اسلام آباد (جیوڈیسک) کئی ناقدین کے خیال میں اگر مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کا اتحاد بن بھی گیا تو اس کا چلنا ممکن نہیں ہو گا کیونکہ دونوں ہی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کو خوش کرنے میں لگی ہوئی ہیں۔
واضح رہے کہ مسلم لیگ نون کے کچھ رہنماؤں نے حالیہ دنوں میں اس بات کا اشارہ دیا ہے کہ ماضی میں ان کی حریف رہنے والی پاکستان پیپلز پارٹی سے اتحاد ممکن ہے، جس کا مقصد پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو ’ٹف ٹائم‘ دینا ہے۔
ن لیگ کے رہنما اور سابق سینیٹر نہال ہاشمی کا کہنا ہے کہ ن لیگ اور پی پی پی پارلیمنٹ کے اندر پہلے ہی مختلف عوامی مسائل پر گفت و شنید کر رہی ہیں، ’’اور اگر اس کٹھ پتلی حکومت نے اپنی احمقانہ پالیسیاں جاری رکھیں، اگر اس نے ایسے ہی ملک کی پالیسیوں کو دوسرے کے پاس گروی رکھنے کا سلسلہ جاری رکھا اور عوام دشمن بجٹ بنایا تو پھر اس کے خلاف زبردست اتحاد بنے گا، جس میں صرف ن لیگ اور پی پی پی ہی نہیں بلکہ دوسری حزبِ اختلاف کی جماعتیں بھی شامل ہوں گی۔‘‘
تاہم ان کا کہنا تھا کہ ابھی تک کو ئی باضابطہ اتحاد نہیں ہوا ہے،’’اتحاد کا بڑا گہرا تعلق حالات سے ہوتا ہے۔ ہماری پالیسیاں مختلف ہیں لیکن جس طرح عوام دشمن پالیسیاں حکومت بنا رہی ہے۔ جس طرح سی پیک کو رول بیک کیا جا رہا ہے، جس طرح ملک کی پالیسیاں حفیظ شیخ اور اسٹیٹ بینک کا گورنر بنا رہے ہیں۔ اس سے حکومت لانے والوں کو بھی پریشانی ہو رہی ہے اور حالات اس نہج پر جا رہے ہیں، جہاں ایک مضبوط اتحاد بن سکتا ہے۔‘‘
پی پی پی کے حلقوں کا کہنا ہے کہ وہ متفقہ نکات ڈھونڈے جا رہے ہیں اور اگر وہ نکات مل جاتے ہیں تو یہ ممکن ہے کہ عوامی مفاد میں دونوں جماعتیں ایک اتحاد بنا لیں۔ پارٹی کے ایک مرکزی رہنما اور سابق وفاقی وزیرِ مملکت برائے پیداوار آیت اللہ درانی نے اس بات کی تصدیق کی کہ دونوں پارٹیوں کے رہنماؤں کے درمیان حالیہ دنوں میں ملاقاتیں ہوئی ہیں،’’ن لیگ سے ہمارے ہمیشہ سے ہی رابطے ہیں اور کچھ دنوں پہلے شاہد خاقان عباسی، خواجہ سعد رفیق اور خواجہ آصف نے چیئرمین بلاول سے ملاقات کی ہے۔ میرے خیال میں دونوں پارٹیاں مشترکہ نکات ڈھونڈ رہی ہیں۔ ہمارے خیال میں اٹھارویں ترمیم کے خلاف سازشیں، ٹیکنوکریٹس کا تسلط، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی پالیسیاں مشترکہ نکات بن سکتے ہیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ اتحاد میں کچھ مشکلات بھی حائل ہیں، ’’یہ بات واضح ہے کہ ن لیگ کا ووٹر نواز شریف کا ہے۔ ابھی ان کی جماعت میں کچھ تبدیلیاں ہوئی ہیں تو ہم ان کا مشاہدہ کر رہے ۔ ن لیگ کا جی ایچ کیو سے جو بھی رہنما نامزد ہو گا ، ہم اس کے ساتھ بیٹھ کر بات چیت کریں گے ۔‘‘
پاکستان میں کئی سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ پی پی پی اور ن لیگ دونوں میں ہی اسٹیبلشمنٹ سے دوستی اور اسٹیبلشمنٹ کو چیلنج دینے والی قوتیں موجود ہیں، جس کی وجہ سے اتحاد ہو نہیں پا رہا۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا کا خیال ہے کہ دیکھنا ہوگا کہ ان قوتوں میں کونسی قوتیں پارٹی میں زیادہ زور پکڑتی ہیں۔ ’’شہباز شریف اور آصف زرداری دونوں مسائل کے حل کے لئے اسٹیبلشمنٹ کی طرف دیکھتے ہیں جب کہ مریم نواز مسلم لیگ نون میں جب کہ بلاول بھٹو پی پی پی میں اسٹیبلشمنٹ مخالف لائن رکھتے ہیں۔ اگر دونوں جماعتوں میں بلاول اور مریم کے دھڑے طاقتور ہو جاتے ہیں تو پھر دونوں جماعتوں میں اتحاد ممکن ہے۔ ورنہ اتحاد مشکل ہو جائے گا۔‘‘
تاہم پی پی پی کے کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ ن لیگ پہلے ہی ڈیل کر چکی ہے اور دونوں جماعتوں کے درمیان جو یہ رابطے ہو رہے ہیں، ان کے مقاصد بالکل مختلف ہیں۔ پی پی پی کے ایک مرکزی رہنما نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’سب سے پہلے میں یہ واضح کر دوں کہ ساری ملاقاتیں ن لیگ کی خواہش پر ہوئی ہیں۔ ہم کسی بھی ملاقات کے لئے خود نہیں گئے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ن لیگ پہلے ہی ڈیل کر چکی ہے۔ شہباز نہیں آئے گا اور میاں صاحب کو جیل صرف ڈیل کا تاثر زائل کرنے کے لئے ڈالا گیا ہے، وہ بھی کچھ عرصے بعد باہر چلے جائیں گے۔ ایسی صورت میں ن لیگ میں فاروڈ بلاک بنے گا اور رہی سہی ن لیگ کے ساتھ مل کر ہم اپوزیشن کریں گے اور یہ ساری ملاقاتیں ان معاملات پر بات چیت کے لئے ہو رہی ہیں۔‘‘