شام پر نئی قرارداد بھی تنازعات کا شکار ہو گئی

New York

New York

نیویارک (جیوڈیسک) فرانس، امریکہ اور برطانیہ کا شام کے خلاف فوجی کارروائی کی دھمکی پر مبنی قراد تیار کرانے پر زور، روس کی مخالفت نیویارک میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ممبران کی ملاقات ہوئی ہے جس میں شام کے کیمیائی ہتھیاروں کو محفوظ بنانے کے سلسلے میں قراردار پر غور کیا گیا ہے۔

یہ قرارداد امریکہ اور روس کی جانب سے تیار کردہ ایک منصوبے کا اہم حصہ ہے جس کے تحت شام ایک ہفتے میں اپنے کیمیائی ہتھیاروں کی تعداد ظاہر کرے گا اور 2014 کے وسط تک انہیں تلف کر دے گا۔ تاہم اس منصوبے کے لئے تیار کی جانے والی قرارداد میں الفاظ کے استعمال کے بارے میں چند اہم تنازعات ہیں۔

فرانس، امریکہ اور برطانیہ ایک ایسی قرارداد تیار کرنا چاہتے ہیں جس میں شام کے خلاف فوجی کارروائی کی دھمکی موجود ہو جبکہ روس اس کی مخالفت کرتا ہے۔ امریکہ اور روس نے یہ منصوبہ اس وقت تیار کیا تھا جب 21 اگست کو شامی حکومت کی جانب سے مبینہ طور پر کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے بعد امریکا کی طرف سے شام کے خلاف فوجی کارروائی کا امکان بہت بڑھ گیا تھا۔

ادھر اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی گئی کہ شام میں ممنوعہ کیمیائی ہتھیار سارین گیس کا استعمال کیا گیا ہے تاہم رپورٹ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ گیس کس نے استعمال کی۔ فرانس، برطانیہ اور امریکا کا کہنا ہے کہ یہ رپورٹ ان کے موقف کی تائید کرتی ہے کیونکہ ایسے ہتھیار صرف حکومتیں ہی استعمال کر سکتی ہیں۔ روس اس بات کو مسترد کرتا ہے۔

روسی وزیرِ خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا ہے کہ ماسکو کے پاس یہ ماننے کے لئے کہ یہ حملہ باغی فوجیوں نے کیا ہے سنجیدہ شواہد ہیں۔ شام کے صدر بشارالاسد کا بھی یہی کہنا ہے کہ کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال باغی فوجیوں نے کیا ہے۔ اس سے پہلے پیر کو رپورٹ کے بارے میں صحافیوں سے بات چیت کے دوران جب اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے سوال کیا گیا کہ ان کے خیال میں کیمیائی ہتھیار کس نے استعمال کیے تو ان کا کہنا تھا کہ اس بارے میں ہم سب کی اپنی آرا ہو سکتی ہیں۔

لیکن یہ فیصلہ کرنا دوسروں کا کام ہے کہ اس کے ذمہ داروں کو کیسے انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ برطانوی وزیرِ خارجہ ولیم ہیگ نے کہا تھا کہ اس رپورٹ میں موجود تکینیکی تفصیلات بشمول حملے کے پیمانے، مختلف تجربہ گاہوں کے تجزیوں کے نتائج، گواہوں کے بیانات اور استعمال شدہ ہتھیاروں سے یہ بالکل واضح ہے کہ صرف شامی حکومت ہی وہ فریق ہے جو اس قسم کی کارروائی کر سکتی ہے۔

اقوامِ متحدہ میں امریکی سفیر سمانتھا پاور نے بھی اسی قسم کا بیان دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کی تکنیکی تفصیلات واضح کرتی ہیں کہ صرف شامی حکومت ہی اتنے بڑے پیمانے پر کیمیائی ہتھیاروں کا حملہ کر سکتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ رپورٹ میں 122 ملی میٹر کے جن راکٹوں کا ذکر ہے وہ ماضی میں شام کی حکومتی افواج کے ہی زیرِ استعمال رہے ہیں۔

حملے میں استعمال ہونے والی گیس کا معیار عراق میں صدام دور میں استعمال ہونے والی گیس سے بہتر تھا۔ فرانس کے وزیرِ خارجہ لوراں فیبیوس نے کہا تھا کہ جب آپ نتائج کا باریک بینی سے جائزہ لیتے ہیں تو استعمال کی جانے والی زہریلی گیس کی مقدار، اس محلول کی نوعیت اور گرنے والے راکٹوں کی سمت سے کوئی شک باقی نہیں رہ جاتا کہ یہ حملہ کہاں سے کیا گیا۔