تحریر : شہزاد حسین بھٹی اِک زرداری سب پہ بھاری کا نعرہ بلند کرنے والے آصف علی زرداری کی سیاسی بصیرت سے پوری طرح متاثر ہو کر اکثر اوقات کارکنان یہ نعرہ دہراتے ہیں مگر زرداری اس نعرہ سے اپنے کارکنوں کو منع کرتے ہیں کیونکہ وہ پاکستانی عوام کو ہر معاملہ میں ہر چیز سے بے خبر رکھناچاہتے ہیں لیکن مختلف جدیدذرائع نے دیوار کے اندر ہونے والی گفتگو کو بھی نکال باہر کیا ہے اور مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان حالیہ خفیہ معاہدہ طے پا گیا ہے ۔ ذرائع کے مطابق معاہدہ” تجدیدِ میشاق جمہوریت” کے نام سے طے پایا جس میں مسلم لیگ نواز کے سرکردہ راہنمائوں کا زرداری سے خفیہ ملاقات میں معاہدہ طے پایا ہے ۔جس کے مطابق تحریک انصاف کا راستہ رو کنے کے لیے دونوں جماعتوں میں مکمل اتفاق ہوا ہے اور اس کے لیے یہ طے پایا ہے کہ پیپلز پارٹی آئیندہ آنے والے دنوں میں مسلم لیگ ن کے خلاف بھرپور انداز میں اختلافی بیانات جاری کرتی رہے گی جس سے یہ تاثر دیا جائے کہ نواز لیگ کی سب سے بڑی مخالف جماعت پیپلزپارٹی ہے۔
اس کے مد مقابل ن لیگ بھی جوابی مخالف پر مبنی بیانات جاری کرکے عوام کو یہ تاثر دے گی کہ دونوں جما عتوںکا جو ووٹ بنک تحریک انصاف کے پلڑے میں جا رہا ہے اس کو روکا جاسکے اور آئیندہ الیکشن میں کوشش کی جائے گی کہ پیپلز پارٹی کو زیادہ سے زیادہ سیٹیں دلوائی جاسکیں اور اگرتحریک انصاف الیکشن میں کامیاب ہو بھی جائے تو اس کے پاس سادہ اکثریت آئے اورا ن کی حکومت کو چھ سات ما ہ سے زیادہ چلنے نہ دیا جائے کیونکہ اگر تحریک انصاف نے کرپشن کا نعرہ لگا کر عوامی دبائو پر احتساب شروع کر دیا تو مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی اس کی زد میں آئے گی اور دونوں پارٹیوںکواپنا وجود قائم رکھنا مشکل ہو جائے گا۔
لہذا طے یہ پایا ہے کہ دونوں جماعتیں ایسے حالات پیدا کریں گی کہ تحریک انصاف کی سیاسی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لیے عمران خان کے خلاف آئے روز کوئی نہ کوئی سکینڈل منظر عام پر لایا جائے اس لیے عائشہ گلالئی کی طرح اور کردار بھی سامنے لانے پر اتفاق ہوا ہے۔ خفیہ معاہدہ میں طے پایا ہے کہ سینٹ الیکشن میں نواز لیگ کی برتری لانے کے لیے پیپلزپارٹی مکمل تعاون کرے گی تاکہ تحریک انصاف کا دونوں ایوانوں میں بھرپور مقابلہ کیا جا سکے۔ خفیہ معاہدہ میں سب سے خطرناک پلان جو طے پایا ہے وہ یہ ہے کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن اپنے مخصوص لوگ جو ایم این اے یا ایم پی اے بننے کی اہلیت رکھتے ہیں ان کو تحریک انصاف میں بھیجا جائے گا جو تحریک انصاف میں رہ کراس کو اندر سے کھوکھلا کریںگے جس طرح نواز لیگ نے جاوید ہاشمی کو خصوصی پلان پر بھیجا تھا۔ معاہدہ میں طے پایا کہ ایم کیوایم کے ساتھ بھی خفیہ تعلقات برقراررکھے جائیں گے اور الطاف حسین سے درپردہ رابطہ جاری رہے گا۔بقول ڈاکٹر شاہد مسعودپیپلز مسلم موومنٹ تین جماعتی اتحاد قائم ہے جسکو ڈاکٹر صاحب یہ نام دے رہے ہیں ۔ اے این پی کہاں کھڑی ہے ابھی اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا تاہم آئیندہ مولانا فضل الرحمن اپنا وزن مسلم لیگ ن کے بجائے پیپلزپارٹی کے پلڑے میںڈالیں گے۔
انتظار صرف یہ ہے کہ فاٹا کو صوبہ پختون خواہ میں ضم کیا جاتا ہے یا نہیں اور دوسرا اورینج لائن ٹرین منصوبہ کی زد میں آنے والے مولانا کے مدرسے کے متبادل پنجاب یورنیورسٹی کا گرائوند پنجاب گورنمنٹ کب انکے نام کرتی ہے۔ اگر یہ دونوں کام نہیں ہوتے تو مولانان لیگ کے خلاف کھلم کھلا مخالفت کا آغاز کر دیں گے اور راہیں جدا کر لیں گے۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ دونوں جماعتوں کی ایک کو شش یہ بھی ہو گی کہ آئیندہ الیکشن کو جتنا لیٹ کیا جا سکتا ہے کیا جائے یہ دونوں جماعتوں کے حق میں زیادہ بہتر ہے کیونکہ اس وقت عمران خان کی مقبولیت عروج پر ہے۔ اس کو کم کرنے کے مختلف پلان تیارکیے جا رہے ہیںجس میں ایک غیر ملکی دوشیزہ کی خدمات بھی لی جا سکتی ہیں جسکو پاکستان لانے کے لیے پلان تیار کیا جائے گا۔ جو سیتا وائٹ ٹائپ کا کوئی کردار ادا کرے گی۔اس سازش کا آغاز ہو چکا ہے اور خاور مانیکا کی سابق اہلیہ بشریٰ بی بی جو کہ ایک روحانی شخصیت بتائی جا رہی ہیں ان سے عمران خان کی تیسری شادی کی خبر جیو اور جنگ گروپ نے میڈیا پر لا کر عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف پروپیگنڈے کا آغازکر دیا ہے تاکہ عمران خان کی شہرت کو نقصان پہنچایا جا سکے۔ شادی ہر ایک انسان کا پرسنل معاملہ ہے لیکن اسے میڈیا پر لیجا کر پروپیگنڈا کرنا کوئی اچھی روائیت نہیں ہے۔اگرچہ اس واقعے کی تردید اس کالم کے فائل کرنے تک خاور مانیکا اور بشریٰ بی بی کے بیٹے اور تحریک انصاف کے ترجما ن نے بھی کی ہے۔
نواز شریف کی طرف سے زرداری کو بلاول بھٹوزرداری کو فرنٹ لائن پر لانے کا اصرار کیا گیا ہے اور زرداری کو کہا گیا ہے کہ کیونکہ کرپشن کے حوالے سے ان کی ساکھ عوامی سطح پر خراب ہے لہذا وہ پیچھے رہیں اور بلاول کوہی زیادہ بولنے کا موقع دیں۔ نوا ز لیگ اور پیپلزپارٹی کا یہ خفیہ معاہدہ کس قدر کارگر ہو تا ہے یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ تاہم دونوں سیاسی جماعتیں اپنی کرپشن بچانے کے لیے ایک پیج پر ہیں اور نورا کشتی کا کھیل دونوں پارٹیوں کی مشاورت سے بھرپور جاری رہے گا۔ ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی عوام کو بیوقوف بنانے کا سیاسی حربہ ہو گی۔ اب عوام دونوں سیاسی جماعتوں کو آئیندہ الیکشن میں کہاں کھڑا کرتے ہیں یہ آنے والا وقت بتائے گا کہ زرداری اب کتنے بھاری ہوتے ہیں۔