تحریر: میرافسر امان وزیر اعظم پاکستان نواز شریف صاحب کے متعلق یہ بات عام ہے کہ وہ ملکی معاملات میں انتہائی ہی دھیمی چال چلتے ہیں۔ ملکی معاملات میںضرورت سے زیادہ دھیمی چال سے ملکی نقصان ہوتا ہے۔ پاناما لیکس کی ہی مثال لے سکتے ہیں آج چھ ماہ سے زیادہ وقت گزر چکا ہے مگر اس پر کوئی پیش رفعت نہیں ہوئی جبکہ نواز شریف صاحب نے خود الیکٹرونک میڈیا پر دو دفعہ قوم سے خطاب کر کے کہا تھا کہ پاناما لیکس میں میری فیملی کا نام آیا ہے میں اس میںاپنے آپ کواحتساب کے لیے پیش کرتا ہوں ۔پھراس کا اعادہ پارلیمنٹ کے اجلاس میں بھی کیا تھا۔
حکومت کی طرف سے سپریم کورٹ کو تحقیقات کے خط کے جواب میںسپریم کورٹ کے حکم جس میں کہا گیا تھا کہ نیا قانون بنایا جائے جس کے تحت پاناما لیکس کے تحت لگائے الزامات پرانصاف کیا جائے، ١٩٦٥ء کے قانون سے پاناما لیکس کے الزمات پر انصاف کرنا نا ممکن ہے۔ مگر حکومت اب تک ٹال مٹول کر رہی ہے۔ کیا یہ بھی نواز شریف کی دھیمی رفتار کا شاخسانہ ہے یا یہ حکمت عملی ہے کہ وقت گزنے کے بعد لوگ اس مسئلے کو بھول جائیں گے۔ مگر اپوزیشن خاص کر ملک کی ووٹوں کے حساب سے دوسری بڑی پارٹی کے سربراہ عمران خان صاحب اس مسئلہ کو تازہ رکھے ہوئے ہیں۔ پہلے رائے ونڈ میں پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ کیا ۔اب ٣٠اکتوبر کو پاکستان کے دارلخلافہ اسلام آباد کو بند کر دینے کی کال دے رکھی ہے۔ عمران خان کا کہنا کہ نواز شریف اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کر دیں یا استفیٰ دے دیں اور مسلم لیگ نون کے کسی دوسرے شخص کو پاکستان کاوزیر اعظم بنا دیا دیں۔ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ ٣٠اکتوبر کا دھرنا پلس ہو گا۔ مولانا فضل الرحمان کے حالیہ کردار کے متعلق جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مولانا ایک شاطر سیاست دان ہیں جبکہ میں ایک سیدھا سادھا سا سیاست دان ہوں۔ دھیمی چال کی تازہ مثال مسلم لیگ نون کی مرکزی مجلس عاملہ کاتین
Imran Khan
سال بعد اجلاس کا ہونا ہے۔اس پر بھی ذرائع کہتے ہیں کہ عمران خان کے ٣٠ اکتوبر کو پاکستان کے دارلخلافہ اسلام آباد کو بند کرنے کی دھمکی پر حمایت حاصل کرنے کی کوشش ہو سکتی ہے۔ کیا ایک ملک کے وزیر اعظم کا اپنی مرکزی مجلس عاملہ کا اجلاس تین سال بعد اجلاس منعقد کرنا کسی طرح بھی صحیح کارکردگی کے زمرے میں آتا ہے یا اپوزیشن کا یہ کہنا کہ نواز شریف صاحب کاملکی معاملات کو چلانا مغل شیزادوں کی طرح کا عمل ہے۔ عمران خان صاحب کے مطابق نواز شریف صاحب کے٣٥ سال سے مسلسل حکمرانی میں رہنے کے بعد پاکستان کے تقریبا سارے ہی اداروں میں نواز شریف صاحب نے اپنے مزاج کے مطابق ہیڈ لگائے ہیں۔ جو نواز شریف صاحب کی کرپشن کے خلاف کاروائی کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔کچھ عرصہ پہلے ایک نجی ٹی کے مشہور اینکر نے اپنے ایک پروگرام میں اس بات کی نشان دہی بھی کی تھی کی پاکستان کے لاتعداد اروں کے ہیڈ نہیں لگائے گئے ۔یہ ادارے بغیر کسی ہیڈ کے چل رہے ہیں۔ اس پر نواز شریف نے خود نجی ٹی وی کے پروگرام میں آ کر کہا تھا کہ جلد از جلد ان اداروں میں ہیڈ لگا دیے جائیں گی۔ کیا اس سے یہ گمان جنم نہیں لیتا کہ نواز شریف صاحب اپنے مزاج کے ہیڈ ڈھونڈتے رہے ہونگے۔ اپوزشن کے مطابق یہی وجہ ہے کہ یہ ادارے ملک کے سپریم ادارے پارلیمنٹ کی کمیٹی کے سامنے آنے کو بھی تیار نہیں تھے۔اور جب کمیٹی نے قانونی کار وائی کے تحت ان کو بلانے کی بات کی تو بلا آخر یہ حضرات کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے۔
جب پارلیمنٹ کی کمیٹی کی طرف سے ان سے سب ا یک ایک کر کے سوال کیا کہ حکمرانوں کی کرپش کے خلاف آپ کے پاکستان کے قانون کے مطابق کاروائی کیوں نہیں کرتے تو وہ سب کے سب کے جواب تسلی بخش نہیں تھے۔ جب نیب کے سربرا ہ سے پارلیمنٹ کی کمیٹی نے پوچھا کی آپ نے نواز شریف کی کرپشن کے خلاف کاروائی کیوں نہیں کی تو انہوں نے کہا کہ بغیر ثبوت کے کرپشن کے خلاف کاروائی نہیں ہو سکتی۔ جبکہ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ ہے نیپ کے قانون کے مطابق جس پر الزام لگایا جاتا ہے وہ ثابت کرتا ہے کہ ُاس نے کرپشن نہیں کی۔اس طرح سب اداروں کے سربراہوں کے ملے جلے جواب تھے۔لاہور میں قادری صاحب کے کارکنوں کے قتل کے مقدمے کو ہی لے لیں۔اس کی ایف آئی آر قادری صاحب کے ڈرافٹ کے مطابق نہیں کاٹی جارہی تھی۔ حکومت نے اپنی طرف سے ایف آئی آر کاٹی تھی جو قادری صاحب کو منظور نہیں تھی۔ قادری صاحب کی درخواست پر فوج کے کہنے پر قادری صاحب کی خواہش کے مطابق ایف آئی آر کاٹی گئی۔ جب مقدمہ چلا توقادری صاحب کے مطابق اور جن پر الزام لگایا گیا تھا یا جو اُن کے کارکنوں کے قاتل تھے ان کو حکومت نے ترقیاں دے کر بڑے بڑے عہدوں پر لگادیا۔ کچھ کو باہر بھیج دیا گیا۔
Murder Case
قادری صاحب کے مطالبہ پر جسٹس باقر نقوی صاحب کی رپورٹ ابھی تک منظر عام پر نہیں لائی گئی جبکہ ان کو حکومت نے خود تحقیق پر لگایا تھا۔ قادری صاحب کے١٨ کارکنوں کے قتل کے مقدمے کو بھی طول دیا جا رہا ہے۔اگر پاکستان کے اداروں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو ایک قتل کے کیس میں قانون کی دھیمی رفطار کا یہ عالم ہے کہ ٢٠ سال بعد قتل کے مقدمے میں ملوث ایک شخص کو جب بری کیا جاتا ہے جو ٢ سال پہلے ہی وہ جیل میں وفات پا چکا ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ انصاف میں دیر ہی بے انصافی ہے۔ صاحبو! ان حالات میں نواز شریف صاحب عمران خان صاحب پر ترقی کے پہیّے کو روکنے کا الزام لگاتے رہتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ عمران نے اسلام آباد میں دھرنا دے کر چین کے صدر کا دورا منسوخ کرایا۔رائے ونڈ کا جلسہ کر کے ترقی کے پہیّے کو روکا۔
جبکہ عمران خان صاحب کہتے ہیں۔ میں نے شروع میں چار حلقے کھولنے کی درخواست کی تھی مگر وہ حلقے نہ کھولے گئے، ملک کی ساری سیاسی پارٹیوں نے٢٠١٣ء کے الیکشن میں دھاندھلی کا کہا تھا جس وجہ سے مجھے حکومت پر عوام کی طرف سے پریشئر ڈالنے کے لیے رجوع کرنا پڑا۔ اب پاناما لیکس پر بھی ساری سیاسی پارٹیاں یک جان ایک پیج پر ہیں۔ اور نواز شریف کو تحقیقات کرنے کا کہہ رہی ہیں مگر نوازشریف صاحب ٹال مٹول اور دھیمے پن سے چل رہیں اس لیے میں پھر اسلام آباد کو بند کرنے کے پروگرام پر عمل کرر ہا ہوں تاکہ نواز شریف صاحب پر پریشئر پڑے اور وہ یا تو ا ستفیٰ دیں یا اپنے آپ کو پاناما لیکس کے الزامات پر احتساب کے لیے تیار ہو جائیں۔ صاحبو! یہ دو بیانیے ہیں۔ اب عوام ہی بہترین انصاف کرنے والے ہیں کہ ان میں کون قصوار ہے نواز شریف صاحب یا عمران خان صاحب؟ ذرائع تو یہ کہتے ہیں کہ ان دونوں کے اختلافات کی وجہ سے عوام کا نقصان ہو رہا ہے۔مسلم لیگ نون کی مجلس آملہ کاتین سال بعد کے اجلاس میں شریک مسلم لیگ نون کے رہنما جرأت کر کے نواز شریف صاحب سے کہیں وہ ملکی معاملات میں دھیمی چال کو تیز کریں اور اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کر دیں تاکہ یہ تنازہ ختم ہو۔ اللہ پاکستان کامحافظ ہو آمین۔
Mir Afsar Aman
تحریر: میرافسر امان کنوینر کالمسٹ کونسل آف پاکستان