ڈاکٹر ظفر مرزا (ظفری بھائی)

Dr. Zafar Mirza

Dr. Zafar Mirza

تحریر : شاہ بانو میر

ہے ناں حیرت کی بات

کہ

وزیر اعظم پاکستان کے مشیر صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کو

ظفری بھائی لکھ رہی ہوں

الحمد للہ

اللہ کا لاکھ شکر ہے

کہ

اس نے زندگی میں کسی بھی قسم کے حسد

اور

احساس کمتری میں کبھی مبتلا نہیں کیا

کہ

ہر راہ چلتے سے جان پہچان نکال کر قد وقتی طور پے بلند کروں

خود سے ہمیشہ نیچے دیکھنے کا یہی فائدہ ہوا

اللہ نے ہمیشہ اچھے لوگوں سے ملوایا

لیکن

اپنے وطن اور ہم وطنوں کیلئے

ذہنی سوچ کی پرواز ہمیشہ بلندی رہی

اچھے انسان زندگی میں بہت کچھ سکھاتے ہیں

ڈاکٹر ظفر مرزا کا شمار انہی میں سے ہے

اللہ کا جتنا بھی شکر ادا کروں وہ کم ہے

ہمسائے ماں جائے

اللہ نے واقعی ایسے ہی ہمسائے عطا فرمائے

ڈاکٹر ظفر مرزا ظفری بھائی کے گھر کی دیوار

سانجھی تھی

انتہائی سلجھی ہوئی فیملی

آج بھی ان کا وہی دھیما اور مہذب انداز ہے جو کل تھا

ڈاکٹر صاحب کی زندگی کو ہمیشہ پڑہائی میں مشغول دیکھا

والدہ کی وفات کے بعد آنٹی بشریٰ دوسری والدہ کے روپ میں

والد گھر لائے

ان سے دو بچے تھے ارجمند اور نصر

بڑے بھائی ظفر

جنہیں ہم سب ظفری بھائی کہتے تھے

آنٹی بشریٰ آرمی پبلک سکول میں جاب کرتی تھیں

امتحانات میں ٹیوشن کیلئے

میں بھی کسی سال بھائی کے ساتھ پڑہنے جاتی تھی

ہمارے گھر کی طرح وسیع و عریض گھر تھا

اور

مجھے وہ اسٹڈی روم اچھی طرح یاد ہے

جہاں

ایک بڑے انسان بننے کی تیاری کیلئے

ہمیشہ

ظفری بھائی کو کتابوں میں گم دیکھا

میں تب چھوٹی تھی اتنا پڑہتے دیکھ کر کبھی حیرت ہوتی تھی

مجھے علم نہیں تھا

کہ ان کے خواب کتنے بلند ہیں

یادادشت میں محفوظ ہے

وہ اسٹڈی روم

اور

ا ظفری بھائی جیسے لازم و ملزوم تھے

وہ کمرہ باہر والے حصے کی طرف تھا

تو گھنٹی بجتے ہی

دروازے کھولنے ہمیشہ ظفری بھائی ہی اٹھتے تھے

میری ان سے آخری ملاقات اندازہ ہے

کہ 2002 میں ہوئی تھی

جب چھوٹے بھائی کی وفات ہوئی

جوان مشت پر بڑے بھائی شدید صدمے کا شکار ہو گئے

سب سے بڑے بھائی کی طبیعت بہت خراب ہو گئی

میں فرانس سے گئی ہوئی تھی

آنٹی بشریٰ ظفری بھائی انکی والدہ گھر آئی ہوئی تھیں

ہمارے ارد گرد رہنے والوں کی سب سے بڑی خوبی

آج بھی یہ ہے

کہ

جتنے لوگ ہیں

وہ سب ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں

بالکل

بہن بھائیوں کی طرح شریک ہوتے ہیں

بھائی کی وفات کی وجہ سے

آنٹی دلاسہ دینے آئی ہوئی تھیں

انہوں نے مجھے کہا

کہ

ظفری اسلام آباد چلا گیا ہے

حال ہی میں شادی کی ہے اسکی

تو آجکل یہیں ہے

میرے ساتھ چلو اور اس سے بات کرو

وہ یقینی طور پے اچھا مشورہ دے گا

اس وقت ڈاکٹر بن کر اقوام متحدہ میں کام کر رہے تھے

آنٹی کے ساتھ اسی وقت ساتھ ان کے گھر گئی

تو اپنی بیگم کے ہمراہ بڑے تپاک سے ملے

وہی بچپن کا جانا پہچانا انداز تھا

ایک جیسا دھیما پرسکون لہجہ

اس وقت ان سے بھائی کے متعلق تفصیلی بات ہوئی

اور

طریقہ علاج کے ساتھ ساتھ

مزید انتہائی اہم مشورے بھی دیے

اور

دوبارہ جب بھی گوجرانوالہ آئیں گے

تو

خود گھر آکر بھائی سے ملیں گے

اس کے بعد میں واپس فرانس آگئی

حال ہی میں پاکستان گئی

تو چھوٹا بھائی جو

امریکہ سے میری بیٹی کی شادی کیلیے آیا تھا

اس نے ٹی وی پر ایک باوقار انسان کی طرف

اشارہ کرتے ہوئے پوچھا یہ کون ہے؟

اللہ جانے

میں نے لاپرواہی سے کہا

یہ ظفری بھائی ہیں نصر کے بڑے بھائی

ہیں؟

اب تعجب کی میری باری تھی

بند آواز کھولی تو آواز وہی جانی پہچانی کانوں میں گونجی

دل میں سوچا

عمران خان نے مشیران کی اتنی بھرمار کر لی ہے

کہ

قابل بندہ بھی

ان کے درمیان اپنی شناخت کھو بیٹھتا ہے

کرونا ہی کے سلسلے میں بات کر رہے تھے

تب تک کرونا

صرف ٹی وی شوز میں چین کے حوالے

کیا جا رہا تھا

اس کے ظفری بھائی کہنے پر

میں نے غور سے دیکھا

وقت کے گہرے اثرات ان کی شخصیت پر چھا چکے تھے

بچپن میں ماں کی جدائی ایسا صدمہ تھی

جس نے انہیں کبھی عام بچوں کی طرح کھلکھلانے نہیں دیا

سفید بال ان کے وقار اور تجربے کو ظاہر کر رہے ہیں

حالانکہ

پی ٹی آئی میں آپ کسی کو بوڑھا نہیں دیکھیں گے

مگر

وہ لوگ وہ ہیں

جو سیاست شہرت اور تصاویر کیلئے ہیرو ہیروئین بنے ہوئے

بہت وقت ہے ان کے پاس

کام جو کوئی نہیں کرنے کو

انہی میں چند لوگ وہ بھی ہیں

جو ڈاکٹر ظفر مرزا ہیں

ذات سے بے پرواہ قوم کی فکر

اور

اپنی ذات سے وابستہ لوگوں کے یقین کیلئے دن رات

کام کرنے والے

ان کے پاس نہ بال ڈائی کروانے کا وقت ہے

اور نہ ہی دولہا کی طرح تیار ہو کر

کیمرہ کا سامنا کرتے ہیں

میرا طویل عرصہ پاکستان جانا نہیں ہوا

اب چار سال سے متواتر کسی نہ کسی وجہ سے جانا ہو رہا ہے

تو پتہ چلا کہ

کہ

ہمارے ساتھ جو ان کا گھر تھا

وہ فروخت کر دیا

اسلام آباد شفٹ ہو گئے ہیں

والد تو طویل عرصہ پہلے وفات پا چکے تھے

بہن کی امریکہ شادی ہو گئی

بھائی نصر اسلام آباد ہی ہے

بچپن کا طویل وقت

ان کی فیملی کے ساتھ ہماری فیملی کا گزرا

یہ لکھنے کا اصل مقصد یہ تھا

کہ

ہمیشہ ان کو باوقار خاموش طبیعت دیکھا

اور

ٹھنڈے مزاج کے ساتھ

حالات کا تجزیہ کر کے

معاملات کتنے ہی مضطرب کرنے والے درپیش کیوں نہ ہوں

چہرہ گفتگو ہمیشہ پرسکون اور حوصلہ افزاء سنیں گے

ایسے آہنی کردار اشخاص کی

پی ٹی آئی کو اشد ضرورت تھی

اور ہے

بہت اچھا لگتا ہے

جب کوئی شناسا چہرہ اچھی شہرت رکھنے والا انسان

کام کرتا دکھائی دیتا ہے

آواز آتی ے کہ

ابھی مکمل نا امیدی نہیں ہے

ہزار سطحی سوچ کے مالک کارکنان

کو ایک پلڑے میں

اور

ڈاکٹر ظفر مرزا کو

تن تنہا دوسرے پلڑے میں رکھیں

انکا پلڑا جھک جائے گا

کیوں؟

اس لئے کہ

بطور بہن ہمدرد ہم وطن

اور

پی ٹی آئی سے ہم آہنگی کی وجہ سے

بہت چھوٹی عمر سے ان کو دیکھا

پڑہائی اور گھر کے اندر چھوٹے موٹے کام کے علاوہ باہر

محلے کے بچوں کے ساتھ گھر کی عقبی جانب

بڑے سے گراونڈ میں بھی کبھی کھیلتے نہیں دیکھا تھا

کیونکہ

والدہ ٹیچر تھیں

گھر کا ماحول تعلیم یافتہ تھا

اسی وجہ سے گھر میں تعلیم پر مکمل توجہ تھی

پی ٹی آئی کی نا تجربہ کار قیادت کا حکومت میں ہوتے ہوئے بھی

ہم کہیں کوئی رعب کوئی دبدبہ نہیں دیکھتے

لیکن

الحمد للہ

ڈاکٹر ظفر مرزا صاحب کی شبانہ روز محنت نے

انہیں میڈیا اور عوام کے دلوں میں اپنی انتھک محنت سے

ہمدردانہ طرز تکلم سے

آج وہ مقام دلا دیا

جو ان کے ساتھ پی ٹی آئی کیلئے بھی قابل فخر ہے

پی ٹی آئی کے پاس ان کی صورت ایسا در نایاب آ گیا

جو مقصد کے حصول تک

نہ چین سے بیٹھتا ہے

اور

نہ ہی اپنی ٹیم کو بیٹھنے دے گا

ایک درخواست ڈاکٹر صاحب سے ہے

کہ

حکومتی نعرہ درست کروا دیں

کرونا کو شکست دیں گے

جیت کر دکھائیں گے

یہ

اللہ کے غضب کو دعوت دینے والے حروف ہیں

کیونکہ

کوئی مصیبت اور پریشانی ایسی نہیں

جو

اللہ کی جانب سے نہیں آتی

آزمائش کی گھڑیوں کو برا کہہ کر

مقابلہ کرنے کی دھمکی کیا ہم

اللہ کو دے رہے ہیں؟

ہمیں یہ کہنا چاہیے

کہ ٌ

کرونا ایک آزمائش ہے

اور

ہم

اللہ سے اس آزمائش کو ٹالنے کی دعا کرتے ہیں

وہ رحیم ہے کریم ہے

ان برے دنوں کو استغفار کی برکت سے یقینا ختم کر دے گا

آج انسان باوجود سپر پاور بننے کے اتنا لاچار ہے

ٌکرونا سے بچنے کیلئے جنگ کا لفظ استعمال نہیں کرنا

اللہ سے گڑگڑا کر خود بھی التجا کرنی ہے

اور

عوام کو بھی یہی عاجزی سکھا کر نجات حاصل کرنی ہے

کہ

یہی سنت رسولﷺ ہے

بطور مسلمان ہمارا ایمان ہےٌٌ

وھو علی کل شی قدیر

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر