وزیراعظم عمران خان کی یہ خواہش ہے کہ کاش وہ بھی چین کی طرح پانچ سو کرپٹ لوگوں کو سزا دے سکتے! تو یہ ان کی خواہش تو ہوسکتی ہے مگر اس پر وہ عمل کسی بھی صورت نہیں کر سکتے پہلی بات تو یہ کہ ان کی آدھی سے زیادہ کابینہ بھی اس عمل میں پھانسی پر چڑھ جائیگی، یہ تو واضح ہوگیاہے کہ وزیراعظم عمران خان کو چین کا طرزنظام اچھا لگتاہے مگر اس کے ساتھ انہیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ چین کا نظام پاکستانی نظام سے بہت مختلف ہے۔
پاکستان کا نظام 1973کے آئین اور قانون کے مطابق کام کرتا ہے اس نظام میں ایک پرائم منسٹر قدیوں کو کسی بھی قسم کی سزانہیں دے سکتا پاکستان میں یہ کام قانون اور عدالتوں کے سپرد ہے ،یہ ایک جمہوری انداز ہے جو یہ تاثر پیدا کرتاہے کہ پاکستان میں ہر ادارہ اپنے اپنے کام میں آزاد اور خودمختار ہے ، دوسری بات وزیراعظم عمران خان اگر یہ سمجھتے ہیں کہ اس ملک کو صرف ان پانچ سو لوگوں نے ہی خراب کررکھاہے تو یہ سوچ کسی بھی لحاظ سے طفلانہ تصور کی جائے گی کیونکہ وزیراعظم اگر ٹھیک طرح سے اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو انہیں اس ملک کا آوے کا آوا ہی بگڑ ا دکھائی دے گا ۔
وزیراعظم کو یہ بھی معلوم ہے کہ میری کیبنٹ میں کون آدمی ایسا ہے جس نے زمینیں ہتھیائی اور کس نے ماضی کی حکومت میں اپنے قرضے معاف کروائے اور جائیدادیں بنوائی ہیں ،عمران خان یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ سب کے سب ان کے ساتھ اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے ہیں مگر کیا کیجئے کہ وہ اس وقت ایک ایسی حکومت کا حصہ ہیں جس کو ریاست مدینہ کا نام دیا جاچکاہے بھلا وہ لوگ اب کس طرح سے قصور وار ہوسکتے ہیں ، چاہے وہ ماضی میں کراچی کی وہ جماعت ہی کیوں نہ ہو جس کے ساتھ بیٹھنا بھی خان صاحب کو گوارا نہ تھا،ہاں قصور وار تو میاں نوازشریف اور ان خاندان ہے اور باقی قصور زرداری صاحب کے کاندھوں پر آگرتاہے یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ وزیراعظم عمران خان تاحال ابھی تک اپنا ایک بھی وعدہ وفا نہیں کرسکے ہیں جس کی وجہ بھی یہ ہے کہ گزشتہ حکمرانوں کی طرح وہ بھی سب اچھا کی تعریفوں کی اسناد دینے والوں مداح سراہوں کے جھمکٹ میں گھرے ہوئے یہ جھوٹی تعریفوں کے پل باندھنے والے وہ ہی لوگ ہیں جو کبھی میاں نوازشریف تو کبھی پیپلزپارٹی والوں کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے تھے یقینی طور پر خان صاحب کے پانچ سو کرپٹ لوگوں میں آدھے تو ان ہی میں سے مل جائیں گے باقی وہ اشرافیہ بیوروکریٹس جن پر خان صاحب اپنی تقریروں میں خوب برساکرتے تھے با آسانی ڈھونڈے جاسکتے ہیں ، ان لوگوں میں ایک شخص اگر تحریک انصاف میں شامل ہوجاتا تو وہ بھی شاید آج کسی اعلیٰ عہدے پر بیٹھاہوتا جس کو کبھی خان صاحب مونچھوں سے پکڑ کر جیل میں ڈالنے کی باتیں کیا کرتے تھے مگر اس نے ڈرائی کلین ہونے کی بجائے اپنے پیروں پر کھڑاہونے کوترجیح دی اس لیے آج وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے موجود ہیں میرا اشارہ رانا ثنا اللہ کی جانب ہی ہے کیونکہ جو الزامات رانا ثنا اللہ پرلگے ہیں ان سے کہیں زیادہ خطرناک کاموں میں ملوث لوگ آج حکومت کے سینئر وزیرہیں مگر بات صرف اتنی ہے کہ یہ ان پانچ سو لوگوں میں سے نہیں ہوسکتے جنھیں عمران خان صاحب پھانسی گھاٹ تک لیکر جانا چاہتے ہیں ،کیونکہ یہ لوگ تو ریاست مدینہ کے اعلیٰ عہدیدار ہیں جو اس وقت دونوں ہاتھوں سے ملک اور قوم کی خدمت میں مصروف ہیں ،ایک بات جو میں لکھ چکاہوں کہ پاکستان کے قانون کے مطابق کون کرپٹ ہے اور کون نہیں ۔ یہ فیصلہ وزیراعظم عمران خان نہیں کرسکتے ،بلکہ یہ فیصلہ کرنا عدالتوں کا کام ہوتا ہے۔
حکومت کسی بھی شخص پر الزام لگاسکتی ہے اور کسی بھی شخص کے خلاف ثبوت مہیا کرسکتی ہے لیکن ان ثبوتوں کی صحت پر کوئی فیصلہ صرف اور صرف عدلیہ ہی کرسکتی ہے ،ابھی کچھ روز قبل پنڈی کے ایک دانشور سیاستدان جو خود کو ایک سینئر پولیٹیشن ظاہر کرتے ہیں یقینی طورپر میرا اشارہ شیخ رشیدصاحب کی جانب ہے ان کا ایک حالیہ بیان میری نظروں سے گزرا ہے کہ چند دن میں دو اور بڑے سیاستدان پکڑے جانے والے ہیں اس بیان کو اگر دیکھیں تو ہ میں معلوم ہوگا کہ یہ ہی موصوف اس سے قبل بھی کئی ایسی پیشن گوئیاں کرچکے ہیں بلکہ ان سمیت حکومت میں موجود اور بھی وزرا ہیں جو ان پیشن گوئیوں کے ساتھ سزا اور جزاکا فیصلہ بھی ساتھ ہی سنا دیتے ہیں ،جبکہ وزیراعظم کا یہ کہنا کہ میں ان ظالموں کو نہیں چھوڑونگا قوم کا پیسہ ان سے نکلواءونگا سب ایسا ہی ہے کہ جیسے یہ لوگ پارلیمنٹ میں ہی نہیں ہیں بلکہ اس ملک کی عدالتوں پر بھی ان ہی لوگوں کی اجارہ داری ہے اس عمل سے عوام میں یہ ہی تاثر جاتاہے کہ پھر عدالتوں کا کیا کام باقی رہ جاتا ہے اور یہ کہ اس ملک میں قانون کس کے ماتحت ہے یہ سب چیزیں اداروں پر شکوک شبہات پیدا کرنے کے لیے تو ہوسکتی ہے مگر اس سے فائدہ کسی کونہیں مل سکتا میں سمجھتاہوں کہ وزیراعظم عمران خان سمیت ان کے تمام ساتھیوں کو بیان بازی کی بجائے ان مشکلات کو حل کرنے کی طرف توجہ دینی چاہیے جو اس وقت عام آدمی کو درپیش ہیں جس میں مہنگائی اور روزگارسرفہرست ہے ،حکومت کی جانب سے ان چیزوں کی جانب توجہ نہ دینے سے لوگوں کی زندگیوں کو سخت ٹھیس پہنچ رہی ہے۔
میں نے حکومت کے ان تیرہ چودہ مہینوں میں جو ایک بات اچھی سنی وہ یہ تھی کہ ملک میں تجارتی خسارہ کم ہوا ہے یقیناً یہ بہت اچھی بات ہے لیکن معاشی ماہرین میری اس بات سے انکار نہیں کرینگے کہ اس تجارتی خسارے میں بہتری کی وجہ سے عوام کو کوئی براہ راست فائدہ نہیں پہچنے والا کیونکہ تجارتی خسارے کا بوجھ تو عوام کی جیبوں پر ڈال دیا جاتاہے مگر اس کا فائدہ عوام تک کبھی پہینچتے ہوئے کسی نے نہیں دیکھا توپوچھا جائے کہ اس عمل کے لیے اس قدر شوروغوغا کرنے کی کیا ضرورت درپیش ہے ہاں ضرورت ہے تو یہ کہ عوام تک اقتصادی فائدے اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں کمی کی صورت میں دیئے جائیں یعنی مہنگائی کو کنٹرول کیا جائے تاکہ عوام کی زندگیوں میں کچھ بہتری کے امکانات روشن ہو جبکہ دوسری جانب وزیراعظم عمران خان صاحب آپ زرا مارکیٹوں اور بازاروں کا دورہ بھی کرلیا کریں جہاں جاکر آپ کو معلوم ہوگا کہ ایک دوکان پر قیمت اور ہے تو دوسری دوکان پر قیمت کچھ اور ہے اس دورے کے بعد میں یقین سے کہتا ہوں کہ آپ کی یہ خواہش کہ میں پانچ سو کرپٹ لوگوں کو لٹکانا چاہتاہوں وہ بڑھ کر پانچ کروڑ سے بھی تجاوز کرجائے گی۔
کیونکہ اس نظام میں ہر ایک آدمی دوسرے ضرورت مند کا خون چوس رہاہے لیکن سب لوگ اگر کچھ کررہے ہیں تو اپنے بچوں کے لیے کررہے ہیں کیونکہ ان کے لیے پیسے کمانے کا حصول اب اس قدر دشوار ہوچکاہے کہ اس مہنگائی سے نجات کازریعہ اب نوسر بازی سے کام لینا ہی رہ گیاہے ،اس کے علاوہ یہ بھی میں اپنے پڑھنے والوں کو بتاناضروری سمجھونگا کہ کوئی بزنس مین بھی گھاٹے میں نہیں ہے یہ ایک الگ بات ہے کہ ٹیکسوں کی پکڑ دھکڑ چل رہی ہے مگراصل نقصان صرف عوام کو ہی ہورہاہے اور جب تک حکومت عوام کو اقتصادی سہولیتیں فراہم نہیں کریگی عوام کاغیض وغضب اسی طرح چلتارہے گاجس سے انہیں کوئی اچھی خارجہ پالیسی بھی نہیں بچاسکتی ،کہ آج وزیراعظم ایران جارہے ہیں کل سعودیہ عرب جائیں گے پھر امریکا کا دورہ کرینگے ارے بھائی پہلے اپنے گھر کے حالات تو ٹھیک کرلو اس طرح کے دوروں سے قوم کا وقت برباد نہ کروکیونکہ اسی عوام کی وجہ سے آپ اس عہدے پر فائز ہیں ۔ زرا غور کریں جب آپ اس عہدے پر نہیں ہونگے تو آپ کو نہ تو سعودی عرب پوچھے گا اور نہ ہی ایران اور نہ ہی امریکا جیسا مطلب پرست ملک آپ کو منہ لگائے گا جو بین الاقوامی سطح پر آج وزیراعظم عمران خان کو پروٹوکول مل رہاہے یہ پروٹوکول تو شیدے اور میدے کو بھی مل جائیگا اگر اس ملک کی عوام انہیں وزیراعظم بنادیتی ہے لہذا میری باتوں کا براماننے کی بجائے عوام کا خیال کیجئے۔