تحریر : لتا حیا عزت ماب پردھان منتری جی آداب !میں وہ عام جنتا ہوں جو کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں رکھتی‘ جس کی آپ سے کوئی شخصی دشمنی نہیں اور نہ ہی مستقبل میں جس کا سیاست میں آنے کا کوئی اِرادہ ہے ‘ مجھے تو کوئی نام اور انعام بھی نہیں چاہیئے‘ بس سکون کی زندگی اور عزّت سے دو وقت کی روٹی چاہیئے۔کبھی کچھ خبریں آپ کے لئے دل میں ناراضگی کا سبب پیدا کر دیتی ہیں تو کبھی کبھی آپ کی شخصیت کے کچھ پہلو ہزار نا اتفا قی ہونے کے باوجود مجھے حیران اور متاثر کر جاتے ہیں‘ بِلا شک آپ بہت اچھے مقرر ہیں‘ لوگوں سے جُڑے رہنے کی آپ کی کوشش اور کام کے تئیں آپ کا جوش آپ کی کامیابی کا راز ہے۔سلیقہ مند ‘ ادب میں مہارت‘ اور ہر کام میں دلچسپی اور بچوں سا ’’ ہاس۔پری ہاس‘‘قابلِ تعریف ہے۔ اوہ ! بچوں کی بات سے یاد آیا کہ آج تو ’’یومِ اطفال ‘‘ہے لیکن گستاخی معاف‘ ’’یومِ اطفال‘‘ کی مبارکباد نہیں دونگی کیونکہ ’’ دھن یوجنا‘‘ سے کہیں بچوں کی اموات ہو ئیں تو کہیں اُن کے ماں باپ کی ٗ دُعا کیجئے کہ آج کسی کی سانس نہ بند ہو جائے جیسے پُرانے نوٹ بند ہوئے ہیں۔ ملک کے عوام تو آپ کو ۵۰ دن کا وقت دے دیں گے پی ایم صاحب پر کیا آپ کسی ماں کی گود میں اُس کا بچّہ واپس دیں گے ؟ آپ نے دیش کی وجہہ سے گھر چھوڑ دیا پر آپ کی وجہہ سے کئی لوگوں نے دُنیا ہی چھوڑدی‘ کبھی دوسروں کے لئے بھی رو لیجئے‘ صرف لمبی قطاریں آپ کو نظر آرہی ہیںدوسری خبریں نہیں یا آپ دیکھنا نہیں چاہتے؟ ہو سکتا ہے آپ کی نیّت ٹھیک ہولیکن پلا ننگ ٹھیک نہیں ہے۔
اگر یہ سب کرنا ہی تھا‘ جس کا اختیار ’’ہم‘‘ نے آپ کو دیا ہے تو عوام کو ہونے والی تکیفوں کا بھی شُمار کیا ہوتا‘ اسپتال اور بنکوں میں اپنی پوری مشینری لگادی ہوتی یہ دیکھنے کے لئے کہ سرکاری احکامات کا سختی سے عمل ہورہا ہے یا نہیں۔آپ کے پاس حکومت‘ طاقت‘ اختیار ا ور گُرگے سب تو ہیں لہٰذا کوئی بہانا نہیں چلے گا۔ جو پیسے والے ہیں وہ اپنے پیسے گنگا میں بہائیں یا جلائیں‘ اُنہیں کوئی فرق نہیں پڑیگا کیونکہ اُن کے گھر سے کوئی نہیں مرے گا ٗ جن کے گھروں میں سال بھر کا راشن بھرا ہوا ہے وہ بھی شکایت نہیں کریں گے؛ جنہوں نے سابق میں آپ پر ذاتی اعتراض کر لوگوں کا غصہ اور مقدمہ جھیلا ہو وہ تو آپ کی حمایت کر اپنے پرانے گناہ دھونے کی کوشش کر ہی رہے ہیں۔
لیکن میں رعایا ہوں اور اپنے بادشاہ سے انصاف کی امید رکھتے ہوئے اپنے “دل کی بات” کہہ رہی ہوں اور پورے حق سے یہ مانگ کرتی ہوں کہ جو ہو گیا سو ہو گیا، کم سے کم آگے کے پچاس دنوں کے لئے کچھ ایسا منصوبہ بھی بنا لیں کہ کسی کی جان تو نہ جائے!۔ آپ نے اچھے منصوبے بھی بنائے ہیں (صاف بھارت، ٹوائلٹ وغیرہ) لیکن ہر بار کی منصوبہ بندی کارگر ہو اور حکومت صحیح ہو، ضروری تو نہیں! کبھی بری پلاننگ بھی چمتکار کر دیتی ہے تو کہیں اچھی منصوبہ بندی بھی ہاہاکار مچا دیتی ہےآپ نے بے شک یہ اچھی نیت سے کیا ہے۔
Indian Peoples
لیکن یقین جانیے زیادہ تر عوام ترامام-ترامام کر رہی ہے حکومت؛ گویا کوئی وبا پھیل گئی ہو یا قدرتی آفت آن پڑی ہو افسوس کہ آپ نے تصویر کا ایک ہی رخ دیکھا اميرِ شہر کی نظر سے؛ کسی غریب کی نظر سے، سینئر سٹیزن کی یا دہاڑی مزدور یا کاروباری بچوں والی عورت کی نظر سے بھی دیکھتے ! ورددھاآشرمو ںمیں رہنے والی ماؤں نے آپ کو آشیرواد دیا؛ خوشی ہوئی لیکن جن کا کوئی ہے ہی نہیں وہ تنہا بزرگ ماں -باپ کے لئے لائن میں لگے بغیر ان کے گھر پیسے پہنچانے کا کوئی منصوبہ ہے؟ جب گھر بیٹھے اکاؤنٹ کھلوایا جا سکتا ہے تو نوٹ کیوں نہیں تبدیل کرا دیا جا سکتا؟۔ شہید تو جان کی پرواہ نہیں کرتے تو سیاست مشینری کی کیا پرواہ کرتی ہے؟ شہیدوں کے گھر والوں کو بھی اگر اے سی سہولت مل جاتی تو ان کی روح کو سکون مِل جاتا ویسے آپ کے لئے یہ ناممکن بھی تو نہیں! حکومت آپ کی، حقوق اور طاقت آپ کے پاس، پوری مشینری آپ کے کنٹرول میں اور آپ کےہزاروں کارکن، فینس اور ان سب سے بڑھ کر آپ کا حوصلہ اور فیصلہ لینے کی صلاحیت؛ آپ دنیا میں ہندوستان کو ایک طاقتور قوم کے طور پر اُبھار سکتے ہیں۔
جراحی ہڑتال کرنے کا دم خم رکھتے ہیں۔ دوردرشتا رکھتے ہیں تو مجھے یقین ہے عوام کے درمیان گھوم کر، ان کی تکلیفوں کو دور کر سکتے ہیں. نوٹ تبدیل کر سکتے ہیں تو نوٹ تبدیل کرنے کا قانون کیوں نہیں؟ اصول عوام کے لئے ہونے چاہئے، عو ا م اصول کے لئے نہیں۔ پرانے زمانے میں بادشاہ عوام کے درمیان بھیس بدل کر جاتا تھا، ان کے دکھ درد سمجھتا تھا اور پھر اپنے مشیروں سے مشورہ کر انہیں دور کرتا تھا، جس نے بھی آپ کو یہ نیک مشورہ دیا، ممکن ہے اس کے دور رس نتائج اچھے ہوں لیکن سميپگامي نتائج کےلئے عوام کی رائے بھی کچھ معنی رکھتی ہے۔
پردیسیوں سے مل لیتے ہیں، ہم وطنوں سے بھی ملئے؛ دور -دور سفر کر لیتے ہیں تو اس موقع پر سیاسی اجتماعات کے علاوہ کبھی چپکے سے کسی اسپتال، بینک بھی جائیے یا اپنے لوگوں کو بھیجئے تاکہ حقیقی بدعنوانوں کی وجہ سے آپ کی عوام کی جان نہ جائے اور كالابازاريوں میں بھی دہشت پھیلے. اُن اسپتالوں پر قتل کا کیس درج ہو جنہوں نے علاج کرنے سے منع کیا. طویل قطاروں میں گھنٹوں کھڑے جیب خالی لوگوں کو ہم پانی -ناشتا تو دے سکتے ہیں پر غریبوں کا کریڈٹ اور ڈیبٹ کارڈ نہیں بنوا سکتے راتوں رات یہ سب اُن کے جن دھن یوجنا کھاتے کھلنے کے ساتھ ہی اِن کو سمجھا دیا گیا ہوتا۔
Indian Peoples Change Currency
آج اخباروں میں بہت روتی ہوئی تصویریں نظر نہآتیں اور نہ ہی میں یہ خط لکھنے پر مجبور ہوتی کیونکہ يكبارگي تو مجھے بھی شروع میں یہ ٹھیک ہی لگا اور خاص پریشانی بھی نہیں ہوئی کیونکہ برُے وقت میں ہم کٹوتی سے ہی کام چلاتے ہیں، بلکہ ہمیں تو اب 500 / میں ایک ہفتہ بھی کس طرح نکالا جا سکتا ہے یہ نصیحت ملی. شاید کفایت کرنے کی بھی عادت ہی پڑ جائے لیکن سوال پھر بھی وہیں کا وہیں ہے کہ جو لوگ جان سے گئے کیا واپس لوٹ آئیں گے ؟ایک طرف ٹی وی پہ آپ کا خطاب کہ سب ٹھیک ہو جائے گا تو دوسری طرف عوام کا كردن کہ سب برباد ہو جائے گا تو عادت سے مجبور نکل پڑی لوگوں کی رائے جاننے؛ ہر کوئی پریشان نظر آیا؛ سبزی والے، ٹیکسی والے، روز کما کر کھانے والے؛ “بہت برُا ہوا میم صاحب، دھندہ رک گیا، کسی کو گاؤں جانا تھا، کسی کے یہاں شادی رک گئی اور جانے سیاست کی نظر میں ان کے یہ چھوٹے فالتو کام ‘کچھ محاورے بھی اب سمجھ آئے جیسے- “آٹے کے ساتھ گھن پسنا، جرم کس کا سزا کس کو، آٹے دال کا بھاؤ پتہ چلنا، ٹھالا بنیا کیا کرے۔
پاؤں کے نیچے سے زمین کھسکنا ‘لیکن ان سب سے بڑھ کر” جان ہے تو جہان ہے “. یقینا جو صدمے سے مر گئے انہیں ہم نادان او ر پست حوصلہ کہہ سکتے ہیں لیکن ان کی کوئی مجبوری بھی ہو سکتی ہے، Honour killing کی طرح میں تو اسے Honour suicide کہوں گی. ویسے ابھی تک تو کسی امیر آدمی کے مرنے کی خبر نہیں آئی کیونکہ ‘مرتا تو بے چارہ غریب ہی ہے، پستي توعوام ہی ہے تو عوام آپ سے یہ گزارش کر رہی ہے معزز وزیر اعظم کہ صرف کچھ دنوں کے لئے نوٹوں کی ادلا – بدلی کے عوض میں اس کی جان کی حفاظت کی ضمانت تو دے دی جائے، ہم نے آخر آپ کو ووٹ دیا ہے. ہم سب آپ کے اس ساہسک ہی نہیں بلکہ تاریخی قدم میں 50 دن تو کیا 500 دن ساتھ دیں گےبشرطیکہ آپ اپنا نعرہ لگانے کی بجائے (چاہے مجھے زندہ جلا دو) عوام کے نعرے پر غور فرماے کہ – ہمیں زندہ بچا لو۔
میں تو عام عوام ہوں؛ اپوزیشن جماعت نہیں تو اسے ذاتی تنقید یا شکایت نہ سمجھیں لیکن ہمارے رہنما کے ناطے آپ کو ہماری شکایت سننی پڑے گی. مجھے یقین ہے کہ یہ خط پوسٹ کرنے کے بعد تنقید تو مجھے بھی جھیلنی پڑے گی ان لوگوں کی جو ہر مسئلے کو سیاست اور مذہب کی نظر سے دیکھتے ہیں تو چلئے ہم بھی دیکھتے ہیں اور آپ پر چھوڑتے ہیں۔۔۔۔ اب کیا ملے گی مجھ کو سزا آپ سوچئے میرا قصور یہ ہے کہ سچ بولتی ہوں میں ویسے خط ختم کرنے سے پہلے ایک نیک مشورہ کہ عوام کو بھی اپنے ذاتی مشیروں میں شامل کر لیجئے تبھی سب کا ساتھ، سب کا وِکاس ہوگا شکریہ۔