپ کی تھانہ پریڈ شروع کرا دی جاتی ہے کبھی ایک کے پاس تو کبھی دوسرے کے پاس بھیجا جاتا ہے۔
آخرکار جب آپ مطلوبہ دربار مطلب پُلس والے کی میز تک پہنچتے ہیں یا تو کوئی ہوتا نہیں وہاں پہ اگر ہوتا ہے تو پیرو مرشد کی طرح اکڑ سے بیٹھے ہوئے ایک انسان جس کی مونچھیں تک بھی اکڑ میں ہوتی ہیں کو جب آپ اپنے آنے کا مقصد بتاتے ہیں تو پھر جس پیارے لب ولہجے میں معصومانہ سوالات کی بوچھاڑ میں آپ کی اپنی تفتیش شروع ہو تی ہے تو تب آپ دل میں خود کو صلواتیں سُنانا شروع کر دیتے ہیں اور بار بار ایک ہی سوال خود سے کر رہے ہوتے ہیں میں ایتھے آیا ہی کیوں سی؟ اور آپ کو ایسا لگنے لگتا ہے کہ آپ ہی مجرم ہیں۔
Behavior
ایسے رویے کی وجہ سے لوگ کسی بھی حادثے یا واقعے کی نہ تو رپورٹ کرتے ہیں اور نہ ہی گواہی دینا چاہتے ہیں۔اور اگر آپ ثابت قدم رہیں اور ایف آئی آرلکھوانے کی ضد کرتے ہیں تو جس طرح بچے کو بہلایا جاتا ایسی طرح آپ کو بہلانے کے لئے سادہ کاغذ پہ کچی پنسل سے یا پھر اگر بال پن کہیں سے مل جائے تو اُس سے آپ کا بیان ہوبہو لکھ کے تھاما دیتے ہیں اور اگلے دن یا ڈاکٹر کی ہدایت کی طرح تین دن بعد آنے کا کہتے ہیں اور اپنے پاس کوئی ریکارڈ بھی نہیں رکھتے اور اگر غلطی سے رکھ بھی لیں تو جب آپ دوبارہ جائیں گے تو وہ ریکارڈ آپ کو تھانے میں نہیں البتہ کسی پکوڑے بیچنے والے کے پاس سے لازمی مل جائے گا۔